جلسے کیوں سونامی بن رہے ہیں؟

ظہیر اختر بیدری  منگل 28 اکتوبر 2014
zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

[email protected]

14 اگست 2014 سے تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک نے جو تحریک شروع کی ہے وہ دو ماہ کے ڈی چوک پر دھرنوں کے بعد اب بڑے بڑے جلسوں کی شکل میں سارے ملک میں پھیل رہی ہے کراچی میں ایک تاریخی جلسے سے شروع ہونے والی یہ تحریک لاہور، میانوالی، ملتان، فیصل آباد سرگردھا سے ہوتی ہوئی لاہور کے مینار پاکستان تک آپہنچی ہے۔

19 اکتوبر کو مینار پاکستان لاہور پر طاہر القادری نے جو جلسہ کیا اس میں تاحد نظر انسان ہی انسان نظر آرہے تھے غالباً یہ جلسہ جلسوں کی سیریز کا سب سے بڑا جلسہ تھا ہمارے حکمرانوں کی بوکھلاہٹ کا عالم یہ ہے  انسانوں کے سمندر پر مشتمل اس جلسے کو چند ہزار لوگوں کا جلسہ کہہ کر اپنے دل کو تو تسلی دے رہے ہیں لیکن اس دروغ گوئی سے کیا ان کے ضمیر کی تسلی ہوگی؟ تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے جلسوں سے گھبرا کر اشرافیہ کی سیاسی جماعتوں نے بھی جوابی جلسوں کا آغاز کردیا ہے۔ ہمارے جمہوری کلچر میں جلسے جلوس دھرنے حکومت پر دباؤ ڈالنے کا ایک جمہوری طریقہ ہیں اگر عمران اور قادری کو جلسے کرنے کا حق ہے تو دوسری سیاسی جماعتوں کو اس حق سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔

اپنے اس جمہوری حق کو استعمال کرتے ہوئے پی پی پی نے 18 اکتوبر کو باغ جناح پر اپنا ایک جلسہ منعقد کیا بلاشبہ یہ جلسہ بھی بہت بڑا تھا اس میں شرکت کے لیے جہاں پنجاب سے ٹرینوں میں بھر کر عوام کو لایا گیا وہیں سندھ کے مختلف شہروں سے بھی اس جلسے میں شرکت کے لیے ٹرینوں اور 22 ہزار گاڑیوں میں عوام کو لایا گیا۔ اس طریقہ کار پر مختلف حلقے اعتراض کرتے ہوئے یہ دلیل دے رہے ہیں کہ جلسے وہ ہوتے ہیں جن میں عوام اپنی مرضی خوشی سے اپنے ٹرانسپورٹ کے ذریعے یا پیدل چل کر جلسہ گاہوں میں آتے ہیں ٹرینوں بسوں ویگنوں گاڑیوں میں بھر کر عوام کو جلسہ گاہوں میں لانے کو کامیاب جلسہ نہیں کہا جاتا۔ دوسرا اعتراض یہ ہے کہ اس جلسے میں لسانی جذبات کو ہوا دینے کی کوشش کی گئی اور قومی سیاست کرنے کے دعویدار لسانی سیاست کرکے اپنے کو نقصان نہیں پہنچاتے۔

جلسوں کی لمبائی چوڑائی سے قطع نظر دیکھنے کی بات یہ ہے کہ وہ کون سی گیدڑ سنگی ہے جو لاکھوں عوام کو ان جلسوں میں گھسیٹ کر لا رہی ہے؟ ہمارا ملک 67 سالوں سے ایسی اشرافیائی جمہوریت کے پنجوں میں پھنسا ہوا ہے جس کا عوام اور عوام کے مسائل سے کوئی تعلق نہیں اس فراڈ جمہوریت کا مرکزی خیال بے لگام کرپشن ہے جو پارٹی اقتدار میں آتی ہے وہ اپنی ساری توجہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ دولت جمع کرنے پر لگا دیتی ہے اس کلچر کا نتیجہ یہ ہے کہ عوام کے مسائل بڑھتے جاتے ہیں غریب غریب تر اور امیر امیر تو ہوتا جاتا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس جمہوریت کو چند خاندانوں کی بادشاہت میں بدل دیا گیا ہے یہی نہیں بلکہ ولی عہدوں کی کھیپ کی کھیپ تیار کرکے آنے والی صدیوں اور کئی نسلوں تک اپنے حق حکمرانی کو محفوظ کرلیا گیا ہے۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ بلدیاتی نظام کے ذریعے بتدریج نچلی سطح سے عوام کے اعلیٰ سطح تک پہنچنے کا راستہ بنتا ہے اس راستے کو بھی بند کردیا گیا ہے اعلیٰ عدلیہ بار بار بلدیاتی الیکشن کرانے کی تاریخ مقرر کر رہی ہے اور حکمران طبقات کسی نہ کسی بہانے الیکشن کو ٹالنے کی کامیاب کوشش کر رہے ہیں۔

عوام کی اس جمہوری نظام میں شرکت کا ایک طریقہ عام انتخابات ہیں لیکن انتخابات کو ایسی منافع بخش صنعت بنادیا گیا ہے جس میں وہی شخص حصہ لے سکتا ہے جس کی جیب میں کروڑوں روپے ہوں اس جمہوری صنعت میں صنعتکار کروڑوں کا سرمایہ لگا کر اربوں کماتے ہیں اور جمہوری قوت کا سرچشمہ عوام جمہوریت کے ثمرات سے محروم رہ جاتے ہیں۔ انتخابی بدعنوانی میں مرکزی کردار اب الیکشن کمیشن ادا کر رہا ہے۔ یوں انتخابی نتائج کو ہائی جیک کیا جا رہا ہے۔ ہماری سیاست پر مجموعی وڈیرے اور جاگیردار چھائے ہوئے ہیں ہاریوں کسانوں کو پولنگ اسٹیشنوں پر زبردستی لایا جاتا ہے اور بہ جبر ان کے ووٹ حاصل کرکے زمینی اشرافیہ قانون ساز اداروں میں پہنچ جاتی ہے اور اپنی پسند اور مفادات کے مطابق فیصلے کرتی ہے اور یہ سب اس وقت تک ہوتا رہے گا جب تک جاگیردارانہ نظام باقی ہے۔

ہمارے ملک میں قومی دولت کی لوٹ مار کا سلسلہ 67 سالوں سے جاری ہے اسے روکنے والا کوئی نہیں عدالت عالیہ اگر کسی سیاسی لٹیرے کی لوٹ مار کے خلاف کوئی فیصلہ دیتی ہے تو انتظامیہ اس پر عملدرآمد ہونے نہیں دیتی۔ اس حوالے سے ایک بہت بڑی مثال سوئس بینک کی ہے بڑی کوششوں اور جرأت کے بعد عدالت عالیہ نے حکومت کو صرف اس حوالے سے سوئس حکومت کو ایک خط لکھنے کا حکم دیا لیکن حکومت نے عدلیہ کا یہ حکم نہ مانا ایک وزیر اعظم اس حکم کی عدم تعمیل پر نوکری سے گیا لیکن وہ خط راستے ہی میں رہ گیا اور احتساب منہ دیکھتا رہ گیا۔ دو کھرب سے زیادہ کے قرضے اشرافیہ ہڑپ کرگئی۔  اشرافیہ احتساب کے ہر خوف سے آزاد ہے۔

تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک اس بادشاہی جمہوریت کو ختم کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے اور ولی عہدی جمہوریت کے خلاف ڈٹ کر کھڑی ہوئی ہے۔ بلدیاتی نظام کو ہمارا حکمران طبقہ اپنے مفادات اور اختیارات کے خلاف اور مداخلت سمجھتا ہے اس لیے وہ ہر ممکن طریقے سے اسے ٹالنے کی کوشش کررہا ہے اور تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک فوری بلدیاتی انتخابات کا مطالبہ کر رہی ہے۔ تیسرا مسئلہ عام انتخابات کا نامنصفانہ اور بددیانتانہ سرمایہ کاری کا نظام ہے تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک اس غیر منصفانہ اور جانبدارانہ نظام کو تبدیل کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں ہماری سیاست کا سب سے بڑا روگ جاگیردارانہ نظام ہے اور تحریک انصاف اور پاکستان عوام تحریک جاگیردارانہ نظام کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ہمارے ملک میں آزادی کے ساتھ اربوں روپوں کی لوٹ مار کا سلسلہ جاری ہے کوئی پوچھنے والا نہیں حتیٰ کہ عدالت عالیہ بھی لٹیروں کے سامنے بے بس ہو رہی ہے۔ تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کڑے اور غیر جانبدارانہ احتساب کا مطالبہ کر رہے ہیں جسے عوام کی بھرپور تائید حاصل ہے۔

تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے پاس نہ کوئی داد ہے نہ گیدڑ سنگی جو عوام کو ان کے جلسوں میں گھسیٹ لا رہی ہے کیا کوئی سابق یا حالیہ حکمران جماعت اور ان کی اتحادی جماعتی یہ مطالبات کر رہی ہیں یا کرسکتی ہیں؟ اس کا جواب نفی میں اس لیے ہے کہ یہ سارے حربے حکمرانوں کی حکمرانی کے لوازمات ہیں وہ کبھی اپنے طبقاتی مفادات کے خلاف بات کرسکتے ہیں نہ کوئی مطالبہ کرسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یا تو وہ ایسے سیلابی جلسے نہیں کرسکتے یا پھر عوام کو ٹرینوں بسوں ویگنوں اور ہزاروں گاڑیوں لا کر ’’بڑے جلسے‘‘ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

پاکستان دنیا کا غالباً واحد ملک ہے جہاں کی جمہوریت میں وہ ساری برائیاں موجود ہیں جن کا سرسری ذکر ہم نے اوپر کیا ہے اس پس منظر میں اس شاہانہ جمہوریت کو بدلنا عوام کا حق ہی نہیں فرض بھی ہے اور 67 سال میں یہ پہلا موقع ہے کہ عوام کو اپنے حق اور فرض کا احساس ہو رہا ہے کوئی عوام دوست جمہوریت کا مخالف نہیں ہوسکتا بلکہ سارے عوام دوست ایسی جمہوریت چاہتے ہیں جس کے قانون ساز اداروں، جس کی قومی اور صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ میں مزدوروں، کسانوں، غریب طبقات، وکلا، ڈاکٹرز، دانشوروں، ادیبوں، شاعروں، فنکاروں اور عوام دوست سیاست کے نمایندے موجود ہوں اور قانون عوام کے مفادات کے تحفظ کے لیے بنائے جائیں اشرافیہ کے مفادات کے تحفظ کے لیے نہیں۔ ورنہ نہ عمران ہمارے لیے کوئی دیوتا ہے نہ قادری کوئی مقدس گائے۔ ان کے مطالبات قابل احترام ہیں کیونکہ وہ جمہوریت کی روح اور عوامی مفادات کے عین مطابق ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔