تحریک انصاف کے استعفے اور ن لیگ کی حکمت عملی

نصرت جاوید  ہفتہ 1 نومبر 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود میں ابھی تک سمجھ نہیں پایا کہ نواز حکومت کے نورتن قومی اسمبلی سے تحریک انصاف کے اراکین کے استعفے منظور ہونے میں روڑے کیوں اٹکا رہے ہیں۔ چند باخبر صحافیوں کا دعویٰ ہے کہ شہباز شریف اور چوہدری نثار کی جوڑی بڑی سنجیدگی سے اس خوف میں مبتلا ہے کہ قومی اسمبلی سے باہر آ جانے کے بعد عمران خان اور ان کی جماعت اسلام آباد کے بجائے لاہور، فیصل آباد اور ملتان جیسے شہروں میں پہیہ جام جیسی تحریک چلا دیں گے۔

سول انتظامیہ احتجاجی تحریک پر قابو پانے میں ناکام رہے گی۔ مجبوراََ فوج سے امن عامہ کی بحالی کے لیے مدد کی درخواست کرنا پڑے گی۔ وہ شاید ’’سیاسی معاملات‘‘ کو گفت و شنید سے حل کرنے پر زور دے اور معاملہ ویسے ہی ہو جائے جو اسلام آباد میں دیے دھرنوں کے ابتدائی دنوں میں نظر آ رہا تھا۔ نواز حکومت اس تاثر کے باوجود سنبھل گئی تو بنیادی وجہ وہ حمایت تھی جو پارلیمان میں موجود تمام سیاسی جماعتوں نے یکجا ہو کر اسے فراہم کی۔ احتجاج کی آگ شہر شہر پھیل گئی تو شاید ویسی حمایت دوبارہ نہ مل سکے۔

ذاتی طور پر میں تحریک انصاف میں صرف اپنی طاقت کے بل بوتے پر 1977ء جیسے حالات پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں دیکھتا۔ اسلام آباد میں ’’انقلابی رونق‘‘ طاہر القادری کے غلیل باز مریدوں نے لگائی تھی۔ اس سے کہیں زیادہ مؤثر خیمے تھے جہاں بہت ساری عورتیں اپنے شیر خوار بچوں کے ساتھ مقیم رہیں۔ انتظامیہ کو ہر وقت یہ خوف لاحق رہا کہ اگر طاہر القادری کے مریدوں کو ریاستی طاقت کے ذریعے قابو میں لانے کی کوشش کی گئی تو پاکستان کا آزاد اور مستعد میڈیا اسلام آباد میں کربلا جیسے مناظر ڈھونڈ کر حکومت کو پریشان کر دے گا۔ عمران خان کے ’’آزادی کیمپ‘‘ میں ہلچل سورج ڈوبنے کے بعد شروع ہوتی ہے۔ ڈی جے بٹ کی طفیل یہ ایسا Event بن جاتا تھا جہاں نوجوان، عورتیں اور بچے کسی Carnival جیسے ماحول سے لطف بھی اٹھاتے ہیں اور خود کو تبدیلی کے رضا کار سمجھتے ہوئے ریاستی طاقت کو بھی للکارتے ہیں۔

لال حویلی کے شیخ صاحب مگر بضد ہیں کہ تحریک انصاف پہیہ جام جیسی تحریک بھی چلا سکتی ہے۔ ابھی تک موصوف کا کوئی ایک تجزیہ بھی درست ثابت نہیں ہوا۔ انھیں خوش کرنے کو لیکن میرے تحفظات بھول کر ان کی بات سے اتفاق کر لیتے ہیں۔ تحریک انصاف پہیہ جام کر دے تو پھر کیا ہو گا۔ زیادہ سے زیادہ 5 جولائی 1977ء ۔ یہ ہو جانے کے بعد کیا گارنٹی ہے کہ آیندہ جب کبھی بھی انتخاب ہوئے تو عمران خان کی جماعت کو قومی اسمبلی میں اکثریت مل جائے گی۔

5 جولائی 1977ء کے نوے دنوں بعد انتخابات ہو جاتے تو شاید اصغر خان اور ان کی جماعت کو ایسی اکثریت مل جاتی۔ وہ نوے دن مگر کبھی نہ آئے۔ اصغر خان بالآخر کئی برس تک اپنے ایبٹ آباد والے گھر میں نظر بند رہے۔ 1977ء کی انتخابی مہم کے دوران وہ بھٹو کو کوہالہ پل پر پھانسی لگانے کے وعدے کیا کرتے تھے۔ مگر 1981ء میں بھٹو کی جماعت کے ساتھ مل کر تحریک بحالی جمہوریت (MRD) چلانے پر مجبور ہوئے۔ بالآخر جب ضیاء الحق کی حادثاتی موت کے بعد 1988ء میں انتخابات ہوئے تو سیاسی اُفق پر محترمہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف بڑی قوت کے ساتھ نمایاں ہو کر اُبھرے۔

’’گو نواز گو‘‘ عمران خان کا پہلا ہدف ہے۔ حتمی ہدف ان کا اس ملک کا وزیر اعظم منتخب ہونا ہے۔ حتمی ہدف تک پہنچنے کے امکانات اگر مدہم نظر آنا شروع ہو گئے تو ان کے کنٹینر پر رونما ہونے والے کئی حضرات دائیں بائیں ہو جائیں گے۔ عمران خان یہ بات اب اچھی طرح سمجھ چکے ہیں۔ اسی لیے تو اب ’’آیندہ عید‘‘ تک انتظار کرنے کو بھی تیارہیں۔ ان کی حکمت عملی درحقیقت Bleed The Enemy With A Thousand Cuts کے تصور پر مبنی ہے۔

نواز حکومت کے نورتن چاہے جو کہتے رہیں وہ اپنی اس حکمت عملی میں کافی کامیاب نظر آ رہے ہیں۔ حقیقت چاہے جو بھی رہی ہو عمران خان کی Core Constituency بڑی شدت سے یہ محسوس کر رہی ہے کہ تحریک انصاف کے اراکین تو دل و جان سے قومی اسمبلی کو چھوڑنے کو تیار ہیں مگر حکومت ان استعفوں کو منظور کرنے میں لیت و لعل سے کام لے رہی ہے۔

نواز حکومت کے نورتنوں کو جانے کیوں اندازہ ہی نہیں ہو رہا کہ قومی اسمبلی سے استعفے منظور ہو جانے کے بعد تحریک انصاف کی ٹکٹ پر خیبرپختونخوا سے منتخب ہونے والے افراد میں اس خیال سے شدید بے چینی پیدا ہو جائے گی کہ وہ تو اقتدار کے ایوانوں سے فارغ ہوئے مگر ان کے ’’نیچے‘‘ منتخب ہونے والے اراکینِ صوبائی اسمبلی بدستور حکمران جماعت کا رکن ہوتے ہوئے اقتدار کے مزے لے رہے ہیں۔ تحریک انصاف صرف اس بنیاد پر خیبرپختونخوا اسمبلی سے استعفیٰ نہیں دے رہی کہ مارچ میں سینیٹ کی آدھی سیٹوں کا انتخاب ہونا ہے۔ فی الوقت ایوانِ بالا میں تحریک انصاف کا ایک نمایندہ بھی موجود نہیں۔ مارچ آیا تو اس کے کافی افراد وہاں پہنچ سکتے ہیں۔ قومی اسمبلی سے فراغت کے بعد تحریک انصاف کے اراکین، جن کی اکثریت پہلی بار کسی ایوان کے لیے منتخب ہوئی تھی، مارچ تک انتظار کرنے کو ہرگز تیار نہیں ہوں گے۔ پرویز خٹک کو بھی استعفیٰ دینا ہو گا اور اپنے طور پر ہر ایسی کوشش بھی کرنا ہو گی جو خیبرپختون خوا اسمبلی کو تحلیل کروا کر نئے انتخابات کی راہ ہموار کرے۔

نواز حکومت کے چند لوگوں سے گفتگو کے بعد مجھے اندازہ ہوا کہ وہ خیبرپختون خوا میں پکنے والی ممکنہ کھچڑی کے بارے میں قطعی لاعلم اور لاتعلق ہیں۔ انھیں اصل خطرہ یہ ہے کہ قومی اسمبلی کی پنجاب سے جو نشستیں خالی ہوں گی وہاں شاہ محمود قریشی کی متعارف کردہ ٹیکنالوجی کی بدولت کئی ’’عامر ڈوگر‘‘ حکمران جماعت کے نامزد کردہ امیدواروں کو شکست دے کر دُنیا کو یہ پیغام دے سکتے ہیں کہ نواز حکومت اپنے اصل گڑھ یعنی پنجاب میں غیر مقبول ہو چکی ہے۔

یہ ’’غیر مقبولیت‘‘ اس وقت بہت ہی خوفناک صورت اختیار کر سکتی ہے اگر قومی اسمبلی کی تحریک انصاف کی وجہ سے خالی ہوئی نشست پر مسلم لیگ نون کے امیدوار کے مقابلے میں پنجاب اسمبلی میں اس وقت حکمران جماعت کے ساتھ بیٹھا کوئی ’’عامر ڈوگر‘‘ استعفیٰ دے کر شاہ محمود قریشی کی متعارف کردہ راہ اختیار کرتے ہوئے ’’آزاد‘‘ حیثیت میں حکمران جماعت کو شکست دے ڈالے۔ المختصر اندیشہ ہائے دور دراز ہیں جنہوں نے نواز حکومت کے نورتنوں کو خوفزدہ کر رکھا ہے۔ عمران خان نے انھیں ویسی ہی کیفیت میں مبتلا کر رکھا ہے جس کا تصور منیر نیازی کے زرخیز ذہن میں آیا تھا اور پھر شعر ہوا:

اک تیز رعد جیسی صدا ہر مکان میں
لوگوں کو اُن کے گھر میں ڈرا دینا چاہیے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔