پاکستان کی پہلی بین الاقوامی فلم

خرم سہیل  منگل 28 اکتوبر 2014
khurram.sohail99@gmail.com

[email protected]

پاکستان کی پہلی بین الاقوامی فلم ’’ٹائیگر گینگ‘‘ کو کہا جا سکتا ہے۔ بین الاقوامی سینما کے تناظر میں پہلے اس کا مختصر ذکر کیا تھا۔ اس فلم کی سب سے بڑی خوبی، پاکستان اور جرمنی کی مشترکہ پروڈکشن تھی۔ دونوں ممالک نے ایک دوسرے سے تکنیکی طور پر بھرپور تعاون کیا۔ یہ واحد پاکستانی فلم ہے، جس کو جرمن اور اردو زبان کے علاوہ دیگر ممالک میں وہاں کی مقامی زبانوں میں بھی نمائش کے لیے پیش کیا گیا۔ یہ کہنے میں کوئی عار نہیں، اس فلم کے ذریعے پاکستانی فلمی صنعت کے لیے پہلی مرتبہ بین الاقوامی فلمی تجارت کا دروازہ کھلا تھا۔

جرمن زبان میں بنائی گئی اس فلم کا ٹائٹل ’’Kommissar X jagt die roten Tiger‘‘ تھا جب کہ انگریزی زبان میں ڈب کرکے اسے ریلیز کیا گیا تو اس کا نام ’’FBI Operation Pakistan ‘‘ رکھا گیا تھا۔ اردو زبان میں اس کا نام ’’ٹائیگر گینگ‘‘ رکھا گیا۔ ہدایت کاری، اداکاری، کہانی نویسی، عکس بندی، اشتہاری مہم اور دیگر شعبوں میں دونوں طرف سے مشترکہ طور پر کام ہوا تھا۔

فلم کی کہانی کو دونوں ممالک کے فلم بینوں کے مزاج کو مدنظر رکھتے ہوئے فلمایا گیا مثال کے طور پر برصغیر کے خطے میں فلم گیتوں کے بغیر ادھوری تصور ہوتی ہے اس لیے پاکستان میں اس فلم کو ریلیز کرتے وقت معمولی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ گیتوں کا اضافہ کیا گیا جب کہ امریکا، جرمنی اور دیگر یورپی ممالک میں یہ فلم گیتوں کے بغیر ریلیز ہوئی، البتہ مجموعی طور پر فلم کی کہانی کو تبدیل نہیں کیا گیا تھا۔ اردو اور جرمن دونوں زبانوں میں اس فلم کے مختلف پوسٹر بھی تیار کیے گئے تھے۔

اس فلم کو بنانے میں جرمنی کی 3 پروڈکشن کمپنیاں، ڈیوینا فلم، ریگینا فلم اور ورجینیا سینماٹوگرافیکا شامل تھیں جب کہ پاکستان سے مونٹانا فلمز کا اشتراک تھا۔ ان چاروں فلم ساز اداروں نے مل کر اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ جرمنی سے اس کے ہدایت کار ’’ہیرالڈرینل Harald Reinl‘‘ جب کہ پاکستان سے اقبال شہزاد نے ہدایت کاری کی ذمے داریاں نبھائیں۔ اس فلم کے پاکستانی فلم ساز بھی اقبال شہزاد جب کہ جرمنی سے تھیو ایم وارنر تھے۔

یورپ کے 6 ممالک میں مقامی زبانوں میں اس کو ریلیز کیا گیا۔ 1971 میں مغربی جرمنی 1972 میں اٹلی 1973 میں فرانس اور سوئیڈن 1974 میں اسپین اور فن لینڈ میں یہ ریلیز ہوئی۔ پاکستان میں یہ فلم 1974 میں نمائش کے لیے پیش کی گئی۔ فلم کا مرکزی خیال ’’ایم ویگنرM Wegener‘‘ کے ناول سے اخذ کیا گیا۔ اسکرین پلے لکھنے والوں میں 3 جرمن فلم نگار تھیو ماریہ وارنر، کیلس آر ای وان شیورز اور وارنر پی زیباسو شامل تھے۔ موسیقاروں میں پاکستان سے دیبو اور خلیل احمد تھے جب کہ جرمنی سے فرانسیکو دی ماسو کا اشتراک تھا۔

اس فلم کے ستاروں میں پاکستانی، اطالوی اور جرمن اداکار شامل تھے۔ پاکستان سے محمد علی، زیبا، نشو، علی اعجاز، قوی خان، ساقی شامل، مینا چوہدری، روبینہ، طلعت صدیقی اور زرقا شامل تھے جب کہ اٹلی سے ٹونی کینڈل اور جرمنی سے بریڈ حریث، گیسیلہ ہان، ارنسٹ فرٹیز فور برینگر، رائنر بیسیڈو، نینوکوردا، روبریٹومیثینا، چارلس وکی فیلڈ، میک جارجر فلینڈرز اور دیگر اداکار شریک تھے۔ اردو زبان کے لیے اس فلم کے مکالمے سلیم چشتی نے لکھے اور جرمن زبان میں زباسکو نے انھیں لکھا۔

میک اپ کے شعبے میں جرمنی سے عرسلہ چنپیلی اور پاکستان سے ادریس اور احمد وفا نے ذمے داریاں نبھائیں۔ فوٹوگرافی میں جرمنی سے ایف ایزاریلی اور پاکستان سے صادق موتی شامل تھے۔ فلم کی شوٹنگ تین ممالک میں کی گئی جن میں افغانستان، پاکستان اور امریکا شامل ہیں۔ افغانستان میں اس کی شوٹنگ سرحدی علاقے کے پہاڑوں پر ہوئی، پاکستان میں پشاور اور لاہور میں مختلف مقامات اور امریکا میں اس کی عکس بندی نیویارک میں کی گئی۔ یہ شاید پاکستان کی واحد فلم تھی جس میں تقریباً تمام شعبوں میں ایسے افراد کی بھی اکثریت تھی جنھوں نے نائب کی حیثیت سے کام کیا تھا۔

فلم کے پاکستانی ورژن میں چونکہ گیت بھی شامل کیے گئے تھے اس لیے فلم کی تشکیل میں گیت نگاری اور موسیقی سے تعلق رکھنے والے فنکار بھی شامل تخلیق ہوگئے۔ موسیقاروں میں دیبو اور خلیل احمد تھے جب کہ فلم کے تمام گیت ریاض الرحمن ساغر کے لکھے ہوئے تھے، سوائے ایک گیت کے، اس گیت کے بول تھے ’’شمشیر برہنہ مانگ غضب‘‘ اور یہ بہادر شاہ ظفر کی غزل تھی، جس کو فلمی موسیقی کے سانچے میں ڈھال کر فلم میں شامل کیا گیا۔ اس فلم کے گلوکاروں میں حبیب ولی محمد، رونا لیلیٰ اور شہناز بیگم کی آوازیں شامل تھیں۔

’’ٹائیگر گینگ‘‘ ایک ایکشن فلم تھی جس کی کہانی میں تجسس، رومان اور مزاح کے رنگ بھی شامل کیے گئے تھے۔ اس فلم کی کہانی کا خلاصہ یہ ہے، ایک عالمی شہرت یافتہ منشیات کا اسمگلر، جس کو انٹرپول، ایف بی آئی اور پاکستانی پولیس تلاش کر رہی ہے۔ اسمگلر کا سرغنہ ’’ڈاکٹر ٹاواریا‘‘ معاشرے کے خلاف منفی سرگرمیوں میں ملوث ہوتا ہے، یہ امریکی مافیا کا سابقہ کارندہ بھی تھا۔ اس کی تلاش میں انٹرپول کا ایک ایجنٹ پاکستانی پولیس افسر کی معاونت کررہا ہوتا ہے، اس پولیس افسر کا نام ’’علی‘‘ ہوتا ہے۔ اس کا معاون ایجنٹ نامعلوم حملہ آوروں کے ہاتھوں قتل ہوجاتا ہے جس کے بعد اس مشن کے لیے ایک مسٹر خان کہانی میں داخل ہوتا ہے۔ اس کا تعلق بھی انٹرپول سے ہوتا ہے۔ پاکستانی پولیس افسر اپنے معاونین کے ہمراہ اسمگلر اور اس کے گینک کی تلاش میں رہتا ہے۔ اسی طرح کہانی میں کئی موڑ آتے ہیں، زیرزمین رہنے والے مختلف گروہ اور وہ طبقات جن کی سرگرمیاں مشکوک ہوتی ہیں، ان کا طرززندگی بھی دکھایا گیا ہے۔ اسی دنیا کی ایک معصوم لڑکی ’’شیریں‘‘ بھی اس فلم میں اہم کردار ہے، اس کا بھائی کسی طرح اس گینگ کے ہاتھوں مارا جاتا ہے، پھر یہی شیریں اس گینگ کے مجرموں تک پہنچنے کے لیے پاکستانی پولیس افسر کی مدد کرتی ہے۔

اس فلم میں پولیس افسر کا کردار ’’محمد علی‘‘ نے نبھایا جب کہ ’’شیریں‘‘ کے کردار میں ’’زیبا‘‘ نے اداکاری کی۔ انٹرپول اور ایف بی آئی کے ایجنٹس کے طور پر ’’ٹونی کینڈل‘‘ اور ’’بریڈ حریث‘‘ نے اپنے کرداروں کو بخوبی ادا کیا۔ یہ ایک روایتی کہانی ہے، جس پر کئی بار فلمیں بن چکی ہیں، مگر اس کی اہمیت اس لیے ہے کہ فلم کو تخلیقی اور تکنیکی دونوں طرح سے بناتے وقت جرمنی اور پاکستان کے فلم ساز اور فنکاروںِ کا بتدریج اشتراک رہا۔ اس فلم کا ورلڈ پریمیئر بھی ہوا اور مختلف یورپی ممالک میں نمائش کی گئی۔ حیرت کی بات ہے کہ پاکستان میں یہ فلم فلاپ ہوئی، شاید یہی وجہ ہے کہ اس فلم پر زیادہ بات نہیں ہوئی۔

اس فلم کا شمار پاکستان کی ان چند فلموں میں ہوتا ہے، جو مغرب اور مشرق کی ثقافت کا ملاپ ثابت ہوئیں۔ اس میں کام کرنیوالے تمام اداکار اپنے ملکوں میں ایک شہرت رکھتے تھے۔ پاکستان سے محمد علی اور زیبا کی جوڑی تھی اور یہ وہ وقت ہے جب یہ دونوں کی شہرت آسمان سے باتیں کررہی تھی۔ اسی طرح جرمن اداکار بھی اپنے ملک کے مقبول اداکار تھے۔

اس فلم کی بازیافت سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہم آج بھی چاہیں تو عالمی معیار کی فلمیں بناسکتے ہیں اور دنیا کے کسی بھی ملک کے ساتھ مشترکہ طور پر بھی فلم بناسکتے ہیں۔ ہمارے موجودہ فلم ساز بالخصوص بالی ووڈ سے تعلق رکھنے والے روایتی فلموں کے خالق یہی عذر تراشتے دکھائی دیتے ہیں کہ ہمارے پاس ذرایع کی کمی ہے جس کی وجہ سے ہم معیاری فلم نہیں بناسکتے۔ ان کے لیے اقبال شہزاد کی یہ فلم ’’ٹائیگر گینگ‘‘ ایک روشن مثال ہے۔

1999میں ایک فلم ’’گنز اینڈ روزز، اک جنون‘‘ ریلیز ہوئی تھی۔ اس فلم کے تمام ذرایع پاکستانی تھے، لیکن فلم کو بنانے اور پیش کرنے کا انداز جدید تھا جس کی وجہ یہ تھی کہ یہ اداکار شان کی بطور ہدایت کار پہلی فلم تھی اور کچھ عرصہ قبل ہی وہ مغرب سے فلم کی تعلیم حاصل کرکے آئے تھے، اس فلم کی پروڈیوسر تنویر فاطمہ تھیں، جو خود بھی تعلیم یافتہ خاتون ہیں ۔

فلمی صنعت کے موجودہ حالات کافی تسلی بخش ہیں ۔ شعیب منصور کی ’’خدا کے لیے‘‘ اور ’’بول‘‘ بلال لاشاری کی ’’وار‘‘ نے پاکستان کے فلمی منظرنامے کو تبدیل کیا اور حال ہی میں ریلیز ہونے والی فلمیں ’’نامعلوم افراد‘‘ اور ’’آپریشن 021‘‘ نے اس ماحول کو مزید بہتر کیا ہے لہٰذا فلم بین یہ امید کرسکتے ہیں آنے والے دنوں میں کوئی فلم ٹائیگر گینگ کی طرح عالمی سطح کی پروڈکشن کے تحت بھی بنائی جاسکے گی۔ یوں ایک مرتبہ پھر پاکستانی فلم کو دنیا بھر کے فلمی شائقین میسر آئینگے۔ ابھی یہ ایک خواب لگتا ہے لیکن انھی کو خوابوں کی تعبیر ملتی ہے جو خواب دیکھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔