ہوا کا رخ بدل رہا ہے

شہلا اعجاز  اتوار 26 اکتوبر 2014
 shehla_ajaz@yahoo.com

[email protected]

سویڈن کے منتخب ہونے والے نئے صدر نے فلسطین کی شناخت کو ایک ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کا نعرہ لگایا تو اسرائیل میں اس پر بہت ابال اٹھا لیکن یہ ابال اس وقت مزید شدت اختیار کرگیا جب برطانیہ کی جانب سے بھی اسی قسم کا رجحان سامنے آیا۔ سویڈن کی حیثیت مغربی ممالک میں جیسی بھی ہے لیکن برطانیہ کی اپنی کرسی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پکی ہے۔

اس کونسل کی پکی کرسی کی اہمیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، اسرائیل ایک طویل عرصے سے ہٹ دھرمی کی پالیسی پر قائم تھا دنیا بھر میں امیر یہودیوں کی کاروباری تنظیموں نے بظاہر ملکوں میں اپنے پنجے مضبوطی سے گاڑے ہوئے تھے، گویا معیشت کے گھوڑے پر ان کی ہی باگیں تنی تھیں لیکن ماضی سے لے کر آج تک عوام کے مضبوط کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، دنیا کے کونے کونے سے عوام کی آواز نے فلسطینی معصوم شہریوں کے اتلاف  پر احتجاج بلند کیا جس کی بازگشت آج بھی کم نہیں ہوئی ہے۔ ان تکلیف دہ کارروائیوں میں جو اسرائیلی فوجیں بہانے بہانے سے کرتی رہیں اکیس سو کے قریب فلسطینیوں کے خون سے تحریر ہیں۔

سویڈن کے پہلے باہمت قدم نے اسرائیلی حکومت کے ایوانوں کو جھنجھوڑ ڈالا اسرائیل کے وزیر خارجہ کا اس سلسلے میں کہنا تھا کہ اسٹیفن لوفن نے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان تنازعے کو سمجھے بغیر ہی اپنا فیصلہ دے دیا۔ سویڈن کے اس عمل سے اسرائیل کی خارجہ پالیسی اور وزیر پر بھی اسرائیل میں نکتہ چینیوں کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے حالانکہ 2012 میں لوفن نے فلسطین کے صدر محمود  عباس سے وعدہ کیا تھا کہ وہ فلسطین کو ریاست کے طور پر ضرور شناخت کرائیں گے اور اب جب کہ وہ باقاعدہ طور پر حکومتی ارکان کے اہم رکن بن چکے ہیں، اپنے وعدے کو پورا کرچکے ہیں۔

اس سلسلے میں حماس کی جانب سے اس تشہیری مہم کا بھی بہت اہم رول رہا ہے جو اس نے دنیا بھر کے میڈیا میں انجام دیا، فلسطینی خون کے ضیاع کو آج کا جدید میڈیا دنیا بھر کے سامنے کھول کر لے آیا۔ اینکر پرسنز سے لے کر عوامی نمائندے اور ایک عام شہری بھی اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا اس تباہ کن بمباری اور دہشت گردی کے نتیجے میں ہونے والی خونریزی نے اسرائیل کی مکارانہ چالوں کا پول کھول دیا۔ عوام الناس کے دل میں اسرائیلی حکومت، اسرائیلی فوج اور اسرائیل سے منسلک عام استعمال کی اشیا کی خریدو فروخت کے لیے نفرت انگیز جذبات عود کر آئے جس کا عام مظاہرہ فیس بک پر آنے والی پوسٹوں سے ہوتا رہتا ہے۔

لوگ ایک ایسی صنعت کی بنی اشیا کے استعمال کو کھلے عام ترک کر رہے ہیں جس کا تعلق انسانی جانوں کو بے دردی سے قتل کرنے سے ہو، یہ رجحان عالمی سطح پر حکومتوں کے لیے ایک فکری سوچ بیدار کر رہا ہے۔ جب کہ اسی تنازعے کے پس منظر میں عرب ممالک میں بہت سے دوسرے عوامل مصلحتوں کے اندیشوں میں ڈوبے نظر آتے ہیں ایسے میں ایک مسلم ریاست جسے اپنی شناخت کے طور پر تسلیم کرنا ہمیشہ مشکل مرحلہ رہا ہو۔ دو غیر اسلامی ممالک کی جانب سے اس قسم کے مثبت رجحانات آنے والی دنیا پر خوشگوار اثرات مرتب کرسکتے ہیں یعنی دنیا امن سے رہنا چاہتی ہے، یہ انسانی جانوں کے مقبروں پر کاروباری صنعتوں کے مینار نہیں کھڑے کرنا چاہتی۔ یہ انسان کو اس کا حق دلانا چاہتی ہے۔

آزادی سے سانس لینے کا حق، کسی بھی خطے پر زبردستی محکومیت نہ رکھنے کا حق۔ 1948 میں فلسطین میں اسرائیل کی حکومت قائم کردی گئی تھی جب سے لے کر آج تک فلسطینی ایک مظلوم خطے کے طور پر خبروں کی حد تک دنیا میں سنا گیا لیکن اس مسئلے کے حل کے لیے کسی نے سنجیدگی نہ دکھائی یہاں تک کہ اسلامی ممالک کی او آئی سی بھی اس سلسلے میں صرف قراردادیں  پاس کرتی رہی ۔ 1969 میں مسجد اقصیٰ کی آتش زدگی کے سانحے نے اسلامی ممالک کو ہلا کر رکھ دیا تھا اسی وجہ سے بائیس ستمبر 1969 کو مراکش کے شہر رباط میں اسلامی ممالک کے سربراہ اور نمائندے جمع ہوئے۔

اس واقعے کے بعد یہ کانفرنس خاصی اہم تھی سعودی عرب کے شاہ فیصل شہید اس سلسلے میں خاصے سرگرم تھے وہ چاہتے تھے کہ باضابطہ طور پر اسلامی ممالک متحد ہوکر عملی طور پر قدم اٹھائیں ایسے میں 1975 میں ان کی شہادت نے بہت سے گرم جذبوں کو سرد کردیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 1967 میں عرب اسرائیل جنگ میں بیت المقدس کا شہر اردن سے چھینا گیا تھا لیکن اردن کے شاہ حسین اور مراکش کے شاہ حسن کے حوالے سے اس شہر کی واپسی کے لیے کوئی کارروائی منظر عام پر نہ آئی بلکہ اسرائیل سے دوستی کرنے والوں میں ان حضرات کا رویہ خاصا مثبت تھا۔

سیاسی منظر نامے کے حوالے سے فلسطین ایک مظلوم ملک کی حیثیت سے آج تک سسک رہا ہے کبھی عرب ممالک کی سیاست کو کیمپ ڈیوڈ کے معاہدوں میں الجھایا گیا تو کبھی اسرائیلی امریکی دوستی کی آڑ میں اس کا حق غصب کیا گیا لیکن حالیہ سویڈن اور برطانیہ کی جانب سے نئے رجحانات سے اظہار ہو رہا ہے کہ اب ہوا کا رخ بدل رہا ہے عوام بیدار ہو رہی ہے اس بیداری کی ہوا کی زد میں کیا کچھ آتا ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتا سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔