ہائے کیا لوگ تھے جو دام اجل میں آئے

رئیس فاطمہ  اتوار 26 اکتوبر 2014
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

اکتوبر کا مہینہ ہمیشہ مجھے غم زدہ کردیتا ہے، اس لیے کہ اسی مہینے میں ملک کے پہلے وزیر اعظم نواب زادہ لیاقت علی خاں کو ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت باقاعدہ پلاننگ کے ساتھ اس طرح اور صفائی سے راستے سے ہٹایا گیا کہ کوئی سراغ ایسا نہ چھوڑا گیا جس کی مدد سے قاتلوں تک پہنچا جاسکتا۔ سب کچھ جھٹ پٹ ہوگیا، سید اکبرکو اسٹیج کے سامنے کی صف میں بٹھایا گیا۔ اور سید اکبر کو ختم کرنے کے لیے ایک اور مہرہ تیار تھا۔ اسکاٹ لینڈ یارڈ کی تحقیقاتی ٹیم تمام اہم ثبوتوں کے ساتھ فائل مرتب کرکے واپس جا رہی تھی تو اس جہاز کو بھی فضا میں تباہ کروا دیا گیا تاکہ لیاقت علی خاں کی شہادت سے جڑے ان بڑے سیاست دانوں کے نام سامنے نہ آجائیں جنھوں نے باقاعدہ یہ سازش تیار کی تھی۔

اسٹیج پر صرف ایک ہی کرسی رکھی گئی تھی کہ اگر کہیں قاتل کا نشانہ چوک جائے تو کوئی دوسرا نہ مارا جائے۔ سوچنے کی بات ہے کہ کبھی کہیں ایسا ہوا ہے کہ ملک کی اعلیٰ ترین شخصیت کے لیے بنائے گئے اسٹیج پر پروٹوکول کے مطابق تین چار دوسری اہم شخصیات موجود نہ ہوں؟ نواب زادے کے لبوں پر آخری الفاظ یہی تھے کہ ’’خدا پاکستان کی حفاظت کرے۔‘‘ غالباً نہیں بلکہ یقینا انھیں اس مکروہ صورت فالج زدہ سازشی کا چہرہ یاد آگیا ہوگا جسے وہ کابینہ سے نکالنا چاہتے تھے ۔ وہ شخص جو نواب زادہ تھا اور اپنا سب کچھ ترک کرکے پاکستان کی محبت میں یہاں آگیا تھا۔ اس کی شیروانی کا کالر پھٹا ہوا تھا اور جیب میں صرف ساڑھے سولہ روپے تھے۔ ان کی شہادت کو کسی نے کیش نہیں کرایا۔ آج تک قاتلوں کے نام سامنے نہ آسکے جب کہ یہ ایک کھلا راز ہے جو ایمان دار اور اپنے مقدس پیشے سے مخلص صحافیوں اور تجزیہ کاروں کی بدولت پوری طرح تمام سربستہ رازوں سے باہر آچکا ہے۔

لیکن پھر اسی شہر میں اور اسی جگہ بے نظیر بھٹو کو نہایت بے رحمی سے قتل کردیا گیا جو تیسری بار وزیر اعظم بننے آئی تھیں لیکن نہ بن سکیں۔ وہ تو وزیر اعظم نہ بن سکیں، لیکن ان کا بہیمانہ قتل پی پی کی جیت کا سامان بن گیا۔ پارٹی کو بے نظیر بھٹو کی شہادت کے عوض Sympathy ووٹ مل گئے۔ پیپلز پارٹی نے پانچ سال زبردست ہنی مون پیریڈ گزارا۔ لیکن بی بی کے قتل کے تمام شواہد بالکل اسی طرح دھو دیے گئے جیسے لیاقت علی خاں کے قتل سے جڑے لوگوں کو موقع واردات پر ہی ختم کردیا گیا تھا۔

لیاقت علی خاں کا تو کوئی والی وارث نہ تھا جو قاتلوں کو پکڑنے کا مطالبہ کرتا لیکن پورے پانچ سال کی مدت پوری کرکے اپنا نام تاریخ میں درج کرانے والی پارٹی اپنی لیڈر کو انصاف نہ دلا پائی۔ کون سی رکاوٹ تھی، ان کی شہادت سے جڑے لوگ ایک ایک کرکے مار دیے گئے۔ کہنے کو تو بہت کچھ ہے۔ لیکن مجھے اب بلاول زرداری کی ڈرامائی لانچنگ کے دوران کہے گئے ان الفاظ سے خوف بھی آرہا ہے اور کسی ممکنہ خطرے کی بو بھی محسوس ہو رہی ہے۔ جس میں بلاول نے کہا کہ ’’ہم شہادت پہ سوگ نہیں جشن مناتے ہیں۔‘‘ خدا رحم کرے۔

اکتوبر ہی کے مہینے میں فرشتہ صفت انسان اور معالج حکیم محمد سعید کو بھی سچ بولنے کی بھیانک سزا دی گئی۔ وہ جو ناصر کاظمی نے کہا ہے نا کہ:

زندگی جن کے تصور سے جلا پاتی تھی

ہائے کیا لوگ تھے جو دام اجل میں آئے

اس شعر کے ساتھ ہی میری نظروں میں حکیم صاحب کا مشفق چہرہ گھوم جاتا ہے۔ وہ شخص جو سندھ کا گورنر بننے کے بعد بھی اپنے مریضوں میں شفا بانٹتا رہا۔ جس کا یہ ماننا تھا کہ اگر پاکستان کے دولت مند سیاست دان اپنی بیرون ملک رکھی ہوئی دولت لے آئیں۔ تو ہمیں آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ بلکہ ہم موجودہ تمام قرضہ بھی واپس کرسکتے ہیں۔ لیکن حکیم صاحب باوجود اتنا وسیع ذہن رکھنے کے یہ کیوں بھول گئے کہ پاکستان تو بنا ہی ان سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے تحفظ کے لیے ہے جن میں سے ہر ایک کی جیب میں اپنی اپنی برادری کے ووٹ ہیں۔ ان ووٹوں سے کسی بھی پارٹی کو جتوا کر جب وہ قومی وصوبائی اسمبلی کے معزز رکن بنتے ہیں تو ایک ہی جھٹکے میں اپنی کئی نسلوں کے لیے خزانے بھرلیتے ہیں جب کہ ان کی برادری کی حالت ویسی ہی رہتی ہے۔

جیسی کہ الیکشن سے پہلے۔ لیکن حکیم صاحب بس تہذیب کے پروردہ تھے اس میں حق بات کہنا ہی انسانیت کی معراج سمجھی جاتی ہے۔ لیاقت علی خاں اور حکیم محمد سعید دونوں کو اس بات کی سزا دی گئی کہ وہ چوروں اور ان کے سرغنہ کو جان گئے تھے۔ حکیم صاحب کی زندگی میں ہی بہت سے لوگ ان سے حسد اور جلن کا شکار ہوگئے تھے۔ ایک بار باقاعدہ پلاننگ کے تحت ان کے دوا خانے کو آگ لگادی گئی۔ جب کہ وہ تو سب کے لیے سراپا محبت و انکسار تھے۔  انھوں نے اپنے دوا خانے کے معمولات تک نہیں بدلے۔ مریضوں کی مرہم پٹی کی کوئی قیمت نہیں لی جاتی تھی کوئی طیب یا طبیبہ اگر نسخے میں کسی بھی قسم کے ٹیسٹ لکھ کر دیتے تھے تو وہ تمام ٹیسٹ مفت ہوتے تھے۔ ان کی کوئی اضافی رقم نہیں لی جاتی تھی۔

میرے خاندان کو بالخصوص والد، والدہ اور ماموؤں کو حکیم صاحب سے جو عقیدت اور لگاؤ دہلی سے تھا وہی مجھے آج تک محسوس ہوتا ہے۔ ان کا سراپا، شیروانی اور چوڑی دار پاجامہ، خوش مزاج، خوش مذاق اور کافی سنجیدہ بھی۔ میں انھیں کبھی نہیں بھلا سکتی۔ انھوں نے میرے معدے کے السر کی بنیادی وجہ سمجھ کر جس طرح شفقت سے میرے سر پہ ہاتھ رکھ کے میری والدہ کے انتقال کی خبر سن کر کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد کہا تھا ’’ناشتہ نہ کرکے خود اپنا نقصان کروگی۔ اب آپ کی والدہ زندہ نہیں ہیں، اس لیے اپنا خیال خود ہی رکھنا ہوگا۔ معدے کی تیزابیت بعض اوقات بہت خطرناک ہوتی ہے۔‘‘ پھر انھوں نے مجھ سے وعدہ لیا کہ مرچ مصالحوں سے پرہیز کروں گی۔ دوا باقاعدگی سے کھاؤں گی۔ ناشتہ ضرور کروں گی، کیلے اور دودھ کو دوا کے طور پر پابندی سے استعمال کروں گی۔

انھوں نے بجائے بیرون ملک بینک بیلنس بڑھانے نجی یونیورسٹیاں کھلوائیں۔ ان کی ذہین اور بلند سماجی مرتبہ رکھنے والی صاحب زادی محترمہ سعدیہ راشد اپنے والد کے مشن کو مسلسل آگے بڑھانے میں سرگرم عمل ہیں۔ انھوں نے اپنے والد کی شہادت کو اپنے ذاتی فائدے کے لیے کبھی استعمال نہیں کیا۔ حالانکہ وہ چاہتیں تو ایسا کرسکتی تھیں۔ لیکن یہ ان کے خون میں شامل نہیں۔ وہ ایک سادہ مزاج اور بااخلاق خاتون ہیں۔ ان سے ملنے کے لیے کسی پروٹوکول کی ضرورت نہیں اس لیے کہ جس طرح حکیم صاحب حسن اخلاق اور انکسار یہ سب سے زیادہ زور دیتے تھے۔ اسی طرح سعدیہ صاحبہ بھی اپنے والد محترم کے نقش قدم پر گام زن ہیں۔ خدا انھیں ہر مرحلے میں اپنے عظیم والد کی طرح کامیابیاں عطا فرمائے۔

آج کا منظرنامہ بڑا بھیانک ہے جس شہر میں ایدھی صاحب لٹ جائیں، اس لیے کہ شہر کی تمام پولیس (22 ہزار سے زائد) لاشوں پہ جشن منانے والوں کی سیکیورٹی پہ مامور تھی۔ وہاں عام آدمی کی اوقات کیا ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے:

جس دور میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی

اس دور کے سلطاں سے کوئی بھول ہوئی ہے

اب بادشاہ سلامت، سلطان معظم ذرا غور فرمائیں کہ ان کی کن کن بھولوں کی سزا عوام کو بھگتنی پڑ رہی ہے۔ ڈکیتی، لوٹ مار، ٹارگٹ کلنگ، تمام عذاب قوم کے لیے حکمرانوں کے لیے بلٹ پروف گاڑیاں، ہیلی کاپٹرز اور بوقت ضرورت جشن مرگ ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔