یونس خان ایک ’بے کار‘ کھلاڑی

ایاز خان  اتوار 26 اکتوبر 2014
ayazkhan@express.com.pk

[email protected]

ایک ماہ قبل یونس خان ایک بے کار کھلاڑی تھا جسکی ون ڈے ٹیم میں جگہ نہیں بن رہی تھی۔ یونس خان سلیکشن کمیٹی کے اس فیصلے سے اتنے دلبرداشتہ ہوئے کہ مجھے خدشہ تھا کہیں وہ ٹیسٹ ٹیم میں شامل ہونے سے انکار نہ کر دیں۔ ایک خطرہ یہ بھی تھا کہ انھیں ون ڈے اسکواڈ میں شمولیت کے قابل نہ سمجھنے والے کہیں ٹیسٹ ٹیم سے بھی آئوٹ نہ کر دیں۔ پاکستان اور اس کی کرکٹ کے لیے بہتری ہوئی کہ یونس خان نے انکار کے بجائے پرفارم کر کے جواب دینے کا فیصلہ کیا اور سلیکٹر خوش سی یا مجبوری کے عالم میں انھیں ٹیم میں شامل کر کے متحدہ عرب امارات لے گئے۔

آسٹریلیا کے خلاف کسی بھی فارمیٹ میں کھیلنا آسان نہیں ہوتا، واحد ٹی 20 اور 3 ون ڈے کی سیریز میں وائٹ واش ہونے کے بعد شائقین کرکٹ کو اپنی ٹیم سے بہتر کارکردگی کی توقع نہیں تھی۔ یہ خدشہ اس وقت درست لگنے لگا جب پہلے ٹیسٹ میں صرف 7 رنز پر دونوں اوپنر پویلین لوٹ چکے تھے۔ یونس خان چونکہ کسی کو جواب دینا چاہتے تھے اس لیے پہلی گیند سے ہی لگا کہ وہ دیر تک کریز پر موجود رہیں گے۔ پہلا ٹیسٹ پاکستان جیت چکا ہے۔ اس میں ہمارے غیر تجربہ کار بولنگ اٹیک کا ہاتھ یقیناً ہے۔

یاسر شاہ کی لیگ اسپن نے عبدالقادر اور مشتاق احمد کی یاد تازہ کر دی۔ شین وارن نے بھی اس نوجوان بولر کو زبردست خراج تحسین پیش کیا۔ انھوں نے پہلی اننگز میں جس طرح سنچری میکر ڈیوڈ وارنر کو بولڈ کیا وہ قابل دید تھا۔ ذوالفقار بابر نے بھی اچھی بولنگ کی۔ دونوں فاسٹ بولرز کی کارکردگی بھی ٹھیک رہی۔ مصبا ح الحق نے پہلی اننگز میں 69 رنز بنا کر فارم میں واپسی کا اعلان کیا۔ سرفراز احمد کی برق رفتار سنچری، اظہر علی اور اسد شفیق کی بیٹنگ نے بھی پاکستان کے بڑھے مجموعے میں حصہ ڈالا۔ سب کی پرفارمنس اپنی جگہ مگر دبئی ٹیسٹ یونس خان کے نام رہے گا۔

یونس خان نے پہلی اننگز میں سنچری بنائی تو انھوں نے انضمام الحق کا 25 سنچریوں کا ریکارڈ برابر کر دیا۔ ایک نیا ریکارڈ انھوں نے یہ بنایا کہ وہ تمام ٹیسٹ کھیلنے والی ٹیموں کے خلاف سنچریاں بنانے والے پہلے پاکستانی بیٹسمین بن گئے۔ دوسری اننگز میں سنچری بنا کر انھوں نے دو اور نئے ریکارڈز بنا دیے۔ وہ آسٹریلیا کے خلاف ایک ٹیسٹ کی دونوں اننگز میں سنچری بنانے والے پہلے پاکستانی بن گئے۔ یہ ان کے کیریئر کی 26 ویں سنچری ہے۔ یوں سب سے زیادہ سنچریاں بنانے کا ریکارڈ بھی ان کے پاس ہے۔

یونس خان نے دوسری اننگز میں بھی سنچری بنائی تو وقار یونس اور چیف سلیکٹر + ٹیم منیجر معین خان کے چہروں کے تاثرات میں نمایاں فرق تھا۔ معین نے وقار یونس کو بے انتہا خوش دیکھا تو پھر ان کے چہرے پر بھی مسکراہٹ آئی۔ یونس خان کو ون ڈے اسکواڈ میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔ تو مجھے بڑی حیرت ہوئی تھی۔ انھیں سلیکٹ نہ کرنے کی جو وجہ معین خان نے بتائی تھی اس نے میری حیرت کم نہیں بلکہ اس میں اضافہ کر دیا۔

معین خان نے فرمایا تھا کہ ورلڈ کپ کی تیاری کے لیے نوجوان کھلاڑیوں کو چانس دینا چاہتے ہیں۔ معین خان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ آیندہ ورلڈ کپ آسٹریلیا میں ہونا ہے۔ ورلڈ کپ کے اسکواڈ میں اگر یونس خان جیسے کھلاڑی کی جگہ بھی نہیں بنتی تو پھر لکھ لیں قومی ٹیم کے لیے ابتدائی مرحلے سے آگے بڑھنا بھی مشکل ہو گا۔ آسٹریلیا کی بائونسی وکٹوں پر تو بڑے بڑے پلیئرز کے لیے کھیلنا دشوار ہوتا ہے۔ دنیائے کرکٹ کے عظیم بیٹسمین ویوین رچرڈز نے بھی اپنے کیریئر میں سب سے زیادہ مشکل آسٹریلین وکٹوں کو ہی قرار دیا تھا۔

ٹیسٹ میں اتنی شاندار کارکردگی دکھانے والی قومی ٹیم ون ڈے سیریز ہاری تو اس کی ایک نہیں کئی وجوہات ہیں۔ ان وجوہات میں سے سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ کپتان کو اپنی مرضی کی ٹیم میدان میں نہیں اتارنے دی گئی۔ معین خان، نجم سیٹھی کی مجبوری تھے اور باجوہ، شہریار خان کے لیے بھی مجبوری بن گئے۔ چیف سلیکٹر اگر ٹیم کا منیجر بھی بن جائے تو اس کی مرضی کے خلاف کپتان کچھ نہیں کر سکتا۔ چیف سلیکٹر کا کام ٹیم کا انتخاب کرنے کے بعد ختم ہو جاتا ہے۔ اسے اگر منیجر بھی بنا دیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ کسی کھلاڑی کو منتخب کرنے کے بعد اسے ہر حال میں کھلانے پر بھی قادر ہو جاتا ہے۔

پی سی بی کے حوالے سے ایک دوست کی بات یاد آ رہی ہے۔ اس نے کہا تھا پاکستان کے حالات دیکھنے ہوں تو پی سی بی کی صورتحال پر ایک نظر ڈال لی جائے۔ پی سی بی کے چیئرمین شہریار خان کے حوالے سے اس لیے بات نہیں کرنا چاہتا کہ انھوں نے میڈیا سے بات چیت کے دوران غلطیوں کو تسلیم کر لیا تھا۔ مصباح الحق ون ڈے سیریز میں انڈر پریشر تھے۔ آخری ون ڈے میں وہ مجبور ہو کر باہر بیٹھ گئے۔ شاہد آفریدی قائم مقام بنائے گئے تو یہ تاثر دیا گیا کہ شاید ورلڈ کپ کی کپتانی بھی انھیں ہی سونپی جائے گی۔

تیسرے اور آخری ون ڈے میں ٹیم نے بہتر پرفارم کیا تو اس کی وجہ شاہد آفریدی کی کپتانی نہیں بلکہ متوازن ٹیم کا میدان میں اتارا جانا تھا۔ معین خان اگر مجبوری ہیں تو فرق نہیں پڑتا مگر ورلڈ کپ کے لیے ٹیم کا انتخاب کرنے کے لیے سلیکشن سے پہلے سلیکشن کمیٹی کا معیار بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ 1992ء کا ورلڈ کپ ہم آسٹریلیا میں ہی جیتے تھے۔ اس وقت عمران خان کپتان تھے اور کون نہیں جانتا کہ عمران کی مرضی کے بغیر ٹیم سلیکٹ نہیں کی جا سکتی تھی۔ کرکٹر عمران خان کا موقف ہوتا تھا کہ ٹیم چونکہ کپتان نے کھلانی ہے اس لیے اس کی مرضی کے مطابق اس کا انتخاب ہونا چاہیے۔

یہ واقعہ شاید پہلے بھی لکھا جا چکا ہو مگر دوبارہ درج کرنا چاہتا ہوں۔ قذافی اسٹیڈیم میں کھلاڑیوں کا کیمپ لگا ہوا تھا۔ سلیکشن کمیٹی کے اجلاس میں ٹیم کا انتخاب کیا گیا اور عمران خان کو کھلاڑیوں کے ناموں پر مشتمل ایک کاغذ بھجوا دیا گیا۔ کپتان نے اس کاغذ پر نظر ڈالی، اسے پھاڑ کر پھینکا اور کہا کہ میدان میں ٹیم میں نے کھلانی ہے یا سلیکشن کمیٹی نے۔ کپتان کو ساتھ بٹھا کر سلیکشن کمیٹی نے ایک اور اجلاس کیا اور پھر کپتان کی مرضی کی ٹیم سلیکٹ کر کے ان کے حوالے کر دی گئی۔

1992ء کے ورلڈ کپ میں عمران خان ون ڈاؤن کھیلنے آتے تھے تو اس کی وجہ یہی تھی کہ آسٹریلین وکٹوں پر شروع میں ایسے بیٹسمینوں کی ضرورت ہوتی ہے جو تحمل سے کھیل سکیں۔ یونس خان کے بغیر ورلڈ کپ کی ٹیم کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ورلڈ کپ کے لیے کیا ٹیم ہونی چاہیے اس پر پھر بات کریں گے۔ پی سی بی سے اس اپیل کے ساتھ بات ختم کرنا چاہتا ہوں کہ اپنے ہیروز کی قدر کرنا سیکھیں۔ موجودہ ٹیم میں یونس خان ایک ’بے کار‘ کھلاڑی ہی سہی مگر اس سے بڑا ہیرو کوئی نہیں۔ ویل ڈن یونس خان۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔