عورتیں، پدرسری اور سرمایہ داری (پہلا حصہ)

مہ ناز رحمن  بدھ 29 اکتوبر 2014

حالیہ برسوں میں عالمگیریت مخالف تحریک ابھر کر سامنے آئی ہے، خاص طور پر 1999ء میں سئیتل میں ہونے والے مظاہرے اس تحریک کی طاقت کی بہترین مثال تھے۔ تبھی سے اسکالرز اور ایکٹوسٹس سرمایہ داری پر مارکس کی تنقید کی جانب دوبارہ متوجہ ہونا شروع ہوئے۔ ہیتھر براؤن جیسے مصنفین کا خیال ہے کہ مارکس کی جانب واپسی کے اس سفر میں اس کی ان تحریروں پر غور کرنے کی ضرورت ہے جن میں اس نے عورتوں کی آزادی کو کسی بھی سرمایہ دار مخالف پلیٹ فارم کا بنیادی حصہ قرار دیا ہے۔ تحریکی کارکنوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ سرمایہ دارانہ نظام میں عورتوں کو درپیش حالات کو سمجھیں اور تبدیلی کا نظریہ پیش کریں۔

اس ضمن میں مارکس کی تحریریں ان کی مدد کر سکتی ہیں۔ تقسیم کار، پیداوار اور معاشرے کو عمومی طور پر سمجھنے کے لیے خاندان اور صنفی کرداروں کو سمجھنا ضروری ہے۔ ایک حقیقی سوشلسٹ معاشرے کے قیام کی اولین شرط عورتوں کی مکمل آزادی اور مساوات ہے۔ مارکس نے صرف کام کی جگہ پر عورتوں پر ہونے والے مظالم کی بات نہیں کی ہے بلکہ وہ خاندان میں عورت پر ہونے والے مظالم کی بات بھی کرتا ہے، خواہ مزدور خاندان ہو یا متوسط یا امیر گھرانہ ہو۔ وہ انقلاب فرانس کا بھی حوالہ دیتا ہے جو ایک سیاسی انقلاب تھا مگر اس نے گھر کے اندر جابرانہ حرکیات کو تبدیل نہیں کیا تھا۔ خاندان کے اندر جبر اور بیگانگی کی حرکیات کے منفی نتائج عورتوں میں خودکشی کی بڑھتی ہوئی شرح کی شکل میں سامنے آتے ہیں۔

امیر گھرانوں میں بھی عورتیں بے بس اور بے اختیار ہوتی ہیں۔ اور اس صورتحال کے خلاف مزاحمت بھی کرتی ہیں یا کرنا چاہتی ہیں۔ معاشرے میں مجموعی طور پر عورت پر ہونے والے ظلم کو سمجھنے کے لیے خاندان کے اندر عورت پر ہونے والے ظلم کا تجزیہ کرنا ضروری ہے۔ اس لیے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ مارکس صرف پیداواری محنت کی ہی بات کرتا تھا۔ یہ صحیح ہے کہ مارکس کی تحریریں عورت پر ہونے والے ظلم کے سارے پہلوؤں کا احاطہ نہیں کرتیں لیکن اس کا مجموعی فریم ورک اور طریقہ کار ہمیں ایسے ٹولز فراہم کرتا ہے جن کی مدد سے ہم اس کے سرمایہ دارانہ نظام کے تجزیے میں صنفی تجزیہ بھی شامل کر سکتے ہیں۔

ابھی تک مارکسیت پر یہی الزام لگایا جاتا رہا ہے کہ یہ صنف کو نظرانداز کرکے صرف کلاس یا طبقہ پر توجہ مرکوز کرنے والا نظریہ ہے۔ اور یہ کہ خود کو مارکسی کہلانے والے ادارے صنف اور نسل کے حوالے سے ہونے والے مظالم کے خلاف جدوجہد کی کوئی قابل رشک تاریخ نہیں رکھتے۔ ہم میں سے ہر ایک کو کسی نہ کسی مارکسی نے یہ ضرور بتایا ہو گا کہ جنسی تعصب اور نسل پرستی جیسے مسئلوں سے انقلاب لانے کے بعد نمٹا جائے گا اور اس سے پہلے ہم سب کو طبقاتی جدوجہد کرنی چاہیے۔ اس بات کو آگے بڑھانے سے پہلے ہمیں سماجی تولیدی نظریے Social Reproduction Theory کو سمجھنا ہو گا، یعنی ان اسٹرکچرز اور سرگرمیوں پر زور دینا جو سماجی عدم مساوات کوایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل کرتے ہیں۔

سماجی تولیدی نظریہ ایک مسئلہ کی وضاحت کرتا ہے اور مسئلہ یہ ہے کہ عورتوں اور مردوں کے درمیان عدم مساوات سارے طبقاتی معاشروں کا خاصہ کیوں ہوتی ہے؟ سماجی تولیدی نظریہ ایک ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ نظام کے شہری علاقوں میں مرد اور خواتین کارکنوں کے حوالے سے اس کی وضاحت کرتی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ بچوں کی پیدائش اور مردوں کی دیکھ بھال کا زیادہ بوجھ عورت کو اٹھانا پڑتا ہے۔ اور مرد زیادہ تر گھر سے باہر پیداواری کام کرتے ہیں۔ گھر کا زیادہ تر کام اور بچوں کی دیکھ بھال عورتیں کرتی ہیں کیونکہ وہ جسمانی طور پر مردوں سے مختلف ہوتی ہیں۔ عورت حاملہ ہوتی ہے، بچہ پیدا کرتی ہے، اسے دودھ پلاتی ہے۔ یہ تقسیم کار سرمایہ دار طبقہ کے لیے منافع بخش ہے۔ اس لیے وہ اسے برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس نظریے کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ سرمایہ داری طبقاتی معاشروں کی بہت سی شکلوں میں سے صرف ایک شکل ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کو آئے ہوئے ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا ہے اور اس کے حوالے سے صنفی عدم مساوات یا جنسیت کی وضاحت نہیں کی جا سکتی۔

ہمیں ایسی وضاحت درکار ہے جس کا اطلاق ہزاروں سالہ طبقاتی معاشروں پہ ہو سکے۔ ان طبقاتی معاشروں پر سماجی تولیدی نظریے کا اطلاق نہیں کیا جاسکتا۔ ان معاشروں میں مرد اور عورت گھروں میں بھی کام کرتے تھے اور دونوں کھیتوں میں بھی کام کرتے تھے۔ عورتیں بچوں کو دودھ پلاتی ہیں لیکن اس کے ساتھ وہ کھیتوں میں بھی کام کرتی ہیں۔ جب بچہ ایک سال کا یا ذرا بڑا ہو جاتا ہے تو گھر میں دوسرے چھوٹے بہن بھائی اس کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ کھیتوں میں کام کے لیے عورت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان گھرانوں میں باپ بھی بچوں کے ساتھ اچھا خاصا وقت گزارتے ہیں اور اگر کبھی بڑوں کو بچوں کی دیکھ بھال کے لیے گھر میں رکنا پڑے تو زیادہ تر دادا، دادی یا دیگر عمر رسیدہ افراد جو کھیتوں میں کام نہیں کر سکتے، گھر پر رکتے ہیں۔ زیادہ تر خاندان کے بچے ہی چھوٹے بہن بھائیوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں اور گاؤں کے بڑے ان پر نظر رکھتے ہیں۔

ان طبقاتی معاشروں میں سرمایہ دار نہیں ہوتے بلکہ زمیندار ہوتے ہیں اور اگر انھیں کھیت مزدوروں کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ مردوں اور عورتوں دونوں سے کام کراتے ہیں۔

آج ہمارے حکمران طبقات ہمیں یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ عدم مساوات ایک قدرتی عمل ہے لیکن ہم یہ کہتے ہیں کہ صنفی عدم مساوات اور انسانوں کے درمیان فرق سماج کا پیدا کردہ ہے۔ ہم بچپن سے یہ فرق دیکھتے ہیں اور اسے قدرتی چیز سمجھ کر قبول کر لیتے ہیں۔ حکمران طبقات کو یہ بات بہت اچھی لگتی ہے اور وہ اس فرق کو بڑھانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ جب پیداواری تعلقات کی شکل بدلتی ہے تو حکمران طبقات صنفی نظریات کو نئی اقتصادی حقیقت کے مطابق تبدیل کردیتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ اس نظام میں طبقہ مرکزی حیثیت رکھتا ہے اور طبقاتی تعلقات سماجی تبدیلی لانے کا باعث بنتے ہیں۔ طبقاتی تعلقات میں تبدیلی صنفی تعلقات کو تبدیل کر دیتی ہے۔

ہماری دلیل یہ بھی ہے کہ صنف کے بارے میں جدوجہد طبقاتی جدوجہد سے کم اہم نہیں ہے۔ بلکہ صنف کے بارے میں ہونے والی جدوجہد کلیدی طبقاتی جدوجہد بھی ہے۔ جب ہم صنف کے بارے میں اور جنسی تشدد کے بارے میں جدوجہد کرتے ہیں تو جلد ہی یہ جدوجہد منیجرز کے خلاف، حکمران طبقے کے خلاف اور ریاست کے خلاف جدوجہد بن جاتی ہے۔ ہم جنسی تشدد کے خلاف جدوجہد کو طبقاتی جدوجہد کے کلیدی لمحات میں شمار کرتے ہیں۔

عورتوں اور مردوں کے درمیان جسمانی فرق حقیقی ہیں لیکن یہ اہمیت نہیں رکھتے۔ جب کہ سماجی تولید کا نظریہ عورتوں اورمردوں کے الگ دائرے کی بات کرتا ہے کیونکہ مرد اور عورت جسمانی طور پر مختلف ہیں۔ اس لیے عورت بچے پیدا کرے، بچوں کی پرورش کرے اور گھریلو کام کاج کرے اور مرد گھر سے باہر روزگار تلاش کرے اور گھر والوں کی کفالت کرے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ تقسیم کار عورت پر ظلم کا سبب کیسے بن گئی؟ یہ تقسیم کار جسمانی فرق کے پیش نظر کی گئی تھی۔ تو پھر یہ عورت کی محکومیت اور مرد کی حاکمیت میں کیسے تبدیل ہوگئی؟ عورت کو تو اپنی جسمانی ساخت پر فخر کرنا چاہیے کہ اسے انسانی نسل کی افزائش کا فریضہ سونپا گیا۔ یہ عظیم فریضہ اس کی برتری کا سبب ہونا چاہیے نہ کہ کمتری کا۔

(جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔