قربانیوں کے مہینے

سید نور اظہر جعفری  بدھ 29 اکتوبر 2014

ماہ ذی الحج اور ماہ محرم الحرام کا اتصال اور ان دو ماہ کے دوران پیش آنے والے تاریخ اسلام کے اہم ترین واقعات، مسلم قوم کے لیے ایک سنہری راستہ اور صراط مستقیم کا انمول درس ہیں۔ نبیوں کے اﷲ کی رضا پر قائم رہنے اور اﷲ کی راہ میں استقامت کے ساتھ قربانی پیش کرنے کے بے مثال واقعے ہیں۔

سنت ابراہیمی کی ابتدا اور اس کا خوبصورت اختتام کربلا۔ کس طرح تاریخ انسانی اس کی نظیر پیش کرسکتی ہے، ناممکن ہے کہ ایسا ہوسکے، کیونکہ واقعات تو پیش آتے رہیں گے اور لوگ نقش قدم پر چلتے رہیں گے مگر ایسی مثال پیش نہ کرسکے گا، جو اس سے پہلے پیش آئی ہو جساکہ ان دو واقعات میں منظرنامہ ہے، تاریخ اسلام کے درخشاں باب جو یوں جگمگاتے رہیں گے۔

ایک نبیؑ نے خواب دیکھا کہ تاکید ہے کہ اپنی قیمتی ترین شے اللہ کی راہ میں قربان کرو! پھر اس خواب کا تسلسل اور نبی کی فہم کا امکان کہ وہ کیا شے ہے کہ قیمتی ترین ہے اور جسے اللہ چاہتا ہے کہ اس کی راہ میں قربان کیا جائے۔

مسلسل فکر نے راستہ دکھایا کہ اولاد ہی وہ شے ہے کہ جو قیمتی ترین ہے۔ کیونکہ تاریخ میں دو اور شخصیتوں کا ذکر موجود ہے حضرت یعقوبؑ اور حضرت یوسفؑ اور اولاد کی محبت کا ذکر بھی جس کی یاد میں ’’دیدہ یعقوب‘‘ معروف ہوگیا۔

حضرت ابراہیمؑ نے صلاح بھی کی تو کس سے، کہ جسے قربان گاہ پر لے جانا ہے۔ اور کی اعتماد ہے دونوں طرف کہ نہ پوچھنے والے کو فکر ہے کہ جس سے پوچھا جا رہا ہے وہ انکاری ہوگا اور نہ اس کو کوئی عدم اعتماد کہ مجھ سے پوچھنے والا غلط پوچھے گا۔

اور جب یہ ظاہر ہوگیا کہ رضائے الٰہی کیا ہے تو دونوں مطمئن ہیں اور اس کو سرانجام دینے کے لیے تیار اور وہاں سے کچھ دور جا رہے ہیں کہ ماں سے اور بیوی سے یہ بات پوشیدہ رہ جائے۔ ماں کون کہ جس کی بے قراری نے ’’زم زم‘‘ کو وجود دیا۔

وہ زم زم جو آج حجاز مقدس سے ہم تک پہنچتا ہے اور ہم اسے آنکھوں سے لگاتے اور جاں کا حصہ بناتے ہیں۔ حضرت اسماعیلؑ کی والدہ بی بی حاجرہ کی بے قراری کا ثمر ’’زم زم‘‘ ہے۔ اور پھر دیکھیں کہ انسانی مشکلات کا کیسا ذکر ہے اس واقعے میں کہ قربان ہونے والا، قربان کرنے والے سے کہہ رہا ہے کہ ممکن ہے کہ آپ یہ دیکھ نہ سکیں تو آنکھوں پر پٹی باندھ لیجیے تاکہ جب آپ مجھے ذبح کریں تو آپ دیکھ نہ سکیں آپ مجھے ذبح کر رہے ہیں۔

قربانی ہوگئی، ابراہیمؑ نے فرض پورا کردیا اور اﷲ کا شکر ادا کرکے جب آنکھوں سے پٹی ہٹائی تو حضرت اسماعیلؑ ایک طرف کھڑے مسکرا رہے تھے اور ان کی جگہ ایک مینڈھا ذبح کیا ہوا تھا۔ یہ تھی وہ قربانی، جو روک لی گئی۔

خدا نیتوں کو دیکھتا ہے، اور اعمال کا تعلق نیت سے ہے۔ عمل بعد میں، ارادہ پہلے۔ ابراہیمؑ کے ارادے کا امتحان تھا۔ مگر عمل تک پہنچا کر اور اس عمل پر اﷲ نے خوشنودی کا اظہار فرمایا ۔ حضرت ابراہیمؑ نے اپنے رب سے وہ مانگ لیا کہ جو حسین ترین وعدہ تھا رب کا۔ ’’یا اللہ! میری ذریت میں امام پیدا فرما۔‘‘ اور اللہ اپنے وعدے سے کبھی روگردانی نہیں کرتا۔ اس نے ابراہیم سے کیا ہوا وعدہ امام حسینؓ کی صورت میں پورا کیا۔

جگر گوشہ رسولؐ جنھوں نے آغوش رسولؐ میں زیادہ وقت گزارا، اور حسینؓ بنے۔ جنھوں نے اسماعیلؑ کی قربانی کو مکمل کیا۔ نانا سے کیا ہوا وعدہ پورا کیا۔ اتمام حجت کی بے نظیر مثالیں تاریخ کے صفحات پر رقم کیں۔

ایثار اور راہ خدا میں قربانی کے وہ بے مثال تحفے پیش کیے کہ جن کو دیکھ کر تاریخ دنگ بھی رہ گئی اور آج تک اشکبار بھی ہے۔ سفر وہ بھی کربلا کا اور اہل وعیال کے ساتھ، جن میں خواتین بھی ہیں، بوڑھے بھی ہیں، جوان بھی ہیں، بچے بھی ہیں، چھ ماہ کا ماہتاب بھی ہے، جو آفتاب کی گود میں روشن ہوا، تاریخ کربلا میں لازوال قربانی کے انمٹ نقوش رقم کرگیا۔

یہ دنیا اور وہ دنیا، کیا ہے کربلا؟ کربلا ہے وہ دنیا اور کربلا کا ظلم ہے یہ دنیا۔ مگر درس یہ ہے کہ اس دنیا کی قربانی اس دنیا میں سرفراز کرتی ہے۔

کیا کیا نہ دیا حسینؓ نے اپنے بزرگ اسماعیلؑ کے راستے پر چلتے ہوئے۔ سجا دیا کربلا کو جو آج تک سجی ہوئی ہے اور قیامت تک کربلا کی بزم سجی رہے گی۔

کربلا کی پرعزم خواتین خانوادہ رسولؐ کی پرورش کردہ بی بی زینبؓ جنھوں نے علم حسینی کو کربلا سے شام تک بلند رکھا۔ دربار میں عزم وہمت کا پیکر۔ وہ لہجہ کہ صحابی، علیؓ کی بیٹی کے لہجے میں علیؓ کو پہچان لے اور پکار اٹھے کہ یہ تو علیؓ کا لہجہ ہے۔

اﷲ کے معجزے ہر جگہ رونما ہوتے ہیں اور ان کا جواز بھی نفی سے اثبات ہوتا ہے، مرضی خداوند کریم سے کہ فرزند حسینؓ۔ حضرت زین العابدین ’’عابد بیمار‘‘ تخت پر بیٹھے وقت کے فرعون کی بات کا جواب دے رہے ہیں اور اس پرتاثیر جواب پر تلملا کر وہ اشارہ کرتا ہے تو کوئی اذان دینا شروع کردیتا ہے کہ کلام قطع ہوجائے حالانکہ یہ نماز کا وقت نہیں ہے اور جب اذان دینے والا ’’اشھد ان محمد الرسول اللہ‘‘ کہتا ہے تو امام زین العابدین فرماتے ہیں کہ یہ کس کو رسول کہا گیا۔ یہ کون ہیں جن کو تم نے اللہ کا رسول کہا ہے۔ یہ میرے جد ہیں، ہم کون ہیں یہ جان لیا تم نے۔ کہ تم نے اپنا کتنا نقصان کیا ہے۔ تم نے کن لوگوں کو شہید کیا ہے۔ حسین اس رسول کا نواسہ ہے جسے اذان میں تم رسول کہہ کر گواہی دیتے ہو۔‘‘

تاریخ اسلام کے سینے پر کربلا کے شہیدوں کی قربانیاں جگمگاتی رہیں گی۔ یہ کس کے لیے تھا۔ یہ ہمارے لیے تھا۔ یہ آنے والے وقتوں کے لیے تھا۔ اگر کربلا نہ ہوتی تو آج اسلام نہ ہوتا ۔ کربلا نے اسلام کو آب و بقا دی ہے۔

بہت کوشش کی ہے غیروں نے خرید کر اپنوں کو۔ بالکل اسی طرح جیسے کہ وقت کربلا میں کیا گیا تھاکہ اسلام مٹ جائے۔ کربلا ختم ہوجائے۔ مگر بہت مشکل ہے۔ مسلمان میں سے اسلام اور اسلام میں سے کربلا نکل جائے تو کچھ باقی نہیں رہتا۔

میں حیران ہوجاتا ہوں۔ ہر سال حیران ہوتا ہوں۔ پورا اسلامی سال کمان کی طرح کھنچ کر ان دو مہینوں میں آجاتا ہے۔ ایک امتحان کا آغاز اور دوسرا امتحان کا اختتام۔

وہ لوگ عظیم تھے۔ خدا کے دین کو ’’ابدیت‘‘ فراہم کرنے کے لیے جانوں کے نذرانے اس کے حضور پیش کردیے۔ ہر جانے والا مسکرا کر موت کو گلے لگاتا رہا۔ اور باطل کا انکار اور حق کا اعلان کرتا رہا۔

اے زمین کربلا تیری قسمت پر رشک آتا ہے۔ تو خاک سے لاکھ ہوگئی۔ کیا کیا خزینے تیرے دامن میں ہیں اور روز قیامت تک رہیں گے۔ تیری ایک چھوٹی مثال یہ ارض پاک ہے۔ جس پر شہیدوں نے اپنے خون سے تاریخ لکھی اور لکھ رہے ہیں۔

روز حشر جب زمینوں کا حساب ہوگا اور کربلا کے بعد شہیدوں کی زمینوں کو اعزاز دیے جائیں گے تو ارض پاک کا بھی ایک نمایاں مقام ہوگا انشا اﷲ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔