- امریکی اکیڈمی آف نیورولوجی نے پاکستانی پروفیسر کو ایڈووکیٹ آف دی ایئر ایوارڈ سے نواز دیا
- کوہلو میں خراب سیکیورٹی کے باعث ری پولنگ نہیں ہوسکی
- 9 ماہ کے دوران 9.8 ارب ڈالر کا قرض ملا، وزارت اقتصادی امور ڈویژن
- نارووال: بارات میں موبائل فونز سمیت قیمتی تحائف کی بارش
- کراچی کے مختلف علاقوں میں زلزلے کے جھٹکے
- کوئٹہ: برلن بڈی بیئر چوری کے خدشے کے پیش نظر متبادل جگہ منتقل
- گجرات میں اسپتال کی چھت گرنے سے خاتون سمیت تین افراد جاں بحق
- سعودی فرمانروا طبی معائنے کیلیے اسپتال میں داخل
- امریکی سیکریٹری اسٹیٹ سرکاری دورے پر چین پہنچ گئے
- ہم یہاں اچھی کرکٹ کھیلنے آئے ہیں، جیت سے اعتماد ملا، مائیکل بریسویل
- پچھلے میچ کی غلطیوں سے سیکھ کر سیریز جیتنے کی کوشش کرینگے، بابراعظم
- امریکا میں ٹک ٹاک پر پابندی کا بل سینیٹ سے بھی منظور
- محمد رضوان اور عرفان خان کو نیوزی لینڈ کے خلاف آخری دو میچز میں آرام دینے کا فیصلہ
- کے ایم سی کا ٹریفک مسائل کو حل کرنے کیلئے انسداد تجاوزات مہم کا فیصلہ
- موٹروے پولیس اہلکار کو روندنے والی خاتون گرفتار
- ہندو جیم خانہ کیس؛ آپ کو قبضہ کرنے نہیں دیں گے، چیف جسٹس کا رمیش کمار سے مکالمہ
- بشری بی بی کو کچھ ہوا تو حکومت اور فیصلہ سازوں کو معاف نہیں کریں گے، حلیم عادل شیخ
- متحدہ وفد کی احسن اقبال سے ملاقات، کراچی کے ترقیاتی منصوبوں پر تبادلہ خیال
- کراچی میں سیشن جج کے بیٹے قتل کی تحقیقات مکمل،متقول کا دوست قصوروار قرار
- غزہ کے اسپتالوں میں اجتماعی قبروں نے اقوام متحدہ کو بھی خوفزدہ کردیا
امیر جماعت اسلامی بنگلہ دیش مطیع الرحمن نظامی کو سزائے موت کا حکم
بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے سربراہ مطیع الرحمن نظامی پر 1971ء میں جنگی جرائم کا مرتکب ہونے کا الزام عاید کر تے ہوئے بنگلہ دیش کے خصوصی ٹریبونل نے سزائے موت سنا دی گئی ہے۔
یہاں یہ بات بطور خاص قابل ذکر ہے 1971ء میں بنگلہ دیش کی علیحدگی سے قبل وہ خطہ پاکستان کا حصہ تھا اور مشرقی پاکستان کہلاتا تھا۔ اس موقع پر جو بنگالی پاکستان کو متحد رکھنے کے حامی تھے ان کو کسی اصول کے تحت مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا لیکن چونکہ بازی پلٹ گئی تھی لہذا اس زمانے کے وطن پرستوں کو غدار قرار دیدیا گیا۔ اب پینتالیس سال بعد ان پر جنگی جرائم کے مقدمات چلا کرانھیں سزائیں سنائی جا رہی ہیں۔جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے اکہتر سالہ سربراہ مطیع الرحمن نظامی پر نسل کشی، قتل و غارت، تشدد اور ریپ کے الزامات عاید کرتے ہوئے سولہ مقدمات قائم کیے گئے تھے۔
بدھ کو جب ڈھاکا میں جنگی جرائم کی 3 ججوں پر مشتمل خصوصی عدالت نے اس مقدمے کا فیصلہ سنایا تو عدالت کھچا کھچ بھری ہوئی تھی۔ 1971ء میں مطیع الرحمن نظامی جماعت اسلامی کی ایک ذیلی تنظیم سے منسلک تھے۔ وہ رکن اسمبلی اور وزیر بھی رہ چکے ہیں۔ ان پرالزام لگایا گیا ہے کہ انھوں نے ’البدر‘ نامی ملیشیا کے کمانڈرکے حیثیت میں آزدی پسند بنگالی کارکنوں کی ہلاکت میں مدد کی تھی۔ اس سے قبل انھیں اسلحہ کی اسمگلنگ کے جرم میں بھی سزائے موت سنائی جا چکی تھی۔ مطیع الرحمن نظامی کے وکلا کا کہنا ہے کہ وہ اس فیصلے کے خلاف اپیل کریں گے۔
جنگی جرائم کے ٹریبونل کے فیصلے کے بعد بنگلہ دیش کے مختلف شہروں میں پرتشدد ہنگامے پھوٹ پڑے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پچھلے سال اسی نوعیت کے الزامات کے تحت جماعت اسلامی کے نامور لیڈر مولانا غلام اعظم کو نوے سال قید کی سزا دی گئی تھی جب کہ خود ان کی اپنی عمر بھی اس وقت نوے سال تھی مگر عدالت کے ججوں نے ان کی بزرگی کا بھی کوئی احساس نہ کیا۔
لیکن بنگلہ دیش کا یہ معمر ترین قیدی گزشتہ دنوں اکیانوے سال کی عمر میں جیل کے اسپتال میں داعی اجل کو لبیک کہہ گیا۔ پاکستان میں جماعت اسلامی اور جماعۃ الدعوۃ نے بنگلہ دیش کے امیر جماعت کو سزائے موت کا فیصلہ سنائے جانے کی سخت مذمت کی ہے۔ حکومت پاکستان کو بھی چاہیے کہ وہ مطیع الرحمن نظامی کو پھانسی کی سزا کے خلاف بنگلہ دیش حکومت سے باقاعدہ احتجاج کریں اور اس مسئلہ کو عالمی فورم پر اٹھائیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔