اے اللہ، خیر کی بارشیں برسا

عابد میر  اتوار 26 اکتوبر 2014
khanabadosh81@gmail.com

[email protected]

یہ بلوچی فوک کا ایک ٹکڑا ہے، جس میں ایک عام بلوچ خیرکی دعا مانگتا ہے،امن کی تمنا کا اظہار کرتا ہے… امن، جو خوش حالی لاتا ہے، وصل کا باعث بنتا ہے، امن جو انسانی سماج کی حتمی منزل ہے۔ بلوچ فوک لور میں شامل یہ مکمل دعائیہ کلمات کچھ یوں ہیں:

’’ اے اللہ! خیر کی بارشیں برسا / میٹھے پانی کے تالاب بھر دے / دُور دراز جانے والے پردیسیوں کو واپس لا / مویشی رکھنے والے بڑے بڑے مال داروں کو / ہار سنگھار کی ہوئی عورتوں کو واپس لا / یہ دنیا چند روزہ ہے / محبوب کے ساتھ وصال نصیب ہو / اورہم وصال کے موقع پر دل کی باتوں کا تبادلہ کریں ۔‘‘

لیکن ’درد کی انجمن‘ بنا ہوا بلوچوں کا دیس ایک طویل عرصے سے امن کی بارش کو ترس رہا ہے۔ ذرا خیر کی بوندیں نہیں برستیں، کہ جنگ کا‘ بدی کا قاتل سورج پھر نصف النہار پہ آ جاتا ہے۔ خیر کا خواب ابھی تعبیر کے ساحل پہ لنگر انداز نہیں ہوتا کہ جنگ کا طوفان اس دیس کے بحر بیکراں میں تلاطم برپا کر دیتا ہے۔ ایک طویل عرصے سے خیر و شر کی یہ کشمکش اس دیس کا مستقل مقدر بنی ہوئی ہے۔

خیر و شر کی جنگ تو خیرکوئی نیا تصور نہیں، نا انسانی سماج کے لیے یہ کوئی نیا عذاب ہے۔ اس جنگ کے اصل المیے کا آغاز وہاں سے ہوتا ہے جب سماج کے صاحب الرائے افراد اپنی شعوری سطح کے مطابق برسرعام خیرکو خیر اور شر کو شر نہ کہہ  سکیں، محض اس سبب سے کہ ایسا کوئی بھی اظہار انھیں ’غدار، ملک دشمن، وطن دشمن، ایجنٹ‘ وغیرہ کی فہرست میں لا کر ابدی نیند سلانے یا زندہ رہتے ہوئے مرگِ مستقل کا باعث بن سکتا ہے۔

جب سماج کے باشعور اور حساس ترین احباب قلم کو مصلحت کی نذر کرنے کا مشورہ کرنے لگیں، جب محض آزادانہ رائے کا اظہار ہی آپ کی جان کی قیمت ٹھہرے تو اُس سماج کے قبرستان بننے میں بھلا کیا کسر باقی رہ جاتی ہے۔ جان کی امان کے عوض تحریر کو ترک کرنے کا مشورہ جالبؔ ایسے باغی کو بھی ملا تھا، اور اس سر پھرے نے اس مشورے کو اس تحقیر کے ساتھ یوں ’برسرعام ‘کر دیا کہ،

ہم سے کہتے ہیں کچھ یار ہمارے مت لکھو

جان اگر پیاری ہے پیارے مت لکھو

جالبؔ نے ایسے ہر مشورے کو نوکِ پا اور سماج کے ہر درد کوسدا نوکِ قلم تلے رکھا، کہ اسی سے جاں کا قرض ادا ہوتا تھا، اسی سے قلم کی سرفرازی ہوتی تھی۔ قلم تھامنے والے یہ جانتے ہیں کہ جس روز آپ اسے اپنے ہاتھ میں لیتے ہیں، گویا اسی روز اپنا سر ہتھیلی پہ رکھ دیتے ہیں۔ یہ ممکن نہیں کہ آپ اہلِ قلم ہو کر اہلِ درد کا ساتھ نہ دیں۔ یہ ممکن نہیں کہ کوئی اہلِ شعور عوام کی نسبت کسی طاقت ور طبقے کے ساتھ کھڑا ہو… کہ اہلِ قلم، انسانوں کو کسی نام و نسبت سے نہیں، محض ایک ہی تعارف سے جانتے ہیں؛

ایک ظلم کرتاہے، ایک ظلم سہتا ہے

آپ کا تعلق ہے کون سے گھرانے سے

البتہ، مجھے اجازت ہو تو ظلم سہنے کو میں ’ظلم سے لڑنے‘ سے بدل دوں،(ایک ظلم کرتا ہے، ایک اس سے لڑتا ہے) کہ جو لکھنے والا مظلوم انسانوں کو ظلم کے خلاف لڑنے کا درس نہ دے، وہ گویا قلم کے ساتھ، تحریر کے ساتھ زناکاری کا مرتکب ہوتا ہے۔ سو، حالات کیسے ہی کٹھن کیوں نہ ہوں، معاملات کیسے ہی جان لیوا کیوں نہ ہوں، حق کہے بنا بات نہیں بنتی۔

اور حق یہ ہے کہ بلوچستان میں جب بھی کسی عام آدمی کی لاش گرتی ہے ، ساحر ؔکی آوازکی بازگشت یہاں کے پہاڑوں میں تادیر گونجتی رہتی ہے؛’خون اپنا ہو کہ پرایا ہو، نسلِ آدم کا خون ہے آخر۔‘ اہلِ سیاست خواہ اس حقیقت کو نہ جانیں پر اہلِ دل مانتے ہیں کہ ’ٹینک آگے بڑھیں کہ پیچھے ہٹیں، کوکھ دھرتی کی بانجھ ہوتی ہے۔‘ امن کے لیے ترسی ہوئی زمین پہ جب بھی عام آدمی کا خون گرتا ہے(خواہ وہ کسی بھی نسل کا ہو) ،اس کی کوکھ کے بانجھ پن میں اضافہ کرتا جاتا ہے۔ اور جب دھرتی کی کوکھ بانجھ ہوتی ہے تو لکھنے والوں کے ذہن بانجھ ہوجاتے ہیں۔

بلوچستان میں ریاستی اداروں کی جانب سے مختلف الزامات (اور کبھی کبھار بنا الزامات کے )عام انسانوں کو نشانہ بنانے پر انھیں ہدفِ ملامت بنانے والوں کے لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ متحارب قوتوں کی جانب سے کسی دوسری نسل کے عام انسانوں، مزدوروں، محنت کشوں کو نشانہ بنانے پہ چپ سادھ لیں۔ نہیں صاحب، یہ نسل پرستی کی انتہا ہوگی کہ آپ ایک طاقت ور حلقے کی جانب سے عام انسانوں کو نشانہ بنانے کی مذمت کریں اور دوسرے طاقت ور حلقے کی جانب سے اسی عمل کو محض’ردِ عمل‘ قرار دے کر اس سے کنی کترا لیں یا اس کے لیے ’قومی کاز‘ کے پس منظر میں جواز تراشیں۔ تشدد ،خواہ سامراجی ہو کہ دفاعی ہر صورت میں قابلِ نفرین ہے۔

بالخصوص ایسا تشدد جو بے گناہ انسانوں کو اپنی لپیٹ میں لے لے، کسی طور قابلِ دفاع نہیں ہو سکتا۔ نسلی تشدد تو شاؤنزم کی گھناؤنی شکل ہے۔ شعوری جدوجہد سے وابستہ احباب بھلا کیسے اس سادہ سی حقیقت کو نظر انداز کر سکتے ہیں کہ عقیدے اور خاندان کی طرح، نسل ہمارا فطری و نجی انتخاب نہیں ہوتی۔ نہ ہی یہ لازم ہے کہ کسی نسل سے وابستہ ہر فرد قابلِ نفرین ہو۔ نسلی شناخت، انسانوں کے عمل کو جانچنے کا واحد پیمانہ نہیں ہو سکتی۔ اس لیے محض نسلی وابستگی کی بنا پر عام انسانوں کو نشانہ بنانا ہر سطح پر اور ہر لحاظ سے قابلِ نفرت و قابلِ مذمت ہونا چاہیے۔

جیسے ریاست کے حامیوں کے لیے بلوچستان میں محض نسلی وابستگی کی بنا پر نادیدہ قوتوں کے ہاتھوں کسی عام بے گناہ بلوچ کے قتل کا دفاع مشکل ہوتا ہے، اسی طرح بلوچستان سے جب بھی محض نسلی وابستگی کی بنا پر کسی غیر بلوچ کی لاش جاتی ہے،تو بلوچستان کے حقوق کی بازیابی کی جدوجہد سے وابستہ احباب کے لیے اس کا دفاع نا ممکن ہوتا ہے۔

جیسے طاقت ور قوتوں کی جانب سے ہر معصوم بلوچ کی لاش ، شہریوں کی ریاست سے وابستگی میں دراڑ ڈالتی ہے، اسی طرح بلوچستان سے جانے والی کسی بھی عام بے گناہ آدمی کی لاش، بلوچستان کے مقدمے کو کمزور بناتی ہے۔ یہ عمل بلوچستان کے ، بلوچوں کے خیر خواہوں اور ہم دردوں کی تعداد میں کمی کا باعث بنتا ہے۔ عام انسانوں کی زندگی کو باسہولت بنانے والا انقلاب ،جب عام انسانوں کو اپنا ایندھن بنانے لگے، تو گویا وہ اپنی قبر خود ہی کھودنا شروع کر دیتا ہے۔

ہمارے پورے خطے میں اس وقت شر کو خیر پہ عارضی سہی، برتری حاصل ہے۔ جنگ، امن پہ حاوی ہے۔ بدی، نیکی کو مات دیے ہوئے ہے۔ ادنیٰ، اعلیٰ کی جگہ لیے ہوئے ہے۔ اس لیے ایسے میں دلیل کی، منطق کی، شعور کی، حق کی بات کانٹے کی طرح کھٹکتی ہے۔ اہلِ الرائے اصحاب ایسے میں خود کو بے بس، لاچار و کمزور محسوس کرتے ہیں۔ سو، وہ محض اس دعا پہ ہی قناعت کرتے ہیں کہ، ’اے اللہ، خیر کی بارشیں برسا!‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔