بھٹو مودودی ملاقات اور حسین مودودی کی وضاحت (2)

عبدالقادر حسن  ہفتہ 1 نومبر 2014
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

ٹھیک 9 بجے بھٹو مرحوم تین گاڑیوں کے ہمراہ ہمارے گھر میں داخل ہوئے ۔ پہلی گاڑی میں بھٹو مرحوم خود اور اُن کے ملٹری سیکریٹری، دوسری میں سرجن نصیر اے شیخ اور دوسرے ڈاکٹر حضرات، تیسری میں مرحوم کا طبی سامان و دیگر آلاتِ سرجری اور ٹیکنیشنز تھے۔ میں نے آگے بڑھ کر مرحوم سے اپنا تعارف کراتے ہوئے اُن کا استقبال کیا۔ انھوں نے مسکراتے ہوئے میرا حال دریافت کیا، میرے بعد راؤرشید نے پیر اشرف کا تعارف کروایا۔

اُن کی حالت دیکھتے ہوئے بھٹو مرحوم نے آئی جی سے دریافت کیا کہ کیا اب تک ہنگامے چل رہے ہیں؟ پیر اشرف کی مزاج پرسی کے بعد میں نے چھوٹے بھائی خالد فاروق مودودی کا تعارف کرایا اور پھر اُن کو ملاقاتیوں کے کمرے میں لے گیا اور ان کے لیے مختص کی گئی کرسی پر بٹھاتے ہوئے میں والد مرحوم کو لانے کے لیے اُن کے دفتر میں گیا جو ملحقہ کمرے میں تھا۔ میرے والد مرحوم میرے ہمراہ اپنے واکر کی مدد سے چلتے ہوئے ملاقاتیوں کے کمرے میں داخل ہوئے۔

بھٹو مرحوم فوراً کھڑے ہوئے اور آگے بڑھ کر سلام کیا اور ہاتھ ملاتے ہوئے والد مرحوم کو سہارا دینے کی کوشش کی لیکن والد مرحوم نے شکریہ ادا کیا اور چند قدم چل کر بھٹو مرحوم کے دائیں ہاتھ والی کرسی پر بیٹھ گئے۔ اُس ملاقات سے قبل میں نے بھٹو مرحوم کی کرسی میں ایک مائیکرو فون نصب کر دیا تھا تا کہ دونوں حضرات کی گفتگو ریکارڈ کر سکوں لیکن غالباً اُس تمام Area کو Bug کر دیا گیا تھا اس طرح ریکارڈنگ نہ ہو سکی۔ ملاقات کے دوران ہمارے ملازم حنیف نے والد مرحوم اور بھٹو مرحوم کو 7 UP گلاسوں میں پیش کی۔ بھٹو مرحوم نے معذرت کر لی اور والد مرحوم نے گلاس لے کر میز پر رکھ دیا۔ ملاقات تقریباً ایک گھنٹہ جاری رہی اور ٹھیک 10 بجے رات بھٹو مرحوم اور باقی حضرات واپس روانہ ہو گئے۔

بھٹو مرحوم کے ہماری گلی اور 5 اے ذیلدار پارک تک آنے اور جانے میں نہ تو کوئی رکاوٹ ہوئی نہ نعرہ بازی ہوئی، نہ کوئی پتھر پھینکا گیا، نہ کسی نے مرحوم سے کوئی بدتمیزی کی۔ گلی سے پہلے فیروز پور روڈ پر پولیس نے بھی انتظام سنبھالا ہوا تھا۔ بھٹو مرحوم کے ہمارے گھر پہنچنے اور مولانا سے ملنے کی خبر لاہور تو کیا پورے پاکستان میں آگ کی طرح پھیل گئی۔ ہمارے گھر کے دونوں فون مسلسل بجنے لگے تھے۔ ہر کوئی اس خبر کی تصدیق چاہتا تھا۔ اُس وقت ہم میں سے کوئی بھی گھر میں نہ تھا بلکہ سب باہر موجود تھے۔ میری اہلیہ اور ماموں کے فون اٹھانے سے میری والدہ کو یہ خبر ہوئی کہ باہر بھٹو مرحوم اُن کے شوہر سے ملاقات کر رہے ہیں جب کہ اس سے قبل وہ بھی بے خبر تھیں۔

گورنمنٹ ہاؤس واپس پہنچتے ہی بھٹو مرحوم نے افضل سعید خان کو طعنہ دیا کہ تم تو میری ملاقات مودودی سے نہ کرا سکے لیکن میں مل آیا ہوں۔ افضل سعید مرحوم جو بھٹو مرحوم کے سچے وفادار تھے اور بھٹو مرحوم بھی افضل سعید پر اندھا اعتماد رکھتے تھے۔ مارشل لاء کے دوران مرحوم پر بڑا سخت وقت گزرا۔  بھٹو مرحوم کے رخصت ہوتے ہی میاں طفیل مرحوم اور دوسرے جماعتی قائدین ہمارے گھر آ پہنچے۔ چنانچہ والد مرحوم نے اُن حضرات کو ملاقات کی تمام تفصیل سے آگاہ کیا۔

بھٹو مرحوم ہمارے والد سے 9 پوائنٹس پر بات کرنا چاہتے تھے جو کہ والد مرحوم نے بھٹو صاحب کی خواہش پر مجید نظامی کی وساطت سے اُن کو بجھوائے تھے۔ جن میں بھٹو مرحوم کے استعفیٰ کے بجائے باقی وہ سب کچھ تھا جس سے اُس وقت کے مسائل سے نکلا جا سکتا تھا۔ والد مرحوم نے بھٹو سے کہا کہ وہ وقت اب گزر چکا ہے اب بہتری اسی میں ہے کہ بھٹو مرحوم مستعفی ہو جائیں اور جلد از جلد منصفانہ و غیر جانبدار الیکشن کروا دیں۔ یقینا آپ پھر جیت جائینگے۔ اس پر بھٹو مرحوم نے اعتراف کیا کہ اُن کی پارٹی کے نادان دوستوں کی غلط حرکات کی وجہ سے اُن کو یہ دن دیکھنا پڑا ہے۔

ہمارے والد مرحوم نے بھٹو صاحب پر واضح کیا کہ ان حالات میں سوائے ان کے استعفیٰ کے کوئی اور حل نہیں رہ گیا۔ دوسری صورت میں خطرہ یہ ہے کہ کہیں فوج اقتدار نہ سنبھال لے جو کہ پاکستان کے لیے بہت بڑی بدقسمتی ہو گی۔ اس پر بھٹو مرحوم نے کہا کہ انھوں نے آئین کے ذریعہ فوج کے اقتدار میں آنے کا راستہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیا ہے۔ والد مرحوم نے اُن سے کہا کہ آپ فوج کو انڈر ایسٹیمیٹ کر رہے ہیں۔ بھٹو مرحوم نے ایک سادہ کاغذ اور اپنا قلم والد مر حوم کے سامنے میز پر رکھتے ہوئے کہا کہ میں صرف آپ کو لیڈر سمجھتا ہوں باقی تمام لیڈر بکاؤ مال ہیں۔ ان کی میرے دل میں کوئی عزت نہیں ہے۔ آپ اس کاغذ پر جو بھی لکھیں گے میں اس پر دستخط کر دوں گا لیکن ہمارے والد کے استعفیٰ کے اصرار پر بھٹو مرحوم نے سوچنے کا وقت مانگا اور میٹنگ ختم ہو گئی۔

میرے والد مرحوم، بھٹو مرحوم کی صلاحیتوں کے بہت معترف تھے اور کہا کرتے تھے کہ قادیانیوں کو صرف بھٹو مرحوم ہی اقلیت قرار دلوا سکتے تھے اور کوئی اور لیڈر اس کی جرأت نہ کر سکتا تھا۔ دوسری طرف بھٹو مرحوم بھی ہمارے والد کی بہت عزت کرتے تھے۔

(ختم شُد)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔