بھارت کا جارحانہ رویہ

عابد محمود عزام  اتوار 26 اکتوبر 2014

پاکستان کی جانب سے بھارتی دشمنی میں بار بار دوستی کی چاشنی ملانے کی کوشش کے باوجود مٹھاس پیدا نہ ہوسکی۔ پاکستانی حکومتیں ہمیشہ سے بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے اور تلخیوں کو ختم کرنے کی کوشش کرتی آئی ہیں، لیکن اپنی شاطرانہ و جارحانہ جبلت سے مجبور بھارت کے رویے میں نرمی نہ آسکی، بلکہ مزید جارحیت در آتی ہے۔ گزشتہ کئی دنوں سے بھارت نے پاکستانی سرحدوں پر اشتعال انگیزی کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے۔

عیدالاضحیٰ اور اس کے بعد کنٹرول لائن کی خلاف ورزی کرتے ہوئے درجن سے زاید معصوم پاکستانی شہریوں کو شہید کیا ہے۔ بھارت کے جنگی جنون کے باعث 40 ہزار سے زاید افراد کو نقل مکانی کرنا پڑی، جب کہ ستر ہزار سے زاید متاثر ہوئے ہیں۔ بھارتی جارحیت کا یہ سلسلہ ایک عرصے سے جاری ہے۔ ڈی جی رینجرز پنجاب میجر جنرل کے مطابق ’’پاکستانی سرحدی علاقے میں کوئی ایک بھی ایسا گاؤں نہیں ہے جس پر بھارتی فوج کی جانب سے فائرنگ اور گولہ باری نہ کی گئی ہو۔

2010 سے لے کر 2014 تک بھارتی فوج ورکنگ باؤنڈری پر اب تک 3 لاکھ 48 ہزار سے زیادہ چھوٹے ہتھیاروں سے حملے کر چکی ہے، جب کہ 31 ہزار سے زیادہ مارٹر گولے فائر کیے جا چکے ہیں۔ اتنے بڑے پیمانے پر چھوٹے اور بڑے ہتھیاروں کا استعمال تو باقاعدہ جنگ میں بھی نہیں کیا جاتا، بھارت چھوٹے پیمانے پر جنگ لڑ رہا ہے۔‘‘ بھارتی انتہاپسندی کا اندازہ لگائیے کہ پچھلے سال بھی عید کے موقع پر بھارتی فوج کی جانب سے کنٹرول لائن پر فائرنگ کر کے متعدد پاکستانیوں کو شہید کیا گیا تھا، جب کہ امسال پھر منظم منصوبہ بندی کے تحت عید کے ایام میں پاکستانی شہریوں کو خون میں نہلایا گیا ہے۔

بھارتی فوج کی طرف سے کنٹرول لائن پر فائرنگ کر کے پاکستانی فوجیوں اور سول آبادی کو نشانہ بنانے کی حرکتیں وقتاً فوقتاً جاری رہتی ہیں۔ 2003 میں دونوں ملکوں کے مابین کنٹرول لائن پر جنگ بندی کا معاہدہ ہوا تھا، مگر پچھلے ایک سے ڈیڑھ سال کے عرصہ میں بھارتی فوج نے تقریبا ڈھائی سو مرتبہ اس معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے اور جب سے انتہا پسند تنظیم بی جے پی اور نریندر مودی برسراقتدار آئے ہیں، کنٹرول لائن پر حملے بھی شدت اختیار کر گئے ہیں۔

مودی کے حکومت سنبھالنے پر کہا جا رہا تھا کہ مودی کے وزیراعظم بننے کے بعد وہ پاکستان سے تعلقات بگاڑنے کی کوشش نہیں کریں گے، مگر وقت نے ثابت کردیا کہ یہ سراسر خام خیالی تھی۔ بی جے پی کی حکومت آتے ہی کنٹرول لائن پر حملوں میں تیزی لائی گئی اور پاکستانی فوج و سول آبادی کو نشانہ بنا کر یہ پیغام دیا گیا کہ وہ آنے والے دنوںمیں کنٹرول لائن پر ماحول مزید بھڑکائیں گے۔ اب تو بھارتی وزیراعظم مودی نے یہ بھی کہا ہے کہ ’’پاکستان کو بولی نہیں، گولی سے جواب دینے کا وقت آگیا ہے اور گولی سے جواب دیا جانا چاہیے۔ پاکستان کو سبق سکھا کر منہ بند کردیا ہے۔‘‘

پاکستانی حکومت بھارت سرکار سے دوستی کی بہت کوششیں کر رہی ہے۔ کبھی ساڑھی اور کبھی آموں کے تحفے بھیجے جاتے ہیں، مگر اس کا جواب بھارتی آبی دہشت گردی اور کنٹرول لائن پر حملوںکی صورت میں ملتا ہے۔ موجودہ حکومت بھارت کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھانے میں مصروف ہے۔

یہ حقیقت سامنے رہنی چاہیے کہ انگریز برصغیر کے نقشے پر پاکستان کا قیام دیکھنا نہیں چاہتا تھا، لیکن قائداعظم محمد علی جناح نے جب جدوجہد شروع کی تو اپنی بصیرت، قوت ارادی اور اعلیٰ اخلاقی اقدار سے انگریز کو یہ تسلیم کرنے پر مجبور کیا کہ مسلمان ایک الگ قوم ہے اور انھیں ایک علیحدہ عظیم مملکت خداداد پاکستان کی ضرورت ہے، تو برصغیر کے نقشے پر واحد نظریاتی اسلامی مملکت خداداد کا وجود ممکن العمل ہوا، لیکن بھارت نے آج تک پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیا، قیام پاکستان سے لے کر آج تک بھارت نے پاکستان کے خلاف کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کے معاملے پر اب تک چار جنگیں ہو چکی ہیں، لیکن اس کے باوجود بھارتی ذہنی فتور کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں پاکستان کے حصے میں آنے والے دریاؤں کے پانیوں پر 62 سے زاید چھوٹے بڑے ڈیم تعمیر کر چکا ہے اور مزید ڈیمز کی تعمیر کا سلسلہ جاری ہے۔

گزشتہ ماہ ہی بھارت کی طرف سے غیر قانونی ڈیمز کی صورت میں آبی جارحیت سے بالاتر ہو کر مون سون کے موسم میں پاکستان کی طرف ہزاروں کیوسک اضافی پانی کے ریلے چھوڑے گئے، جس کے باعث پاکستان میں 1971 کے بعد بدترین سیلاب کی تباہ کاریاں دیکھنے میں آئیں، اس سے بھی بڑھ کر بھارت نے اپنے بغض کا اظہار لائن آف کنٹرول کی پے در پے خلاف ورزیاں شروع کرکے کیا۔

دراصل بھارتی ان بن کا سب سے بڑا سبب مسئلہ کشمیر ہے۔ گزشتہ دنوں وزیراعظم میاں نوازشریف نے جنرل اسمبلی میں عالمی برادری سے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد کرتے ہوئے کشمیر میں حق ارادیت دینے کا مطالبہ کیا، جس کے بعد سے بھارت سیخ پا ہے۔ حالانکہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ میں خود بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو لے کر گئے تھے، جس پر کشمیریوں کو حق خودارادیت کے لیے اقوام متحدہ نے قرارداد منظور کی، اس پر بھارت نے بھی دستخط کیے، لیکن اس نے ہمیشہ اس قرارداد پر عمل سے راہ فرار اختیار کی۔

مسئلہ کشمیر کا حل عالمی ادارے نے تجویز کیا تھا، اس پر اقوام متحدہ ہی کو عمل کرانا چاہیے۔ پاکستان حق خودارادیت کی قرارداد منظور ہونے کے باوجود بھارت کے ساتھ کشمیر سمیت دیگر تنازعات پر مذاکرات کرتا رہا ہے۔ بھارت ایک طرف کشمیر پر مذاکرات بھی کرتا رہا تو دوسری طرف کانگریس اور بی جے پی کی پارٹی پالیسیوں میں کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ بھی قرار دیا گیا ہے۔ اگر یہ پارٹیاں کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتیں اور اس پر مذاکرات بھی کرتی ہیں تو یہ بہت بڑی منافقت ہے، جب کہ اقوام متحدہ بھی دہرا معیار اپنائے ہوئے ہے، طویل عرصے کے بعد بھی کشمیر کے معاملے کو الجھایا ہوا ہے۔ کشمیر کے معاملے پر اقوام متحدہ کی متفقہ قرارداد پر عملدرآمد ہی نہیں کرایا جارہا۔

1948 سے لے کر اب تک بھارت کو دو ٹوک انداز میں اقوام متحدہ نے کشمیریوں کو حق رائے دہی دینے کا نہیں کہا، بلکہ بھارت کے جنگی جنون کو تسکین پہنچانے کے لیے متعدد مغربی ممالک جدید ترین اسلحہ فروخت کرکے بھارت کی خطے میں بالادستی قائم کرنے میں معاون بنے ہوئے ہیں، حالانکہ اخلاقی طور پر اقوام متحدہ کے رکن ممالک کا فرض بنتا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد کے لیے انفرادی طور پر بھرپور کوششیں کریں اور ایسے فیصلے و اقدامات کیے جائیں، جس سے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر مکمل عملدرآمد یقینی بن سکے۔ بصورت دیگر بھارت کا غیر سنجیدہ اور جارحانہ رویہ پورے خطے کے امن کو برباد کرسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔