’پُرامن بقائے باہمی کا تصور اجاگر کرنے کیلئے اقدامات کرنا ہونگے‘

اجمل ستار ملک  پير 27 اکتوبر 2014
محرم الحرام میں امن و امان کی صورتحال کے حوالے سے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں منعقدہ مذاکرہ کی رپورٹ۔ فوٹو: وسیم نیاز/ایکسپریس

محرم الحرام میں امن و امان کی صورتحال کے حوالے سے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں منعقدہ مذاکرہ کی رپورٹ۔ فوٹو: وسیم نیاز/ایکسپریس

محرم الحرام کی آمد آمد ہے۔ اس ماہ میں امن و امان قائم کرنے کیلئے حکومت اور تمام فقہ سے تعلق رکھنے والے علماء اپنا اپنا کردار بخوبی ادا کر رہے ہیں اور کسی بھی ناخوشگوار واقع سے نمٹنے کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں۔’’محرم الحرام میں امن و امان کی صورتحال‘‘ کے حولے سے ایکسپریس فورم میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ہونے والی گفتگو نظر قارئین ہے۔

میاں عطاء محمد مانیکا (صوبائی وزیر اوقاف و مذہبی امور پنجاب)

محرم الحرام کی آمد سے پہلے  میٹنگز اور مختلف فورمز پر باتیں تو بہت اچھی ہوتی ہیں مگر ان پر عمل نہیں کیاجاتا اور جن کو ذمہ داری دی جاتی ہے وہ اپنی ذمہ داری بھی پوری نہیں کرتے۔علماء حضرات کا بنیادی کام یہ ہے کہ یہ ہمیں مفید اور جائز تجاویز فراہم کریں جن کی روشنی میں ہم دینی مسائل کا حل نکالنے کی کوشش کریں ۔آج کے اس فورم میں بہت سے اہم مشورے دیئے گئے ہیں جن پرعمل کرتے ہوئے محکمہ اوقاف میں مستند اور معتدل علماء پر مشتمل کمیٹی بنائی جائے گی جو فرقہ واریت جیسے مسائل کو حل کرنے کیلئے ہمیں تجاویز دے گی۔

قاضی نیاز حسین نقوی صاحب نے بہت اہم بات کی ہے کہ ان کے فقہ میں اس بات پر فتویٰ دیا ہوا ہے کہ صحابہؓ کی شان میں گستاخی کرنا حرام ہے۔لہٰذ ا ہمیں فرقہ واریت کے خاتمے اور فسادات سے بچنے کیلئے اس بات کو عام کرنا چاہیے تاکہ غلط فہمی دور ہوسکے۔اس وقت ہمارا معاشرہ بہت بگڑ چکا ہے اور حالات صرف باتوں سے حل نہیں ہو سکتے اور ہمیں اس تلخ حقیقت کو مان لینا چاہیے۔جیسا کہ وارث شاہ نے کہا تھا کہ ’’ڈنڈ اپیر اے وگڑیاں تگڑیاں دا‘‘ تو ہمیں ہر طرح کا طریقہ علاج سوچنا ہوگا۔

بدقسمتی سے فرقہ واریت کا زہر کینسر کی طرح ہمارے معاشرے کو چاٹ رہا ہے اورہم نے خطرے سے بچنے کیلئے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لی ہیں ۔لہٰذا بجائے اس کے کہ یہ سیلاب سب کچھ بہا کر لے جائے ہمیں اسکا مقابلہ کرنا ہوگا اور یقینا اللہ نے ہمارے بے شمار علماء کو یہ توفیق بخشی ہے کہ وہ اس معاملے میں اللہ اور اس کے رسولﷺ کے بتائے ہوئے احکامات اور فرمودات کی روشنی میں فرقہ واریت کے سامنے کھڑے ہوجائیں اور اسے جڑ سے ختم کردیں۔

اس کے لیے ضروری یہ ہے کہ ہم سب مل کر بیٹھیں اوراس حوالے سے ایک لائحہ عمل تیار کریں اور پھر جو لائحہ عمل تیار ہو اسے اسمبلی میں لے کر جائیں اور اس پر عمل نہ کرنے والے کی سزا بھی مقرر کریں۔ اگر سزا کا عمل ٹھیک ہوجائے تو کوئی بھی جرات نہیں کرے گا کہ وہ فرقہ واریت کو فروغ دے۔ اس وقت بیرونی طاقتیں ملک میں گھنائونا کھیل کھیل رہی ہیں جن کے اپنے اپنے ایجنڈے ہیں اور وہ ہمارے ملک کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔

ہمیں افسوس اس بات پر ہوتا ہے کہ ہمارے اپنے بھائی ان ملک دشمن عناصرکے لیے کام کرتے ہیں اور اپنے ہی لوگوں کو نقصان پہنچاتے ہیں ۔ جب محرم الحرام آتا ہے تو حکومت سکیورٹی کے حوالے سے بہت اچھے انتظامات کرتی ہے جن میں ان راستوں کو محفوظ بنایاجاتا ہے جہاں سے جلوس گزرتا ہے۔ لوگوں کی چیکنگ کی جاتی ہے اور پھر جلوس کے ساتھ ساتھ پولیس اہلکار بھی چلتے ہیں تاکہ جلوس محفوظ طریقے سے اپنے اختتام تک پہنچ جائے۔ اسکے علاوہ مجالس میں بھی سکیورٹی ہوتی ہے اور کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے نمٹنے کیلئے حکومت اور ہوم ڈپارٹمنٹ ہر وقت الرٹ رہتا ہے۔

اس وقت حکومت نے تمام مکاتب فکر کے علماء کے وفود ترتیب دیے ہیں جو پنڈی، ساہیوال، ملتان، ڈی جی خان، بہاولپور، فیصل آباد، گجرانوالہ اور سرگودھا میں موجود ڈویژنل ہیڈکوارٹرز جائیں گے اور وہاں ڈویژن کمیٹی اور ڈویژنل امن کمیٹی سے رابطے کریں گے اور امن و امان کی صورتحال بہتر بنانے کیلئے کام کریں گے اور پھر یہ کمیٹیاں ضلعوں میں جاکر اتحاد بین المسلمین کے ارکان سے رابطے کریں گی جس سے امن و امان کی صورت حال میں بہتری آئے گی۔ہماری کوشش اور دعا یہی ہے کہ اللہ اس محرم الحرام کو عافیت اور خیریت سے گزارے۔

زعیم قادری (ترجمان حکومت پنجاب)

محرم الحرام کے حوالے سے امن و امان قائم کرنے کیلئے حکومت پنجاب کی جانب سے خصوصی اقدامات کیے جارہے ہیں اور تمام اداروں کو فول پروف سکیورٹی انتظامات کرنے کی ہدایات جاری کر دی گئی ہیں ۔ اس وقت پولیس اور سکیورٹی ادارے متحرک ہیں اور محرم الحرام کے حوالے سے سکیورٹی انتظامات کر رہے ہیں ۔ حکومت کی جانب سے اس مسئلے کے حل کیلئے تمام فقہ کے علماء سے بھی خدمات لی جارہی ہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کی خصوصی ہدایت پر مختلف مکاتب فکر کے معتبر اور معتدل علماء پر مشتمل وفود تشکیل دیے گئے ہیں جو فرقہ وارانہ فسادات کو ختم کرنے کیلئے اپنی اپنی تجاویز دیں گے۔

اس کے علاوہ یہ وفود ڈویژنل ہیڈکوارٹرز جارہے ہیں جہاں یہ دیگر علماء سے ملاقاتیں کر رہے ہیں اور انہیں امن کا پیغام دے کر فرقہ واریت کے خاتمے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ اس کے بعد یہ وفود ڈسٹرکٹ لیول کے علماء سے بھی ملاقاتیں کریں گے اور انہیں بھی امن کے پیغام کے ساتھ ساتھ فرقہ واریت کے خاتمے کی ترغیب دیں گے اور ان سے مسلسل رابطہ بھی رکھا جائے گا جس کے لیے ہر سطح پر محرم سیل قائم کر دیے گئے ہیں۔

یہ سیل محرم الحرام کے ایام میں ہر وقت علماء سے رابطے میں رہیں گے ۔محرم الحرام کی سکیورٹی پلان میں جلوس کے راستوں کو سیل کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ مجالس کی سکیورٹی میں بھی اضافے پر غور کیا جا رہا ہے۔ہمیں امید ہے کہ اس مرتبہ کوئی بھی ناخوشگوار واقع پیش نہیں آئے گا۔

مجھے افسوس اس بات پر ہوتا ہے کہ ہمارے اپنے بھائی بیرونی طاقتوں کے لیے کام کر رہے ہیں جن کا مقصد فرقہ واریت اور فسادات کے ذریعے عالم اسلام اور پاکستان کو کمزور کرنا ہے۔اگر ہم سب اکٹھے ہوجائیں تویہ طاقتیں اپنے عزائم میں ناکام ہو جائیں گی۔قاضی نیاز حسین نقوی صاحب نے بہت اچھی بات کی ہے ،میرے نزدیک اگر اس بات کو عام کردیا جائے تو فرقہ وارانہ فسادات میں کمی آئے گی۔آج کے اس فورم میں بہت اچھی تجاویز سامنے آئی ہیں جن کو سامنے رکھتے ہوئے آئندہ کیلئے لائحہ عمل تیار کیا جائے گا۔

حسن رضوی (سیکرٹری اوقاف پنجاب)

حکومت اور نچلی سطح پر محرم الحرام میں امن و امان کی صورتحال قائم کرنے کیلئے جو اقدامات ہو رہے ہیں انہیں تین حصوں میں تقسیم کیا جائے تو وضاحت بہترہوسکتی ہے ۔ ایک تو یہ کہ حکومت سیاسی طور پر متحرک ہے۔ شجاع خانزادہ کی سربراہی میں کیبنٹ کمیٹی برائے لاء اینڈ آرڈر بنی ہوئی ہے جو ڈویژنل ہیڈ کوارٹرز جا کر ڈویژن اور ڈسٹرکٹ کی ساری انتظامیہ اور پولیس کے ساتھ مل کر معلومات اکٹھی کر رہی ہے کہ اس ڈویژن میں لاء اینڈ آرڈر کے حوالے سے کیاکیا مسائل درپیش ہیں اور انہیں کیسے حل کیا جاسکتا ہے۔

دوسرا یہ کہ ہمارے محکمہ کی ذمہ داری ہے کہ ہم مذہب سے منسلک افراد کے ساتھ رابطے میں رہیں۔ اس سلسلے میں اتحاد بین المسلمین کمیٹی تشکیل دی گئی جس کا گذشتہ روز اجلاس ہوا اور پھر اس کمیٹی کو ڈویژن کی سطح پر بھیجا گیا تاکہ وہ ڈویژن اور اضلاع کے علماء سے ملاقات کریں اور انہیں امن کا پیغام پہنچائیں۔اس وقت حکومت اور ہوم ڈپارٹمنٹ بھی مصروف عمل ہیں اور سکیورٹی کے حوالے سے اقدامات کر رہے ہیں۔

حکومت کی جانب سے پولیس اور ضلعی انتظامیہ کو محرم کے حوالے سے فول پروف انتظامات کرنے کی ہدایات جاری کر دی گئی ہے اورحکومت ان کی ضروریات پوری کرنے کی کوشش کررہی ہے تاکہ امن و امان یقینی بنایا جاسکے۔اس وقت ہوم ڈپارٹمنٹ نے محرم سیل قائم کر دیے ہیں ۔ہم نے محکمہ اوقاف میں بھی سنٹرل کنٹرول روم بنایا ہے اور اسی طرح ہم نے ڈویژنل لیول پر محرم سیل بھی قائم کردیے ہیں ۔لہٰذارابطے کا ایک مربوط نظام قائم کردیا گیا ہے اور حکومت اس پرپوری طرح نظر رکھے ہوئے ہے ۔ ہمارے ہاں قانون تو موجود ہے مگراس پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔

اس مرتبہ حکومت اس بات بھی پر توجہ دے رہی ہے کہ عملدرآمد یقینی بنایا جائے اور قانون کی خلاف ورزی کرنے والے کو سزا دی جائے۔لائوڈ اسپیکر کے استعمال پر پابندی ہے اور اس پر سختی سے نظر رکھنے کا آرڈر جاری کیا گیا ہے اس کے علاوہ ہوم ڈپارٹمنٹ ان ایام میں علماء اور ذاکرین کی تقاریر ریکارڈ کرنے کا بھی بندوبست کررہا ہے تاکہ کسی بھی ناخوشگوار صورتحال پر قابو پایا جاسکے اور ذمہ داروں کو سزا دی جاسکے۔

اس کے علاوہ انتشار پھیلانے والے علماء کو جرمانے کی تجویز بھی زیرغور ہے۔ ان ایام میں اتحاد بین المسلمین کے کوارڈینیٹر ڈسٹرکٹ لیول پر بیٹھے ہوں گے کہ خدا نخواستہ اگر کہیں فرقہ واریت کی کوئی بات ہو تو اسے وہیں بیٹھ کر حل کرلیا جائے۔

قاری زوار بہادر (صدر جے یو پی پنجاب)

محرم الحرام کی آمد پر کئی سالوں سے حکومت اجلاس بلاتی ہے اور میڈیا اور اخبارات میں بھی اس پر مذاکرے ہوتے ہیں ۔ لیکن اگر یہ سلسلہ پورا سال جاری رہے تو ایک افہام و تفہیم کی فضا پیدا ہوجائے گی اور حالات بہتری کی طرف جائیں گے۔حکومت محرم الحرام سے پہلے دو تین اجلاس بلا کر بری الزمہ ہوجاتی ہے اور پھر وہ علماء جن سے ان اجلاس میں وعدے لیے جاتے ہیں اور جنہیں کام سونپا جاتا ہے ان سے کوئی رابطہ نہیں رکھا جاتا۔ان میٹنگز میں جو فارمولے طے ہوتے ہیں ان پر بھی عملدرآمد نہیں ہوتا۔

یہی وجہ ہے کہ ان اجلاس کے باوجودحالات بہتر نہیں ہوتے۔یہاں المیہ یہ بھی ہے کہ اجلاس کی تقریریں تو بہت اچھی ہوتی ہیں مگر جلسوں ، مساجد اور امام بارگاہوں کی تقریریں مختلف ہوتی ہیں جن سے انتشار پھیلتا ہے اور فرقہ واریت کو ہوا ملتی ہے۔میرے نزدیک ایسے لوگوں کو بے نقاب کرنا چاہیے اور انہیں اتحاد بین المسلمین جیسی کسی کمیٹی کی میٹنگ میں بیٹھنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ یہ لوگ میٹنگز میں بیٹھ کر فرقہ واریت کے خاتمے کی بات کرتے ہیں مگر حقیقت میں ان کا کردار بالکل مختلف ہے۔

مختلف فقہ کے درمیان نظریاتی و عملی اختلاف تو صدیوں سے موجود ہے مگر فسادات اور قتل و غارت با اثر افراد اور بعض حکومتی ارکان کی سر پرستی میں ہوتے ہیں۔یہ لوگ اپنے مفادات کے لیے ایسی تنظیموں کی سرپرستی کرتے ہیں اور ان سے اپنے کام نکلواتے ہیں۔یہاں المیہ یہ ہے کہ ناخوشگوار واقعات کے ذمہ داروںکا معلوم ہوجانے کے بعد بھی ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔ یہاں اگر حکومت مخلص ہو تو فرقہ واریت کا جڑ سے خاتمہ ہوجائے۔

گذشتہ کئی سالوں سے یہ کہا جا رہا ہے کہ بیرونی طاقتوں کی فنڈنگ پر ہمارے ملک میں کافر کے نعرے لگتے ہیں لیکن آج تک اس فنڈنگ کو روکنے کیلئے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔یہاں راتوں رات  مرکز،کالج اور یونیورسٹیاں بن جاتی ہیں جن کی فنڈنگ بیرونی طاقتیں کر رہی ہیں جو انہیں اپنے عزائم کیلئے استعمال کرتی ہیں مگر اس پر کوئی تحقیق نہیں کی جاتی۔ہمارے چاروں اطراف دشمن ہیں جو ہماری سلامتی نہیں چاہتے اور ان کے لوگ یہاں کام بھی کر رہے ہیں۔

انہیں معلوم ہے کہ یہاں علمی اختلاف پایا جاتا ہے اوراگر یہاں ایک نعرہ لگ جائے تو فساد برپا ہوجائے گا لہٰذا دشمن کو ہمیں لڑوانے کا راستہ معلوم پڑ گیا ہے اور اس نے ہمیں فرقہ واریت کے راستے پر ڈال دیا ہے۔ میرے نزدیک فرقہ واریت اور فسادات میں 99 فیصد ہاتھ بیرونی طاقتوں کا ہے اور وہ پاکستان میں امن نہیں چاہتیں۔ مجھے افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے اپنے لوگ دشمن عناصر کے لیے کام کرتے ہیں اور ملک کو نقصان پہنچاتے ہیں۔

اس کے علاوہ پاکستان کی متعدد سیاسی جماعتیں بھی دینی جماعتوں کو متحد نہیں دیکھنا چاہتیں۔ان کے نزدیک اگر دینی جماعتیںاکٹھی ہوگئیں تو یہ ان کے لیے مسئلہ ہوگا۔اس وقت ساری مشینری کو درست کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ذمہ داروںکے خلاف کارروائی کر کے انہیں سخت سے سخت سزا دی جائے  اور حالات بہتر ہوسکیں ۔اس کے علاوہ حکومت کو چاہیے کہ مخلص، دیانتدار اور امن پسند لوگوں پر مشتمل ایک کمیٹی بنائے جو ان سب مسائل کو دیانتداری کے ساتھ حل کرے اور فرقہ واریت کے خاتمے کیلئے کام کرے۔

قاضی نیاز حسین نقوی (مہتمم جامعہ المنتظر)

پاکستان کو اس وقت بہت سے مسائل کا سامنا ہے جن میں فرقہ واریت ایک اہم مسئلہ ہے۔ ملک دشمن عناصر کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ کوئی ناخوشگوار واقع ہوجس سے ملک میں امن و امان کی صورتحال خراب ہو جائے۔ مجھے امید ہے کہ حکومت نے محرم الحرام کیلئے سکیورٹی کے حوالے سے اپنے انتظامات مکمل کر لیے ہیںاورہم حکومت کے شکرگزار ہیں کے حکومت ماضی میں بھی اچھے انتظامات کرتی آئی ہے۔مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہمارے ملک میں فرقہ واریت کے جو بھی واقعات رونما ہوتے ہیں ہمارے اپنے ہی لوگ اس میں ملوث ہوتے ہیں جو بیرونی طاقتوں کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔

کوئی بھی فقہ یہ نہیں چاہتا کہ ملک میں امن و امان نہ ہو اور فرقہ واریت کو فروغ ملے بلکہ تمام فقہ کے علماء چاہتے ہیں کہ ملک میں امن قائم ہو تاکہ ہر فقہ اپنے عقائد کے مطابق کام کرسکے۔اس وقت حکومت فرقہ واریت کے خاتمے کیلئے کام کر رہی ہے اور حکومت کی جانب سے تمام فقہ کے علماء پر مشتمل کمیٹیاں تشکیل دے دی گئی ہیں جو امن کے قیام کیلئے کام کر رہی ہیں۔ہمارے فقہ کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ صحابہ اکرامؓ کی توہین کرتے ہیں جس کے نتیجے میں دوسری فقہ کے لوگ مشتعل ہوجاتے ہیں۔

اس حوالے سے میں اس فورم کے ذریعے یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ ہماری فقہ میں صحابہ اکرامؓ کی توہین کی اجازت نہیں ہے اور جو کوئی ایسا کرتا ہے وہ گناہ کا مرتکب ہوتا ہے۔ ہمارے مجتہدین ،علماء اور صاحب فتویٰ نے یہ فتویٰ دیا ہے کہ ہمارے نزدیک صحابہؓ کی توہین حرام ہے اور جو کوئی بھی اس کا مرتکب ہوگا تو اس کا شیعہ مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔لہٰذا حکومت اسے جو چاہے سزا دے۔

مجھے تعجب ہوتا ہے کہ پورے سال میں ہمارے چار جلوس نکلتے ہیں اور ہمیں ناخوشگوار واقعات کا سامنا کرنا پڑتا ہے مگر سیاسی جماعتوں کے جلسے جلوس سال بھر جاری رہتے ہیں اور ہزاروں لوگ سڑکوں پر رہتے ہیں لیکن ان پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا اور نہ ہی کوئی ناخوشگوار واقع پیش آتا ہے۔ہمارے ذہن میں بھی سوالات آتے ہیں کہ آخر نواسہ رسولﷺ کے لیے نکالے گئے جلوس میں ہم ایسا کیا کرتے ہیں جس سے لوگوں کی دل آزاری ہوتی ہے۔

یہی جلوس انڈیا، لندن، امریکہ سمیت پوری دنیا میں نکلتے ہیں مگر کسی جگہ ایسے حالات پیدا نہیں ہوتے۔ہمارا ملک تو مسلمانوں کا ملک ہے ،ہم سب آپس میں بھائی بھائی ہیں، ہم سب علماء بھی ایک دوسرے کے دوست ہیں مگر پھر بھی ناخوشگوار واقعات پیش آتے ہیں جو تشویش کا باعث ہے۔ بعض لوگوںکو ہمارے جلوس کے روٹ پر اعتراض ہوتاہے اور وہ چاہتے ہیں کہ جلوس کا راستہ تبدیل کیا جائے۔

تو میں ان لوگوں سے یہ کہنا چاہوں گا کہ یہ جلوس بہت پرانے ہیں اور ان کے روٹ کی ہم نے حکومت سے باقاعدہ اجازت لی ہوئی ہے لہٰذا ان کا اعتراض جائز نہیں ہے۔ اس وقت میں تمام فقہ کے علماء سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ بجائے اس کے کہ ہم اس بحث میں پڑیں کہ یہ جلوس کیوں نکلتے ہیں یا انہیں بند ہونا چاہیے ،آپ اپنے حلقہ احباب میں اور اپنی تقاریر میں اپنے لوگوں کو سمجھائیں کہ ہم کسی دوسرے کو تکلیف نہیں دیتے لہٰذا جلوس کو پیار محبت سے جانے دیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ملک میں امن ہو اور فرقہ واریت کا خاتمہ ہوجائے۔

حافظ زبیر احمد ظہیر (نائب صدر مرکزی جمعیت اہلحدیث)

آج ہمارے ملک کو اندرونی اور بیرونی خطرات لاحق ہیں اور پاکستان کے خلاف جو سازشیں ہو رہی ہیں اس میں حب الوطنی کا تقاضہ یہی ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اپنی صفوں میں کسی طرح کا انتشار پیدا نہ ہونے دیں اور ہر صورت میں یکجہتی،اتحاد، اتفاق اور پیار ومحبت کو قائم و دائم رکھیں۔یہ ہماری،ہماری آنے والی نسلوں اور اس ملک کی بقاء کی ضرورت ہے ۔ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے رویے درست رکھیں اور اپنی طبیعت میں اعتدال، برداشت، رواداری اور پیار و محبت کو شامل کریں تاکہ نفرت کا خاتمہ ہوسکے۔

میں یہ سمجھتا ہوں کہ قاضی نیاز حسین صاحب نے صحابہ اکرامؓ کی توہین کے حوالے سے جس فتویٰ کا ذکر کیا ہے یہ بہت اہم ہے اور اگر شیعہ حضرات اس بات کی ضمانت دے دیں کے وہ صحابہ اکرامؓ کی شان میں گستاخی نہیں کریں گے تومیرے نزدیک اہل سنت والجماعت کو ان سے کو ئی اختلاف نہیں ہوگا ۔یہاں جو بھی باتیں ہوتی ہیں وہ بہت مثبت ہوتی ہیں اور ان پر اتفاق بھی ہوجاتا ہے مگر بعد میں مجالس میں اور جلسوں میں جو کچھ ہوتا ہے اسکی وجہ سے اشتعال پیدا ہوجاتا ہے۔

ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ حکومت کا بھی فرض ہے کہ انتشار کی اس فضا کو ختم کرنے کیلئے اقدامات کرے۔حکومت کو چاہیے کہ فرقہ واریت کے خاتمے کیلئے ہر فقہ سے تعلق رکھنے والے معتدل علماء اور ایسے لوگوں سے استفادہ کرے جو اتحاد اور یکجہتی کو فروغ دیتے ہیں اور ملک میں امن چاہتے ہیں ۔اہل سنت والجماعت میں تنگ نظری نہیں ہے اور بریلوی، دیوبندی، اہل حدیث بھی کسی امام،بزرگ یا شہید کی شان میں گستاخی کرنا کفر سمجھتے ہیں اور اس بات کی ہرگز اجازت نہیں دیتے کہ کسی کے ایمان اور دین پر حملہ کیا جائے۔

افسوسناک بات یہ ہے کہ پاکستان کی پینسٹھ سالہ تاریخ میں حکومت جہاں دیگر مسائل کم نہیں کرسکی وہاں فرقہ واریت کی سوچ اور فکر میں بھی کوئی کمی دیکھنے میں نہیں آئی۔جو بھی حکومت آتی ہے وہ اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیتی۔میں نے اتحاد المسلمین کے فورم پر بھی یہ بات کی یہاں جو لوگ آتے ہیں اچھی تقریریں کرتے ہیں ،اچھے ماحول میں گفتگو ہوتی ہے اور سب یہ کہتے ہیں کہ فرقہ واریت ختم ہونی چاہیے ،درحقیقت کوئی بھی فرقہ واریت کے خاتمے کیلئے تیار نہیں ہے۔

مولانا عبدالرؤف فاروقی (رہنما جے یو آئی (س))

یہ ہم سب کیلئے لمحہ فکریہ ہے کہ محرم الحرام آنے سے پہلے ہی ہم سب اندیشوں اور خدشات میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ یہ ایام قربانیوں کی ایک عظیم تاریخ ہیں۔یہ تاریخ 10ذوالحجہ سے شروع ہوتی ہے جب حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے بیٹے کو قربانی کیلئے پیش کیا اور اس کا اختتام 10محرم الحرام کو کربلا میں دی گئی قربانیوں کی داستان پر ہوتا ہے۔یہ تمام قربانیاں اہل اسلام کی تاریخ ہیں ۔ مگر ایسی کیا وجہ ہے کہ ہر سال محرم الحرام میں ناخوشگوار واقعات پیش آتے ہیں اور ہمیں خطرات لاحق ہوتے ہیں ۔اس مسئلے کے حل کیلئے آج تک کوئی بھی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔

میں سمجھتا ہوں کہ تعزیہ کے جلوس اور شہداء کربلا کے ساتھ عقیدت و احترام کے اظہار کے طریقہ کار میں علمی اور فقہی اختلاف ہے جسے حل کرنے کیلئے کی کوشش کرنی چاہیے۔تعزیتی جلوس دنیا بھر میں صدیوں سے نکل رہے ہیں مگر ایسی کیا وجہ ہے کہ گذشتہ چند سالوں سے یہاں ناخوشگوار واقعات پیش آرہے ہیں لہٰذا ہمیں سوچنا ہوگا کہ ان سب واقعات کے پس منظر میں کیا ہے ۔کراچی میں کچھ عرصہ قبل ایک پوری مارکیٹ کو کیمیکل ڈال کر آگ لگا دی گئی جس میں صرف اہل سنت کی دکانیں تھیں۔اسی طرح گذشتہ سال روالپنڈی میں جو سانحہ پیش آیا وہ بھی معمولی نوعیت کا نہیں تھا۔

میری رائے ہے کہ وفاق کی سطح پر چاروں مکاتب فکر کے علماء کا ایک بورڈ قائم ہونا چاہیے جو فرقہ واریت کے خاتمے کیلئے کوئی ایسا حل نکالے جوسب کیلئے قابل قبول ہو اور کسی پر بھی جبر نہ ہو۔ہم یہ نہیں چاہتے کہ کسی ایک فقہ پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ اپنے فقہی معاملات اور اپنے عقیدے پر عمل کرنا چھوڑ دے ۔اس وقت پاکستان کو اندرونی اور بیرونی خطرات لاحق ہیں اور ملک نازک حالات سے گزر رہا ہے اسلیے ہمیں وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے مل بیٹھ کر پرامن بقائے باہمی کا اصول طے کرنا چاہیے اور ہم سب کو چاہیے کہ اپنی فقہ کے دائرہ میں رہیں۔

اگر ایسا ہوجائے تو پھر کوئی وجہ نہیں ہے کہ مسائل حل نہ ہوں۔ اب اگر ہم اپنی فقہ کے دائرے سے نکل کر اہل تشیع کی عبادت گاہوں اور مساجد کے سامنے جاکر کوئی ایسی کیفیت پیدا کریں جو جذباتی کیفیت بن جائے تو یہ عمل غلط اور قابل مذمت ہے۔اسی طرح تعزیتی جلوس کا ماتم کرتے ہوئے کسی جگہ سے گزر جانا مسئلہ نہیں ہے مگر کسی دوسرے فقہ کی عبادت گاہ کے قریب کھڑے ہوکر وہاں جذباتی کیفیت پیدا کرنا غلط ہے ۔میرے نزدیک اس عمل سے مسائل پیدا ہوتے ہیں اور لڑائی جھگڑے کی فضا بنتی ہے۔

میں اس فورم سے تمام عالم اسلام کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ سب اپنی اپنی فقہ کے دائرے میں رہیں اور فرقہ واریت کو ختم کردیں ۔اب جیسا کہ قاضی نیاز حسین صاحب نے کہا کہ ان کے فقہ میں صحابہؓ کی توہین حرام ہے تو اسی طرح اگر اہل تشیع کے تمام ادارے اس بات کی ضمانت دیں کہ اگر کوئی خطیب صحابہ اکرامؓ پر تبرہ کرے گا تو ہم اس کی پشت پناہی نہیں کریں گے تو پھر مسائل حل ہو جائیں گے اور کوئی بھی شخص ایسا کرنے کی جرات نہیں کرے گا۔

لہٰذا امن کو قائم کرنے کیلئے ہمیں بقائے باہمی کے اصول کی بنیاد پر بیٹھ کر فیصلے کرنا ہوگا یہ سب کے مفاد میں ہے۔ بھٹو کے دور میں جو امن کا فارمولا پیش کیا گیا تھا آج بھی اس پر عمل کرنا چاہیے کیونکہ اس فارمولے سے پر امن بقائے باہمی کا تصور اجاگر ہوتا ہے۔ لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ سنجیدگی کے ساتھ بقائے باہمی کے فارمولے کے تحت اس مسئلے کو حل کرنے کو کوشش کرے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔