بھٹو کی وراثت

مقتدا منصور  جمعرات 30 اکتوبر 2014
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

سیاست اقتدار کے حصول کی سیڑھی ہوتی ہے ۔ شہنشاہیت میں ، جو کہ جاگیرداری کی وسیع تر شکل ہوا کرتی ہے، شخصی وراثت کی انتہائی اہمیت ہوتی ہے ۔ بادشاہ اپنے تخت وتاج کو اپنے خاندان میں رکھنے کے لیے ہر قسم کا جتن کیا کرتے تھے اور آج بھی کرتے ہیں ۔

قدیم ہندوستان کے فلسفی چانکیہ نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اگر کسی بادشاہ کے اولاد نرینہ پیدا نہیں ہو رہی ہو تو وہ تخت کے وارث کی پیدائش کے لیے تمام اخلاقی وسماجی حدودکو پس پشت ڈالتے ہوئے غلاموں اور خدمت گاروں سے بھی مدد لے سکتا ہے ۔ کیونکہ اس وقت کے ہندوستانی معاشرے میں صرف فرزنداکبر ہی اقتدارکا وراثت کا حقدار ٹھہرتا تھا ۔البتہ مسلم دور کے ہندوستان سمیت چند یورپی ممالک میں اقتدار بیٹیوں کو منتقل کرنے کی روایت بھی تھی ۔جیسے التتمش نے اپنی بیٹی رضیہ سلطان کو اپنا تخت سونپا ۔ لیکن سولہویں صدی کے بعد جب دنیا میںجمہوریت اور جمہوری طرز حکمرانی نے جڑیں پکڑنا شروع کیں تو سیاست میں خاندانی وراثت کا تصور معدوم ہونے لگا ۔اس کی جگہ سیاسی وراثت (Political Legacy) لینے لگی ، جس میں خونی تعلق کے بجائے فکری تعلق اہم قرار پایا۔ یوں جماعت کے سربراہ کا انتخاب میرٹ اور اہلیت کی بنیاد پر اجتماعی طور پر کیا جانے لگا ۔

برصغیر میں انگریز کے آنے کے بعد محدود سیاسی عمل کے آغاز کے ساتھ سیاسی جماعتوں کی تشکیل شروع ہوئی، تو ان جماعتوں میں خاندانی موروثیت کا کوئی تصور نہیں تھا۔ بلکہ مرکزی اورصوبائی قیادت کا انتخاب رہنماء کی قابلیت ،اہلیت اور عوامی قبولیت کی بنیاد پر کیا جاتا تھا۔ کانگریس میں صدارت ہر سال تبدیل ہوا کرتی تھی۔ جو سینئر رہنماؤں کے درمیان گردش کیا کرتی تھی۔ آزادی کے بعد جب پنڈت جواہر لعل نہرو پارٹی کے پارلیمانی گروپ کے سربراہ اور وزیر اعظم منتخب ہوئے اور 17 برس تک وزیر اعظم رہے ، مگر اس دوران کانگریس کی صدارت دوسرے رہنماؤں کے ہاتھوں میں رہی ۔ لال بہادر شاستری نے بھی اسی روایت کو جاری رکھا لیکن بھارت میں دو اہم تبدیلیاں جنوری 1966 میں ان کے انتقال کے بعد رونماء ہوئیں۔

اول، کانگریس کی قیادت نے سینئر رہنماؤں کو نظر انداز کرتے ہوئے مسز اندرا گاندھی کو کانگریس کا صدر اور ملک کا وزیر اعظم نامزد کیا۔ اندرا جی نے دونوں عہدے اپنے پاس رکھنے کی نئی روایت قائم کی ۔اندرا گاندھی کے قتل کے بعد راجیوگاندھی کو وزیراعظم بنایا گیا اور ان کے قتل کے بعد ان کی بیوہ سونیا گاندھی کو کانگریس کا صدر منتخب کرلیا گیا۔ اس طرح کانگریس میں خاندانی سیاست کی بنیاد پڑی اور موروثیت کی جڑیں مضبوط ہوئیں۔ حالانکہ بی جے پی میں اس قسم کی کوئی روایت نہیں ہے اور اس کی قیادت آج بھی میرٹ پر منتخب ہوتی ہے اور اسی طرح وزارت عظمیٰ کے بارے میں فیصلہ بھی جماعت اجتماعی بنیادوں پر ہوتا ہے۔

1906 میں قائم ہونے والی آل انڈیا مسلم لیگ میں پہلے صدر سرسلطان محمد شاہ آغا خان سے قائد اعظم تک اور پھر قیام پاکستان کے بعد بھی مسلم لیگ کی سربراہی کے لیے خاندانی وراثت کا کوئی تصور نہیں تھا۔ البتہ قیام پاکستان کے بعد قائد اعظم  نے گورنر جنرل کا عہدہ سنبھالنے کے باوجود مسلم لیگ کی صدارت بھی اپنے ہی پاس رکھی۔ ان کے انتقال کے بعد لیاقت علی خان پارٹی سربراہ مقرر ہوئے، جنہوں نے وزارت عظمیٰ اور مسلم لیگ کی صدارت دونوں عہدے اپنے پاس رکھے۔ یہ روایت پاکستان کی سیاست میں جڑ پکڑگئی۔ یوں پاکستانی سیاست میں پارٹی سربراہی کے ساتھ ریاستی عہدوں پر فائز رہنے کی روایت عام ہوئی ۔جب کہ مقامی سطح پر مختلف انتخابی حلقوں میں کہیں نہ کہیں خاندانی وراثت کا تصور پورے برصغیر میں ضرور موجود رہا۔

بنگلہ دیش میں وہاں کے بابائے قوم شیخ مجیب الرحمان کے اہل خانہ کے ساتھ بہیمانہ قتل کے بعد زندہ بچ جانے والی ان کی بیٹی حسینہ واجد حادثاتی طور پر ان کی سیاسی وارث قرار پائیں ۔ اسی طرح  جنرل ضیاء الرحمان جنہوں نے شیخ مجیب الرحمان کا تختہ الٹا تھا ، ان کے قتل کیے جانے کے بعد ان کی بیوہ خالدہ ضیاء ان کی سیاسی وارث کے طورپر سامنے آئیں ۔ آج بنگلہ دیش کی سیاست میں جو دو اہم سیاسی جماعتیں سیاسی طاقت کی علامت تصور کی جاتی ہیں ، وہ سیاسی وراثت کا عملی نمونہ  ہیں۔ سری لنکا میں مسٹر بندرا نائیکے کے قتل کے بعد ان کی بیوہ نے سیاسی وراثت سنبھالی اور ایک سے زائد مرتبہ وزیر اعظم منتخب ہوئیں۔ بعد میں ان کی بیٹی نے اسی سیاسی وراثت کو اپنا سیاسی قد بڑھانے کے لیے استعمال کیا ۔ لیکن سری لنکا میں  موروثی سیاست کا تصور اب معدوم ہوتا جا رہا ہے ۔

1967 میںجب پیپلز پارٹی قائم ہوئی تو بھٹو مرحوم اجتماعی فیصلے کے نتیجے میں اس  کے سربراہ مقرر ہوئے۔ 1968 میں اپنی گرفتاری کے وقت انھوں نے  احمد رضا قصوری، معراج محمد خان اور غلام مصطفیٰ کھرکو اپنا جاں نشیں قرار دیا تھا۔ فروری 1971 میں ڈھاکا میں مجوزہ قومی اسمبلی کے اجلاس شرکت کے حوالے سے احمد رضا قصوری کے ساتھ اختلافات پیدا ہونے کے بعد اس فہرست میں موخرالذکر دو نام رہ گئے۔

بھٹو  مرحوم  بھی اپنے پیش روؤں کی روایت  پر عمل کرتے ہوئے پارٹی سربراہی کے ساتھ  ریاستی اقتدار اعلیٰ پر فائز رہے۔ 1977 میں ان کی حکومت کے خاتمے کے بعد پیپلز پارٹی کو جنرل ضیاء کی چیرہ دستیوں اور انتشارسے بچانے کی خاطر سنجیدہ رہنماؤں نے بیگم بھٹو کو پارٹی کا عارضی چیئرپرسن منتخب کرلیا۔ اپریل 1979 میں بھٹو مرحوم کے عدالتی قتل  کے بعد ایک نیا بحران پیدا ہوا ، اس لیے ان کی نوعمر بیٹی بینظیرشہیدکو شریک چیئرپرسن بنا لیا گیا۔

پیپلز پارٹی کو اس وقت انھی حالات کا سامنا تھا جیسا شیخ مجیب الرحمان کے قتل کے بعد عوامی لیگ کوسامنا تھا یا سری لنکا میں مسٹر بندرا نائیکے کے قتل کے بعد سری لنکن فریڈم پارٹی کو تھا۔ پیپلز پارٹی  نے محترمہ بینظیر شہید کی قیادت میں بھٹو کی سیاسی وراثت کو خاصی حد تک برقرار اور کارکنوں کو مجتمع رکھنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ کارکنوں نے بھی مرتضیٰ مرحوم اور شاہنواز مرحوم کی موجودگی کے باوجود محترمہ کو اہمیت  دی۔ شاہنواز ضیاء دور میں جب کہ مرتضیٰ بھٹو سیاست میں سرگرم ہوئے ، مگرمحترمہ کے مقابلے میں عوامی توجہ حاصل کرنے میں ناکام  رہے۔ پھر محترمہ ہی کے دوسرے دور اقتدار میں ان کا قتل ہوجاتا  ہے ۔ یوں محترمہ شہید بلاشرکت غیرے بھٹو کی سیاسی وارث بن گئیں ۔ محترمہ شہید نے اندرا گاندھی کی طرح اپنے نام کے ساتھ  شوہر کا خاندانی نام لگانے کے بجائے اپنے والد کے نام کیLegacy بھی جاری رکھی ۔

اب سابق صدرآصف علی زرداری اور پارٹی کے بعض اندرونی حلقوں  نے بلاول کو پارٹی کا سربراہ بنا دیا ہے لیکن آج ویسی صورتحال نہیں ہے، جو 1977 میں پیدا ہوئی تھی۔ آج پارٹی کو منظم کرنے اور اسے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔جہاں تک بھٹو کی فکری وراثت کا تعلق ہے، تو پارٹی میں آج بھی پروفیسر این ڈی خان ، میاں رضا ربانی ، قمرالزماں کائرہ جیسے رہنماء خاصی بڑی تعداد میں موجود ہیں ، جن کی پارٹی کے ساتھ سیاسی اور فکری وابستگی کی طویل تاریخ ہے۔

دوسرے جہاں تک بھٹو کی خاندانی Legacy کا تعلق ہے، تو فاطمہ اور شاہنواز جونیر ان کے اصل وارث ہیں ۔فاطمہ بھٹو کی تحاریر ، نظمیں جن لوگوں نے پڑھی ہیں وہ جانتے ہیں کہ بھٹو کی پوتی کے سیاسی وسماجی ویژن میں مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کی دانشوری کی واضح جھلک نظر آتی ہے ۔ دوسرے اس میں عالمی سیاست کا حقیقت پسندانہ(Rational) جائزہ لینے کے علاوہ تبدیل ہوتے سیاسی منظر نامے کی حساسیت اور نزاکتوںکو سمجھنے اور ان کے مطابق پالیسی سازی کی اہلیت بدرجہ اتم ملتی ہے ۔ لہٰذا پارٹی کے سینئر اور کمیٹیڈ رہنماؤں کو پارٹی سربراہی دینے میں اگر کوئی ہچکچاہٹ ہے، تو فاطمہ بھٹو کو یہ ذمے داری سونپی جاسکتی ہے ۔

محترمہ کے بچے جو اس خطے کی روایت کے مطابق آصف زرداری کی اولاد ہونے کے ناتے زرداری خاندان کا حصہ ہیں ۔ مگر بی بی کی شہادت کے بعد آصف زرداری نے اپنے بچوں کے نام کے ساتھ زرداری کے ساتھ بھٹوکا بھی اضافہ کردیا ، جو کہ ایک غیر منطقی عمل ہے ۔ مگر سیاسی طاقت کے کھیل میں ہر حربہ جائزہ ہوجاتا ہے ۔

ہماری سیاست کا یہ المیہ رہا ہے کہ ان لوگوں کو آگے لایا جاتا ہے ، جو مسائل کا ادراک کرنے اور انھیں جدید تقاضوں  کے مطابق حل کرنے کے بجائے نعرے بازی(Rhetoric) کی سیاست  کو پروان چڑھانے کا باعث ہیں ۔ جب کہ فاطمہ بھٹو جیسی ان شخصیات کو پس پشت دھکیلنے کی کوشش کی جاتی ہے ،  جو مسائل کی نزاکتوں کو سمجھتی ہیں اور انھیں صائب انداز میں حل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں ۔

اگر پیپلز پارٹی کے سنجیدہ متین اور مخلص رہنماء اور کارکن پارٹی کی فکری اور نظریاتی بنیادوں کومحفوظ بنانے کی جرأت کا مظاہرہ کریں اور موجودہ قیادت کو سبکدوش ہونے پر مجبورکرتے ہوئے بھٹو کی اصل وارث فاطمہ بھٹو کو آگے لانے کی کوشش کریں تو کوئی سبب نہیں کہ پیپلز پارٹی اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرتے ہوئے جدید تقاضوں کے مطابق ایک لبرل،روشن خیال اورعوام دوست جماعت کے طور پر سامنے نہ آسکے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔