خون خاک نشیناں (2)

اوریا مقبول جان  اتوار 26 اکتوبر 2014
theharferaz@yahoo.com

[email protected]

بلوچستان میں بسنے والے پنجابیوں کی اکثریت اگر مزدور پیشہ ہے‘ رزق کی تلاش میں بے گھر ہونے والے ہیں تو پھر انھیں اسقدر قابل نفرت کیوں بنا کر پیش کیا گیا کہ بندوقوں کا رخ ان ریاستی اداروں کی طرف نہیں ہوتا جن سے نفرت ہے بلکہ کسی دکان میں کام کرتے حجام‘ کسی بس میں سفر کرتے مسافر‘ یا کسی فیکٹری میں موجود مزدور کو پہچان کر نشانہ بنایا جاتا ہے۔ بلوچستان سے ہزاروں بلوچ اور پشتون پنجاب کے شہروں میں آباد ہیں۔

لاہور میں باقاعدہ پشتون خواہ ملی عوامی پارٹی کی تنظیم ہے جس کا سربراہ سلیم کاکڑ پشین کے نزدیک ایک گائوں کلی فیضو کا رہنے والا نوجوان ہے۔ کیا ایسی کسی لسانی پارٹی کا تصور بھی کوئی پنجابی کسی دوسرے صوبے خصوصاً بلوچستان میں کر سکتا ہے۔ ہر بڑے شہر میں بلوچستان سے آئے ہوئے بلوچوں نے بلوچ سجی کے نام پر کھانے پینے کی دکانیں کھولی ہوئی ہیں‘ جہاں پنجابی انتہائی شوق سے جاتے ہیں۔

حاجی فیروز خان لہڑی اور اس جیسے بلوچ ٹرانسپورٹرز اور وہاب پیر علی زئی جیسے بلوچستان کے پشتون ٹرانسپورٹرز کی کئی سو بسیں اور ٹرک روز پنجاب کے علاقوں سے گزرتے ہیں اور انھیں ایک دن کے لیے بھی کسی سیکیورٹی کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ ان میں روزانہ بلوچستان کے ہزاروں بلوچ‘ بروہی اور پشتون سفر کرتے ہیں۔ روزانہ ہزاروں ٹرک چمن اور تفتان کی سرحدوں اور بلوچستان کے باغات سے روانہ ہوتے ہیں۔ رحیم یار خان سے لے کر اٹک تک پھیلی سڑکوں پر بلوچستان سے آنے والے پشتون اور بلوچ افراد کے ہوٹل دن رات چلتے ہیں۔

یہ سب اس معاشرے میں عام آدمی کی حیثیت سے ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں‘ ایک دوسرے کا دکھ بانٹتے ہیں۔ اس لیے کہ وہ جانتے ہیں کہ تلاش رزق میں گھر بار چھوڑنا کسقدر اذیت کی بات ہوتی ہے۔ میں جب بھی کسی ایسے سرراہ ہوٹل پر رکتا ہوں تو وہاں کام کرنے والے بلوچستان کے لوگوں سے مستونگ‘ کوئٹہ یا پشین کی بات چھیڑ دوں تو ان کی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں اور دیر تک وہ وہاں کے قصے سنتے سناتے رہتے ہیں۔ ایسا ہی حال بلوچستان جا کر رزق کمانے والے ان مزدوروں کا بھی ہوگا جو بار بار اس لیے مارے جاتے ہیں کہ ان کی زبان پنجابی ہے۔

نواب اکبر خان بگٹی کی محفل میں بیٹھے ہوئے ایک دفعہ اسی طرح پنجابی استعمار پر گفتگو طول پکڑ گئی۔ کہنے لگے بلوچستان میں پولیس کی اکثریت پنجابیوں کی ہے۔ میں نے کہا آپ نے استادوں کو واپس بھیجا تھا‘ اچھا ہوتا‘ استاد رکھ لیتے اور پولیس والوں کو واپس بھیج دیتے۔ کہنے لگے‘ ان کے رویے کی وجہ سے یہاں پنجابی کے خلاف نفرت پیدا ہوتی ہے۔ میں نے کہا یہ پنجابی پولیس جو پنجاب میں پنجابیوں کے ساتھ کرتی ہے اس کا یہاں سوچ بھی نہیں سکتی۔ پنجاب میں ان کے ظلم کے قصے بیان کیے جائیں تو لوگ ہلاکو اور چنگیز خان کو بھول جائیں۔

یہ تیس برس پرانی بات ہے‘ اب تو پولیس بھی بلوچ‘ بروہی اور پشتون لوگوں پر مشتمل ہے۔ پورے بلوچستان میں سب سے زیادہ غصہ ایف سی کے خلاف پایا جاتا ہے۔ اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ سب سے پہلی وجہ یہ کہ اسے ایک سندھ سے تعلق رکھنے والے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے عطاء اللہ مینگل کی حکومت سے سیاسی انتقام لینے کے لیے مرکز کے ماتحت کیا تھا۔ ورنہ اس سے پہلے یہ مقامی انتظامیہ کے ماتحت ہوتی تھی۔

کرنل امان شاہ جو پشین کے ایک معزز خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور بلوچستان میں ہوم سیکریٹری کے عہدے پر تعینات رہے‘ بتایا کرتے تھے کہ جب وہ ژہوب ملیشیا کے کمانڈنٹ تھے تو وہاں کا مقامی تحصیلدار ان کی گشت کی ڈیوٹیاں لگایا کرتا تھا اور وہ اس پر عمل درآمد کرتے تھے لیکن عطاء اللہ مینگل کی سیاسی حکومت کو ناکام بنانے کے لیے ذوالفقار علی بھٹو کا یہ پہلا سوچا سمجھا اقدام تھا۔ نفرت کی دوسری وجہ ان کا اسمگلنگ کی روک تھام کی ڈیوٹی پر مامور ہونا۔

اسمگلنگ بلوچستان کی معیشت میں ایک اہم کردار رکھتی ہے اور اس کا پورے ملک کی معیشت میں اتنا تھوڑا حصہ ہے کہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن یہ وہاں کی بے روز گاری کو کم کرتی ہے۔ ایک عام آدمی چند ہزار روپے کی اشیا اسمگل کر کے اپنا رزق بنا لیتا ہے۔ یہ ان سمندری راستوں اور ایئر پورٹوں پر براہ راست ہونے والی اسمگلنگ سے انتہائی کم ہے۔ اسی اینٹی اسمگلنگ ڈیوٹی نے ایف سی کو براہ راست عام آدمی کے لیے نفرت کی علامت بنایا۔ تیسری وجہ ذوالفقار علی بھٹو ہی کے زمانے میں 1974میں ہونے والے آپریشن میں ایف سی کا کردار تھا۔ یہ سارے کا سارا آپریشن ایف سی کے بل بوتے پر کیا گیا۔

مری علاقے میں کاہان سے کٹ منڈائی اور سانگان تک‘ درہ بولان‘ مستونگ کے لک پاس سے لے کر خضدار کے وڈھ تک ہر جگہ ایف سی نے پہاڑوں پر اپنے مورچے بنائے‘ قلعے تعمیر کیے‘ چیک پوسٹیں لگائیں۔ ایک سندھ سے تعلق رکھنے والے وزیر اعظم کی ذاتی انا اور سیاسی عدم برداشت نے بلوچستان کو آگ اور خون کی وادی  میں دھکیل دیا۔ یہ بلوچستان پر پہلا سب سے بڑا آپریشن تھا۔ لیکن اس میں حصہ لینے والی ایف سی میں اس وقت بھی اور آج بھی غالب اکثریت پشتونوں کی ہے۔

وہاں مختلف یونٹوں میں کوٹہ مقرر ہے کہ اس میں کس قبیلے کے پشتونوں کو بھرتی کیا جائے گا۔ لیکن اس سب کے باوجود جب بھی در و دیوار پر گالی لکھی گئی تو وہ پنجابی استعمار کے خلاف‘ انتقام میں بندوق اٹھی تو پنجابی مزدور‘ خاکروب‘ نان بائی اور حجام پر۔ بے گھر اور بے دخل بھی وہی ہوئے۔ مستونگ میں زمرد خان 1974کے آپریشن میں بلوچ اور پشتون رہنمائوں کے ساتھ شانہ بشانہ تھے‘ تمام صعوبتیں‘ تشدد اور جیلیں انھوں نے برداشت کیں۔ ان کا قلات پبلشرز تمام بلوچ رہنماؤں کی سیاسی سرگرمیوں کا جناح روڈ کوئٹہ پر مرکز تھا۔

وہ اور ان کے بھائی صدیق صاحب مستونگ کی خاک میں دفن ہوئے لیکن آج ان کا خاندان اپنا گھر بار چھوڑ کر لاہور میں ایک کرائے کے مکان میں تلاش رزق کے لیے رہ رہا ہے۔ یہی نہیں بلکہ جس پشتون‘ بلوچ یا بروہی شخص کو اپنے دشمن قبیلے سے مارے جانے کا خوف ہوتا ہے تو وہ بلوچستان سے دور پنجاب کے شہروں میں آرام اور سکون سے رہ رہا ہوتا ہے۔ کون ہے جس نے اس خوف میں پناہ کے دن پنجاب کے شہروں میں نہیں گزارے۔ کیا کوئی پنجابی یہ تصور بھی کر سکتا ہے کہ اپنے دشمنوں سے بچنے کے لیے کسی دور دراز بلوچ یا پشتون علاقے میں بے خوفی سے رہ سکے۔

بلوچستان کے معاملے پر اور بلوچوں کے حقوق پر میں گزشتہ دس سال سے لکھ رہا ہوں۔ میں نے ان کے قبائلی پس منظر میں بے شمار ڈرامے بھی تحریر کیے ہیں۔ میں ان کی جدوجہد کو گزشتہ ساٹھ سال کی زیادتیوں کا نتیجہ سمجھتا ہوں۔ لیکن کیا یہ حقیقت نہیں کہ لاپتہ افراد کا سلسلہ صرف بلوچستان تک محدود نہیں۔ پنجاب‘ خیبر پختونخوا اور سندھ کا کون سا علاقہ ہے جہاں سے لوگ نہ اٹھائے گئے اور پھر سالوں ان کا پتہ تک نہ چلا ہو۔

خیبر پختونخوا میں تقریباً تیرہ سے زیادہ علاقوں میں فوجی آپریشن ہوا۔ آپریشن کرنے والوں کو بھی معلوم ہے کہ مخالف کون ہے اور جن کے خلاف آپریشن ہو رہا ہے وہ بھی جانتے ہیں کہ مقابل پہ کون ہے۔ لیکن بلوچستان میں ایسا کیوں ہے بلکہ صرف بلوچستان میں ہی نہیں ہر صوبے میں ایسا ہے کہ گالی پنجابی کو دی جاتی ہے۔ اس سے پہلے یہ گالی مغربی پاکستان کو دی جاتی تھی۔ مشرقی پاکستان میں کوئی پنجابی کی بات نہیں کرتا تھا‘ سب مغربی پاکستان کو استعمار کا نام دیتے تھے۔

یہ صرف اس لیے کیا جاتا ہے کہ تمام قوموں کے پسے ہوئے‘ غریب‘ مفلوک الحال اور ظلم سہتے ہوئے لوگ ایک دوسرے کے دکھ جان کر متحد نہ ہو جائیں۔ یہ متحد ہو گئے تو ان چوہدریوں‘ وڈیروں اور سرداروں کا کیا بنے گا جن کی سیاست کی بنیاد ہی نفرت ہوتی ہے جو ایک نسل‘ علاقے یا قبیلے کا خوف اور نفرت پیدا کر کے اپنے قبیلے کو خوفزدہ رکھتے ہیں تا کہ وہ ان کے پروں کے نیچے متحد ہو جائیں۔

کیا یہ وہی سردار نہیں جو یکم جنوری 1876 میں خان آف قلات کے دربار میں رابرٹ سنڈیمن کے ساتھ مل گئے تھے تو خان آف قلات کے ساتھ صرف اس کے بیٹے اور دو سردار رہ گئے تھے۔ آج یہ بلوچستان کے حقوق کے علمبردار ہیں۔ خوف سے سہما بلوچ اور پشتون صدیوں سے ان کے ظلم سہتا رہا اور اب ان کے اقتدار کو طول دینے کے لیے اپنے جیسے غریب لوگوں پر بندوق تانتا ہے۔ کل اگر کوئی اور رابرٹ سنڈیمن آ گیا تو کیا یہ کردار پوری قوم کا سودا نہیں کریں گے۔

(ختم شُد)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔