حتمی پنجہ آزمائی کو اب ٹالا نہیں جا سکتا

نصرت جاوید  جمعرات 30 اکتوبر 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

جمہوری سیاست میں احتجاج بھی ہوتا ہے اور کھیل تماشے بھی مگر اس کھیل میں حصہ لینے والوں کے اہداف قطعی طور پر واضح نظر آنا ضروری ہیں۔ مئی 2013ء کے انتخابی نتائج آ جانے کے فوری بعد تحریک انصاف اگر ان سے مطمئن نہ تھی تو اس کے اراکین کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں اپنے عہدوں کے حلف ہرگز نہیں لینا چاہئیں تھے۔ خیبرپختونخوا میں چند دوسری جماعتوں کے ساتھ مل کر ایک مخلوط حکومت بنانے کی بھی ضرورت نہ تھی۔

یہ بنیادی اقدامات نہ کرنے کے کئی ہفتے بعد عمران خان جب صحت یاب ہو کر قومی اسمبلی آئے تو چار حلقوں کے Forensic Analysis کا مطالبہ کر دیا۔ یہ مطالبہ کرتے ہوئے وہ بارہا یہ بھی دہراتے رہے کہ مئی 2013ء کے انتخابی عمل کی شفافیت کے بارے میں سوالات اٹھاتے ہوئے وہ نواز حکومت کو جعلی مینڈیٹ کی پیداوار نہیں ثابت کرنا چاہتے۔ ان کا اصل مقصد دراصل ان تمام عوامل کی سائنسی نشان دہی کروانا ہے جن کے تدارک کے طریقے ڈھونڈ کر آیندہ انتخابات کی شفافیت کو یقینی بنایا جا سکے۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ پر سرسری نظر رکھنے والا کوئی عام شخص بھی یہ بات فوراََ سمجھ سکتا تھا کہ چار حلقوں کے انتخابی نتائج کے پوسٹ مارٹم کے مطالبے کے ذریعے قبل از وقت انتخابات کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔ چوہدری نثار علی خان مگر یہ بات سمجھ ہی نہ پائے۔ حالانکہ وہ 1985ء سے آج تک جو بھی قومی اسمبلی وجود میں آئی یہ اس کے رکن منتخب ہوتے رہے ہیں۔

ان کا تعلق نواز شریف کے ان مشیروں سے بھی ہے جو اقتدار کے کھیل کی تمام باریکیوں کا بھرپور طریقے سے ادراک رکھنے والے مانے جاتے ہیں۔ اس ضمن میں اپنی تمام ترذہانت و فطانت کے باوجود چوہدری صاحب نے عمران خان کے جواب میں ایک طولانی تقریر فرما دی۔ اس پوری تقریر کا سب سے اہم نکتہ یہ تھا کہ ان کی اپنی جماعت بھی مئی 2013ء کے انتخابی عمل کے بارے میں کوئی خاص مطمئن نہ تھی۔ یہ اعتراف کر لینے کے بعد ان کے پاس عمران خان کے چار حلقوں والے مطالبے کو مان لینے کے سوا کوئی راستہ ہی باقی نہیں رہا تھا۔

ہو سکتا ہے چوہدری صاحب خود بھی اس کمزور پہلو کو جبلی طور پر سمجھتے ہوں۔ مگر ان دنوں ان کی سب سے بڑی ترجیح طالبان کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے پاکستان میں دیرپا امن کا قیام تھا۔ دیرپا امن کی نیک خواہش کے پیچھے ریاستی اقتدار و اختیار کے تناظر میں حقیقت یہ بھی تھی کہ فضا پاکستان میں امریکا کی طرز کا ایک ایسا ادارہ بنانے کی بن رہی تھی جہاں 26 کے قریب وہ تمام ادارے جو سیاسی اور عسکری حکام کے لیے خفیہ اطلاعات جمع کرتے ہیں کسی نہ کسی صورت یک جا ہو جائیں۔

ایسا ادارہ قائم ہو جاتا تو بطور وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان پاکستان کی سیاسی تاریخ کے سب سے پہلے ’’سیکیورٹی زار‘‘ بن جاتے۔ انھیں اسی طرح کی ’’حساس‘‘ معلومات اور اختیارات مل جاتے جو کسی زمانے میں سکندر مرزا اور مشتاق احمد گورمانی جیسے لوگوں کو میسر رہے تھے اور جن کی بنیاد پر وہ عام سیاست دانوں کے مقدر کو بگاڑتے یا سنوارتے رہے۔

چوہدری نثار علی خان بنیادی طور پر ایک تنہاء آدمی ہیں۔ ایچی سن کالج کی وجہ سے عمران خان کا شمار اِن کے قریب ترین اور بے تکلف دوستوں میں ہوتا ہے۔ عمران خان چونکہ خود بھی طالبان کے ساتھ مذاکرات کے شدید حامی رہے تھے اس لیے غالباََ چوہدری صاحب نے سوچا ہو گا کہ عمران خان کو چار حلقوں کے بارے میں طفل تسلیاں دے کر وہ ان کی بھرپور معاونت سے اپنے سیکیورٹی زار والے ہدف تک پہنچ سکتے ہیں۔ شمالی وزیرستان میں آپریشن ضربِ عضب نے سارا کھیل مگر بگاڑ دیا اور عمران خان بھی چار حلقے بھول کر نئے انتخابات کے مطالبے کی طرف چل پڑے۔

’’گو نواز گو‘‘ اب ان کا یک نکاتی ہدف ہے۔ اس GO کو یقینی بنانے کے لیے انھوں نے تحریک انصاف کے اراکین کو قومی اسمبلی سے اجتماعی استعفے دینے پر قائل کیا اور بعد ازاں پارلیمان ہاؤس کے سامنے دھرے کنٹینر میں آ کر بیٹھ گئے۔ یہ بات درست ہے کہ 70 سے زیادہ دن اس کنٹینر میں گزارنے کے بعد بھی وہ ابھی تک نواز شریف کا استعفیٰ نہیں لے پائے۔ ایک حوالے سے ان کے اپنے تئیں کزن بنے علامہ طاہر القادری نے بلکہ اپنا انقلابی کیمپ اٹھا کر نواز شریف کی مشکلات کو کافی آسان بھی کر دیا ہے۔ اس سب کے باوجود ٹھوس حقیقت یہ ہے کہ نواز حکومت میں تحریک انصاف کے اراکین کے قومی اسمبلی سے استعفے منظور کرنے کی ہمت پیدا نہیں ہو رہی۔

نواز حکومت کی یہ کم ہمتی اسے ’’گو نواز گو‘‘ کی طرف فوراََ تو نہیں دھکیل رہی مگر اس کے مفلوج ہوئے تاثر کو دن بدن مضبوط کر رہی ہے۔ اس حوالے سے عمران خان کو اپنا بیانیہ پھیلانے میں دن بدن زیادہ آسانی ہو رہی ہے۔ یہ بات درست ہے کہ ہمارے لوگوں کی کثیر تعداد بے ثباتی کی اس فضاء سے ہر گز خوش نہیں جو 14 اگست کے دھرنوں کے بعد سے اس ملک پر مسلط نظر آ رہی ہے۔

مگر عمران خان کی اپنی Core Constituency بھی ہے۔ حامیوں اور مداحین کی تعداد کا تعین کرنے والی فضول بحث میں الجھنے کے بجائے اعتراف ہمیں یہ کرنا ہو گا کہ عمران خان کی Base اس وقت ہمارے ملک میں موجود سیاسی جماعتوں کے حامیوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ جارح اور توانائی سے بھرپور نظر آ رہی ہے۔ ایک غیر جانبدار شخص بھی اب یہ محسوس کرنا شروع ہو گیا ہے کہ عمران خان تو اپنی تمام کشتیاں جلا کر نواز حکومت سے تخت یا تختہ والی جنگ لڑ رہے ہیں مگر نواز شریف ان سے فیصلہ کن معرکے کے لیے نبرد آزما ہونے کو تیار نہیں ہو رہے۔

ملکی اور عالمی سیاست کا ایک عام طالب علم ہوتے ہوئے میرا اصرار ہے کہ حکومتیں خود کو درپیش چیلنجز کو سہمے ہوئے بلے بازوں کی طرح نظر انداز کرتے ہوئے اپنے بارے میں استحکام کا تاثر پیدا نہیں کر سکتیں۔ میری اس بات کو سمجھنے کے لیے زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں۔

افتخار چوہدری کو 2010ء میں بحال کر دینے کے بعد ’’ایک زرداری سب پر بھاری نے‘‘ اقتدار میں اپنے آئینی پانچ سال تو پورے کر لیے مگر اس تمام عرصے میں وہ بنیادی فیصلے ہرگز نہ کر پائے جو عام پاکستانیوں کی اکثریت کے دلوں میں جمہوری نظام اور منتخب حکومتوں کے لیے گہری اور دیرپا Good Will پیدا کر دیتے۔ نواز حکومت بھی آصف علی زرداری کی طرح اپنی آئینی مدت پوری کر سکتی ہے۔ مگر اس کے بعد طویل المدت بنیادوں پر ان کی ذات اور جماعت کے ہاتھ کیا آئے گا۔ اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ حتمی پنجہ آزمائی کو اب اس ملک میں نت نئی آئینی اور قانونی موشگافیوں یا بچگانہ سیاسی چالاکیوں سے زیادہ دیر تک نہیں ٹالا جا سکتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔