- پشاور؛ بس سے 2 ہزار کلو سے زیادہ مضر صحت گوشت و دیگر اشیا برآمد
- وزیراعلیٰ پنجاب نے نوازشریف کسان کارڈ کی منظوری دے دی
- چائلڈ میرج اور تعلیم کا حق
- بلوچستان؛ ایف آئی اے کا کریک ڈاؤن، بڑی تعداد میں جعلی ادویات برآمد
- قومی ٹیم کی کپتانی! حتمی فیصلہ آج متوقع
- پی ایس 80 دادو کے ضمنی انتخاب میں پی پی امیدوار بلامقابلہ کامیاب
- کپتان کی تبدیلی کیلئے چیئرمین پی سی بی کی زیر صدارت اہم اجلاس
- پاکستان کو کم از کم 3 سال کا نیا آئی ایم ایف پروگرام درکار ہے، وزیر خزانہ
- پاک آئرلینڈ ٹی20 سیریز؛ شیڈول کا اعلان ہوگیا
- برج خلیفہ کے رہائشیوں کیلیے سحر و افطار کے 3 مختلف اوقات
- روس کا جنگی طیارہ سمندر میں گر کر تباہ
- ہفتے میں دو بار ورزش بے خوابی کے خطرات کم کرسکتی ہے، تحقیق
- آسٹریلیا کے انوکھے دوستوں کی جوڑی ٹوٹ گئی
- ملکی وے کہکشاں کے درمیان موجود بلیک ہول کی نئی تصویر جاری
- کپتان کی تبدیلی کے آثار مزید نمایاں ہونے لگے
- قیادت میں ممکنہ تبدیلی؛ بورڈ نے شاہین کو تاحال اعتماد میں نہیں لیا
- ایچ بی ایف سی کا چیلنجنگ معاشی ماحول میں ریکارڈ مالیاتی نتائج کا حصول
- اسپیشل عید ٹرینوں کے کرایوں میں کمی پر غور کر رہے ہیں، سی ای او ریلوے
- سول ایوی ایشن اتھارٹی سے 13ارب ٹیکس واجبات کی ریکوری
- سندھ میں 15 جیلوں کی مرمت کیلیے ایک ارب 30 کروڑ روپے کی منظوری
امیر جماعت اسلامی بنگلہ دیش مطیع الرحمن نظامی کو سزائے موت کا حکم
بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے سربراہ مطیع الرحمن نظامی پر 1971ء میں جنگی جرائم کا مرتکب ہونے کا الزام عاید کر تے ہوئے بنگلہ دیش کے خصوصی ٹریبونل نے سزائے موت سنا دی گئی ہے۔
یہاں یہ بات بطور خاص قابل ذکر ہے 1971ء میں بنگلہ دیش کی علیحدگی سے قبل وہ خطہ پاکستان کا حصہ تھا اور مشرقی پاکستان کہلاتا تھا۔ اس موقع پر جو بنگالی پاکستان کو متحد رکھنے کے حامی تھے ان کو کسی اصول کے تحت مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا لیکن چونکہ بازی پلٹ گئی تھی لہذا اس زمانے کے وطن پرستوں کو غدار قرار دیدیا گیا۔ اب پینتالیس سال بعد ان پر جنگی جرائم کے مقدمات چلا کرانھیں سزائیں سنائی جا رہی ہیں۔جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے اکہتر سالہ سربراہ مطیع الرحمن نظامی پر نسل کشی، قتل و غارت، تشدد اور ریپ کے الزامات عاید کرتے ہوئے سولہ مقدمات قائم کیے گئے تھے۔
بدھ کو جب ڈھاکا میں جنگی جرائم کی 3 ججوں پر مشتمل خصوصی عدالت نے اس مقدمے کا فیصلہ سنایا تو عدالت کھچا کھچ بھری ہوئی تھی۔ 1971ء میں مطیع الرحمن نظامی جماعت اسلامی کی ایک ذیلی تنظیم سے منسلک تھے۔ وہ رکن اسمبلی اور وزیر بھی رہ چکے ہیں۔ ان پرالزام لگایا گیا ہے کہ انھوں نے ’البدر‘ نامی ملیشیا کے کمانڈرکے حیثیت میں آزدی پسند بنگالی کارکنوں کی ہلاکت میں مدد کی تھی۔ اس سے قبل انھیں اسلحہ کی اسمگلنگ کے جرم میں بھی سزائے موت سنائی جا چکی تھی۔ مطیع الرحمن نظامی کے وکلا کا کہنا ہے کہ وہ اس فیصلے کے خلاف اپیل کریں گے۔
جنگی جرائم کے ٹریبونل کے فیصلے کے بعد بنگلہ دیش کے مختلف شہروں میں پرتشدد ہنگامے پھوٹ پڑے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پچھلے سال اسی نوعیت کے الزامات کے تحت جماعت اسلامی کے نامور لیڈر مولانا غلام اعظم کو نوے سال قید کی سزا دی گئی تھی جب کہ خود ان کی اپنی عمر بھی اس وقت نوے سال تھی مگر عدالت کے ججوں نے ان کی بزرگی کا بھی کوئی احساس نہ کیا۔
لیکن بنگلہ دیش کا یہ معمر ترین قیدی گزشتہ دنوں اکیانوے سال کی عمر میں جیل کے اسپتال میں داعی اجل کو لبیک کہہ گیا۔ پاکستان میں جماعت اسلامی اور جماعۃ الدعوۃ نے بنگلہ دیش کے امیر جماعت کو سزائے موت کا فیصلہ سنائے جانے کی سخت مذمت کی ہے۔ حکومت پاکستان کو بھی چاہیے کہ وہ مطیع الرحمن نظامی کو پھانسی کی سزا کے خلاف بنگلہ دیش حکومت سے باقاعدہ احتجاج کریں اور اس مسئلہ کو عالمی فورم پر اٹھائیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔