سندھ ٹیکنیکل بورڈ کے ریکارڈ روم کی چابیاں پُراسرار طور پر غائب

صفدر رضوی  بدھ 29 اکتوبر 2014
نتائج میں ردوبدل کی تحقیقات کا آغاز نہ ہوسکا، پروفیسر انوار تفتیش کیے بغیر بورڈ سے چلے گئے۔ فوٹو: فائل

نتائج میں ردوبدل کی تحقیقات کا آغاز نہ ہوسکا، پروفیسر انوار تفتیش کیے بغیر بورڈ سے چلے گئے۔ فوٹو: فائل

کراچی: سندھ بورڈ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن کے نتائج میں ردوبدل اورفیل امیدواروں کوپاس کرنے کے بعداب ایک نیا تنازع کھڑا ہوگیا، امتحانی ریکارڈ کے حامل بورڈ کے ریکارڈ روم کی چابیاں پراسرار طور پر غائب ہوگئیں۔

بورڈ کاریکارڈ روم بند پڑاہے اورچابیاں نہ ہونے کے سبب چیئرمین بورڈ سمیت دیگرافسران کی ریکارڈ روم تک رسائی ناممکن ہوگئی ہے جبکہ گورنرسندھ کی جانب سے مقررکیے گئے تحقیقاتی افسر بھی ریکارڈ روم کی چابیاں نہ ہونے کے سبب سندھ ٹیکنیکل بورڈ میں نتائج میں کی گئی ردوبدل کے حوالے سے تحقیقات شروع نہیں کرسکے، تحقیقاتی افسر پروفیسرانواراحمد بھی منگل کوتحقیقات کاآغاز کیے بغیربورڈ سے واپس چلے گئے۔

یاد رہے کہ سندھ بورڈ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن کی کنٹرولنگ اتھارٹی گورنر سندھ ڈاکٹرعشرت العباد خان نے بورڈ میں بدعنوانی کی تحقیقات کے لیے تحقیقاتی افسرکوتبدیل کرتے ہوئے چیئرمین انٹربورڈ کراچی پروفیسر انوار احمد زئی کو معاملے پر تحقیقاتی افسر مقرر کیا تھا جس کا پیر کو نوٹیفکیشن جاری کیا گیا، اس نوٹیفکیشن کے تحت انھیں تحقیقات کے بعد 10 روزمیں اپنی رپورٹ گورنرسندھ کوپیش کرنا تھی۔

پروفیسرانواراحمد زئی جب منگل کی دوپہر سندھ ٹیکنیکل بورڈ پہنچے اور رامتحانی ریکارڈ کی جانچ کے لیے بورڈ کے ریکارڈ روم جانے کا ارادہ ظاہر کیا تو انھیں بتایا گیا کہ ریکارڈ روم میں تالے لگے ہوئے ہیں اور چابیاں بورڈ انتظامیہ کے پاس نہیں، حیرت انگیز طور پر بورڈ انتظامیہ کویہ بھی معلوم نہیں تھاکہ یہ چابیاں کس کے پاس ہیں اوراس سلسلے میں انتظامیہ کی جانب سے متعدد بیانات سامنے آئے۔

انتظامیہ کی جانب سے امکان ظاہر کیا گیا کہ شاید ریکارڈ روم کی چابیاں متعلقہ افسران قاضی عارف یا وحید شیخ میں سے کوئی اپنے ساتھ لے گئے ہیں جس کے بعد تحقیقاتی افسرپروفیسر انواراحمد زئی امتحانی ریکارڈ کی جانچ پڑتال کے بغیرواپس چلے گئے،بورڈ ذرائع کے مطابق تحقیقاتی افسر پروفیسر انوار احمد زئی نے ٹیکنیکل بورڈ انتظامیہ کو باور کرایا ہے کہ تحقیقات کے تسلسل کے لیے ہرصورت بدھ کی صبح تک ریکارڈ روم کھلوایا جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔