تماشا کہیں جسے

امجد اسلام امجد  اتوار 26 اکتوبر 2014
Amjadislam@gmail.com

[email protected]

کہتے ہیں کہ تمام فنون لطیفہ اصل میں ایک ہی ماں کے بچھڑے ہوئے بچے ہیں۔ سو ہم دیکھتے ہیں کہ الگ ماحول اور مختلف طرزاظہار کے باوجود ان میں کچھ مشترک خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ کہیں لفظ رنگوں میں ڈھل جاتے ہیں اور کہیں رنگ بولتے نظر آتے ہیں، کہیں رقص کو اعضاء کی شاعری کہا جاتا ہے اور کہیں پتھر کے اندر محفوظ نقش کسی فن کار کے دستک دینے پر طرح طرح کے روپ دھار کر سامنے آنا شروع ہو جاتے ہیں، کہیں نغمگی کے قدِ بالا پر قبائے ساز تنگ ہونے لگتی ہے اور کہیں کسی مغنیٔ آتش نفس کی صدا جلوۂ برق فنا بن کر کوندتی نظر آتی ہے۔

فنون لطیفہ کی اس کہانی میں شاعری اور مصوری کے دو کردار تاریخی اور تخلیقی دونوں اعتبار سے نسبتاً زیادہ نمایاں اور ایک دوسرے سے قریب تر نظر آتے ہیں کہ جہاں ہمیں بہت سے شاعروں کے دیوان تصویروں کے ارژنگ نما لگتے ہیں وہاں بہت سی تصویریں بھی بولتے ہوئے مصرعوں کی طرح دل و دماغ میں گونجنے لگتی ہیں۔ ایسے میں کچھ شاعر ایسے بھی ہیں جو باقاعدہ مصور بھی ہیں اور اسی طرح کچھ مصوروں کے بارے میں بھی یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ وہ پہلے شاعر ہیں یا مصور۔ شاہنواز زیدی کا یہ شعری مجموعہ ’’تماشا‘‘ پڑھتے ہوئے میں اس سوال سے کئی بار دوچار ہوا ہوں جب کہ یہ صورت حال صادقین اور اسلم کمال کو پڑھتے وقت سامنے نہیں آتی کہ بلا شبہ وہ مصور پہلے اور شاعر بعد میں ہیں۔

’’تماشا‘‘ پر بات کرنے سے پہلے تخلیقی اظہار کے مختلف پیرایوں اور ان کے مخصوص کتابوں کے حوالے سے ایک لطیفہ نما واقعے کا ذکر ضروری ہے کہ اس میں بیک وقت قربت اور دوری کے وہ دونوں استعارے موجود ہیں جن کا تعلق شاعری اور مصوری کی زبان کے فرق سے ہے ۔کہتے ہیں کہ ایک مصور اور شاعر کی آپس میں بہت دوستی تھی۔ شاعر، مصور کو اپنی شاعری سناتا اور داد پاتا جب کہ مصور ہر نئی تصویر مکمل ہونے پر سب سے پہلے اپنے شاعر دوست کو دکھاتا اور اس کی رائے لیتا۔ ایک بار اس نے پرانے وقتوں کی کسی لڑائی کا منظر پینٹ کیا جس میں بادشاہ کے ہاتھی کو تیر کھا کر چنگھاڑتا ہوا دکھایا گیا تھا، شاعر دوست نے تصویر کی تعریف تو کی مگر ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ ہاتھی کی سونڈ کی شکل کچھ صحیح نہیں بنی۔ مصور خاموش ہوگیا۔ چند دن بعد اس نے شاعر کو دوبارہ وہی تصویر دکھائی اور کہا کہ میں نے تمہارے مشورے کے مطابق سونڈ کو ڈرائنگ کے اعتبار سے ٹھیک کردیا ہے۔ شاعر دوست نے تصویر کو غور سے دیکھا اور پھر کہا، یار یہ سونڈ ٹھیک تو ہوگئی ہے مگر اس میں وہ لطف نہیں رہا جو پہلے تھا۔ مصور نے ہنس کر کہا وہ لطف کیسے رہے گا میں جو بیچ میں سے نکل گیا ہوں۔

سو مطلب یہ ہوا کہ ہر فن کے پیمانے اس کے اپنے ہوتے ہیں، دودھ کو اگر آپ گزوں سے ناپنے کی کوشش کریں گے تو آپ کبھی کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکیں گے۔ شاہنواز زیدی کی اس شاعری میں ان کے انداز کا مصور رہ رہ کے جھانکتا دکھائی دیتا ہے۔ انھوں نے اس کتاب میں کچھ کلاسیک اور ہم عصر مصوروں پر باقاعدہ نظمیں بھی لکھی ہیں جس میں ان کی ذات اور کمال فن کی تحسین کے ساتھ ساتھ ایسی بے شمار تمثالیں بھی استعمال کی جاتی ہیں۔

جن میں مصوری اور شاعری ایک دوسرے میں مدغم ہوتے نظر آتے ہیں۔ ان نظموں میں عبدالرحمن چغتائی، خالد اقبال، اعجاز الحسن، پروفیسر پرویز ونڈل، رخ نیلوفر اور راحت مسعود سے متعلق نظمیں خاص طور پر پڑھنے کے لائق ہیں، اس کے علاوہ صادقین، وان گاگ اور کچھ دیگر مصوروں کے حوالے ان کی اپنی ایک پینٹنگ سمیت بھی آئے ہیں لیکن لطف کی بات یہ ہے کہ انھوں نے ان Tribute بنیاد نظموں کی فہرست میں اپنے کچھ محبوب ادیبوں اور شاعروں کو بھی شامل کیا ہے۔ جناب احمد ندیم قاسمی، گلزار، جو سلین سعید، رنکودتہ اور منصورہ احمد کے بارے میں لکھی گئی نظمیں اس فہرست میں شامل کی جاسکتی ہیں اور چونکہ انھیں موسیقی سے بھی خاصا شغف ہے کہ وہ خود گلوکاری بھی کرتے ہیں اس حوالے سے طبلہ نواز استاد شوکت حسین پر لکھی ہوئی ان کی نظم خاص طور پر پڑھنے کے لائق ہے۔

جہاں تک پروفیسر حسن شاہنواز زیدی کی غزلوں کا تعلق ہے یہ میرے لیے ایک Pleasant Surprise کا درجہ رکھتی ہیں۔ ان کی غزلیہ شاعری کو ایک ساتھ پڑھنے کے بعد اب میں یہ بات اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ معاصر غزل میں شاہنواز زیدی بلاشبہ اپنی نسل کے ایک بہت عمدہ اور منفرد غزل گو شاعر ہیں۔ اس مختصر تحریر میں تمام منتخب اشعار تو درج نہیں کیے جاسکتے لیکن مشتے از خروارے کے طور پر ان میں سے کچھ پر نظر ڈالی جاسکتی ہے۔

اس کو ایک غزل پہنچانی تھی جلدی میں
لیکن رستے ہیں سناٹا کھڑا ہوا تھا
چھت سے چہرے پر گرتے ہی رہے ستارے
آسمان کا خیمہ تھوڑا پھٹا ہوا تھا
مشک بھری ہے میں نے دونوں ہاتھ کٹا کر
سوچوں کے پانی پہ پہرہ لگا ہوا تھا
میں اسے بھول گیا تاکہ اسے یاد نہ آؤں
کتنا محبوب مجھے بھولنے والا تھا مرا
جو شعر ہو نہ سکا کچھ مصوری کرلی
زباں دراز کو راس آئے بے زبانی کہاں
کوئی ہے جو مجھے کہتا ہے براک سانس کے ساتھ
پیکر خاک تجھے میں نے سنبھالا ہوا ہے
اس طرح میرے قبیلے میں کبھی ہوتا نہیں
کیسے جاؤں تیرے غم کی میزبانی چھوڑ کر
وقت کی آنکھوں میں دیکھی کالی گھنگھور گھٹا
لیکن گز بھر چھاؤں نہیں تھی جب میں پار گیا
شام اپنے طلسمات میں ڈوبی ہوئی آئی
چاند اپنے خیالات میں ڈوبا ہوا نکلا
نجانے شہر سے کیوں گاؤں میں لے آئے ہو مجھ کو
یہاں سب بھاگتے ہیں اور مجھے چلنا نہیںآتا
اور آخر میں یہ لطیف اور باکمال شعر کہ:
حیات کیا ہے اس کس طرح گزارنا ہے
کسی فقرے سے پوچھوں تو کچھ سمجھ آئے

آزاد نظم کی تاریخ کوئی بہت زیادہ پرانی نہیں۔ شاہنواز زیدی کی تمام نظمیں اسی ہئیت میں لکھی گئی ہیں۔ وہ شعر اور موسیقی دونوں کی باریکیوں، رمزوں اور قوت سے آشنا ہیں اور ان سے کام لینے کی بھی کوشش کرتے ہیں لیکن اکثر ان کا بیانیہ نغمگی اور موسیقیت پر حاوی ہوجاتا ہے۔

اگر وہ اس طرف زیادہ توجہ دیں تو مجھے یقین ہے کہ ان کی نظموں میں وہ کیفیت مزید بڑھ جائے گی جس کی وجہ سے سامعین اور قارئین کو نظموں کی لائنیں اور بند غزل کے اشعار کی طرح یاد ہوجاتے ہیں البتہ جہاں تک ان نظموں کے ٹریٹمنٹ کا تعلق ہے وہ موضوعات کے تنوع کے باوجود ہر نظم کو اس کا انفرادی تشخص اور معنویت دینے میں کامیاب نظر آتے ہیں۔ ان کی جن نظموں نے مجھے زیادہ متاثر کیا ان میں ’’ایک منظر‘‘، ’’ٹائم مشین‘‘، ’’ایک امریکی فوجی کا خط‘‘، ’’میراث‘‘، ’’احمد ندیم قاسمی‘‘، ’’عمل چغتائی‘‘ اور ’’محبت کی سمجھ مشکل سے آتی ہے‘‘ زیادہ نمایاں ہیں۔

حسن شاہنواز زیدی کا یہ شعری مجموعہ ’’تماشا‘‘ اپنے نام کے حوالے سے بھی ایک مخصوص معنویت کا حامل ہے لیکن زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اس تماشے کو دیکھنے والی آنکھیں اوراس کے تسلسل کو سمجھنے اور بیان کرنیوالا ذہن کس سطح کا ہے اور بلا شبہ شاہنواز زیدی نے اس امتحانی سوال کا ایسا مربوط اور خوبصورت جواب دیا ہے کہ اس کتاب کی اشاعت کے بعد سے یقینا ان کا شمار اپنے دور کے نمائندہ شعراء میں ہوا کریگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔