بھگت کنور

جاوید قاضی  ہفتہ 1 نومبر 2014
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

ایک چھوٹی سی کہانی ہے جو آپ کو سنانی ہے، آج کے دن ہی مارا تھا اس راگی کو، راگی کیا تھا بس ایک فقیر منش تھا، بہت ہی باریک سی آواز تھی، اور بہت دور تک چلی جاتی تھی، اپنی اس آواز سے کئی لوگوں کے من چرا کے لے گیا یہ شخص، اور آج ہی کے دن 74 سال پہلے جب رک اسٹیشن پہ، جو سکھر کے قریب ہے ٹرین سے پانی پینے کے لیے اترا تھا تو قاتل اس کا تعاقب کرتے ہوئے محسوس کرتا ہے کہ یہ موزوں جگہ ہے اسے مارنے کی، تو بندوق کی دو نالی کا نشانہ بھی اس کے گلے کا لیا جس نے پورے سندھ میں اپنا سحر چھوڑا ہوا تھا۔ اور خون اس کے گلے سے پچکاریوں کی طرح بہتا رہا۔ پورا سندھ سرنگوں ہوگیا۔ مسلمان بھی اتنا روئے جتنے ہندو روئے تھے۔

عجیب مانوس شخص تھا ، یہ شخص پاؤں میں گھنگھرو پہنتا تھا، مائی بھاگی بھی اسی کی طرح ہاتھ کان پہ رکھ کے گاتی تھی۔ اس کے کنسرٹ کو ’’بھگتی‘‘کہا جاتا تھا۔ رات کو شروع ہوتی تھی اور جب پو پھوٹنے میں کچھ گھنٹے باقی ہوتے تو یہ گانے کے لیے آجاتا تھا۔ اس کی بھگتی واحد تھی جہاں سندھ میں ہندو اور مسلمان اکٹھے بیٹھا کرتے تھے وہ آتے، اپنا سر جھکاتے اور کہتے کہو مسلمانوں ’’لاالٰہ الا للہ‘‘اور پھر کہتے ’’لکھو ہندو رام رام‘‘ اور پھر گانا شروع کرتے، جہاں بھگتی کرتے تو گرد و نواح کے سارے لوگ اپنی عورتوں و بچوں سمیت پہنچ جاتے۔ گاتے بھی اور جھمری گا کے ناچتے بھی رہتے ۔

عجیب لباس تھا اس کا، سر پر پگڑی، گلے میں ہار، گھٹنوں تک رومی فقیروں سے ملتا جلتا کرتا، پتھروں والی (Gem Stones) والی کئی انگوٹھیاں انگلیوں میں اور پھر جب بھگتی ختم ہونے والی ہوتی کہ پو پھٹنے والی ہوتی تھی تو خدا کے نام پر وہ گیت گاتے کہ سب کی آنکھوں میں آنسو آجاتے۔ بھگتی ختم ہوتی تو پھر جھولی پھیلاتے، بڑے ہندو بنیے بھی وہاں آتے اور جو جس کا جی چاہے اس جھولی میں ڈالتا کچھ پر تو اتنا اثر ہوتا کہ جو جیب میں ہوتا وہ دے دیتے، عورتیں اپنے سونے کے کنگن اتار کے اس کو دے دیتیں۔ بات یہاں ختم نہیں ہوتی اس بھگتی کا سن کے بہت سے حاجت مند بھی وہاں پہنچ جاتے جس میں اکثریت مسلمانوں کی ہوتی ۔ جو اس کی جھولی میں آتا پھر وہ اپنے حساب سے ان حاجت مند بیواؤں و یتیم بچوں کی ماؤں کو دے دیتے ۔ اور جھولی خالی کر کے جب اپنے گاؤں ’’جروار‘‘ جو اوباڑو کے قریب تھا، پہنچتے تو اپنے رزق کی خاطر چنے کا تھال سر پر رکھ کر شہر کو نکل پڑتے ۔

پھر کیوں مارا اس فقیر منش کو مارنے والوں نے؟ یہ وہ زمانہ ہے جب سندھ تین سال پہلے 1936 کو بمبئی سے الگ ہو کر آزاد ریاست بن کے ابھرتا ہے۔ جب سندھ کے وزیر اعظم شہید اللہ بخش سومرو تھے۔ یہ فقیر منش بھگت کنور جس کا مرشد بھگت کبیر تھا۔ وہ بھگت کبیر جس کا مرشد مولانا جلال الدین رومی تھا، اور وہ بھٹائی جس کی شاعری میں رومی کے بعد دوسرا بڑا اثر بھگت کبیر کا تھا۔ یہ کنور اسی تسلسل کی کڑی تھا۔ اس کے بہت سارے گانے عابدہ پروین نے گائے ہیں۔

دراصل اس کی موت نے سندھ کو دولخت کردیا۔ اور ذرا یہ بھی سنیے کہ میں کیسے پاتا ہوں بھگت کنور کو، چھوٹا تھا، ابا کا انتقال ہوگیا، بہت ہی کم دیکھا ابا کو ۔ جب بوڑھے ہوئے تو علالت کی وجہ سے گھر میں رہتے اور میں بھی پٹیارو سے فارغ ہوکر لوٹا۔ بس یہ ایک سال ہے جب میں ٹھیک ٹھاک ابا کے ساتھ رہا۔ بہت سی باتیں کرتے میرے ساتھ، ساری پرانی باتیں اور جب کنور کی بات چھڑی تو رو پڑے ۔ وہ اس لیے بھی کیونکہ میرے ابا یتیم پیدا ہوئے، غریب گھر سے تھے ۔ جہاں بھگت کی بھگتی ہو پہنچ جاتے۔ یوں کہیے وہ ابا کا بھی من چرا کر لے گئے تھے۔

ابا بھی ایک طرح کے راگی تھے اور راگیوں سے بہت پیار کرتے تھے۔ میں نے ابا کی کئی تحریریں پڑھیں تو جب کنور کا ذکر آتا تھا یوں لگتا وہ لکھتے وقت روتے ضرور ہوں گے۔ مجھ سے رہا نہ گیا آج سے گیارہ سال پہلے بالآخر سارے سندھ کی سول سوسائٹی کو لے کر وہاں پہنچا۔ایک بہت پرانا سا اسٹیشن جہاں اب شاید کوئی ٹرین نہیں رکتی۔ یہ وہ جگہ ہے جو جنکشن تھا، روہڑی اسٹیشن کے بعد سب سے بڑا جنکشن۔ اس کے پلیٹ فارم پر اب بھی 16 سال پرانے درخت، وہ لکڑی سے بنی ہوئی اوور ہیڈ پٹریوں والا پل، اس بلڈنگ کی آدھی زمین میں دھنس گیا۔ ہم نے وہاں جا کے پانچ ہزار دیے جلائے، اور یوں ہر سال جانے کی روایت ڈالی، آج سے کچھ سال پہلے عاصمہ جہانگیر کو بھی لے گیا تھا۔

کنور ایک انسان تھا اور انسانوں میں سندھ کے حوالے سے 20 ویں صدی کا سب سے بڑا انسان۔ اسے سمجھ آگئی کہ مذہب یہاں پر انسان کو انسان کے لیے لڑانے کے لیے استعمال ہوگا، اس نے نفرتوں کو کم کرنے کے لیے وہی راستہ اپنایا جو سندھ کے صوفیوں کی روایت تھی۔ ایک طرف ہندو تھے جو اپنے اسکولوں میں مسلمانوں کو گھسنے نہیں دیتے تھے، دوسری طرف سندھی وڈیرے تھے جن کو ہندوؤں کا کاروبار میں ابھرنا اچھا نہیں لگتا تھا۔ جب 1936 میں الیکشن ہوئے تو اتنے بڑے سر شاہنواز بھٹو کو ایک عام سا مڈل کلاس کا آدمی شیخ عبدالمجید سندھی ہرا دیتا ہے ۔ کراچی میں سر عبداللہ ہارون ہار جاتے ہیں ۔

کانگریس کی مدد سے بالآخر ایک مڈل کلاس کا عام آدمی ٹھیکیداری کرنے والا اللہ بخش سومرو وزیر اعظم بنتا ہے ۔ یہ بات ایوب کھوڑو اور بہت سے اس وقت کے وڈیروں کے نمایندوں کو اچھی نہیں لگی کہ سندھ بمبئی سے آزاد ہو اور راج کرے مڈل کلاس، انھوں نے دنگا فساد کرایا جس میں اللہ بخش سومرو بھی مارا گیا تو پیر پگارا پھانسی چڑھ گیا، تو یہ فقیر شہید بھگت کنور بھی اسی گھناؤنے چکر میں مارا گیا۔ اس کو مسلمانوں کی خواہش پر شہید کا اعزاز شہید ملا جسے ہندوؤں نے بھی قبول کیا تاکہ سندھ دولخت نہ ہو جوکہ اس وقت کے وڈیروں کی سازش تھی ۔ وہ سندھ کیا تھا، سونا تھا وہ سندھ، شکار پور کاروبار کا گڑھ تھا، ثمرقند بخارا تک اس کا کاروبار یوں پھیلا ہوا تھا کہ خود کارل مارکس جب ہندوستان پر تنقیدی نوٹس لکھتے ہیں تو شکارپور کو بھی تجارت کا گڑھ دکھاتے ہیں ۔

ہندوؤں کے ذہن و گمان میں نہیں تھا کہ ایسا ہونے جا رہا ہے۔ ان کو زبردستی صوفیوں کی زمین سے نکالا جائے گا۔ وہ شکارپور کے ہندو جو کراچی کے برنس روڈ پر آباد ہوگئے تھے، پورا کراچی ہندوؤں نے بنایا ۔ وہ اسپتال، جامعات،فلاحی ادارے،ہاسٹلز ۔ان کی یادگاریں ہیں، یہاں زبردستی بلوا کر لایا گیا ۔ ان کی ملکیتوں پر قبضے کروائے گئے ۔ پھر آگے جو ہندوؤں کے ساتھ ہوا اس میں سندھی وڈیروں کا اتنا قصور نہیں جتنا نئے پاکستان میں ہندوستان سے آنے والوں کا قصور ہے ۔ یہاں ایسی نفرتیں کچھ نہیں تھیں ۔ یہ صوفیوں کی سرزمین تھی۔ یہاں صوفیوں نے محبتیں بوئیں تھیں۔ میرے ابا نے تین ناول لکھے۔ دو ناول اسی جدائی پر ہیں جب ہندوؤں نے یہاں سے ہجرت کی تھی۔ اپنے زمانے میں وہ بھی خاکسار تھے۔ کشمیر کو فتح کرنے 1948 کو سری نگر تک مجاہدوں کے ساتھ نکل گئے، لیکن ہندوؤں کی ہجرت کا دکھ وہ اپنے ساتھ لے گئے۔

آج جب میں سندھ کے توڑنے کی بازگشت سنتا ہوں تو نہ جانے کیوں میرا دل وہیں چلا جاتا ہے۔ اسی زماں و مکاں میں ٹھہر جاتا ہے۔

لیکن اس مرتبہ میں نے سندھ میں دیوالی بڑی دھوم دھام کے ساتھ ہوتے دیکھی، سرکاری سطح پر منائی گئی۔ اور دوسری طرف جس طرح اس سال مندروں کو گرایا گیا اس کی مثال بھی کہیں نہیں ملتی۔

بھگت کنور کا پیغام کیا تھا؟ وہ دراصل سیکولرزم کے متوالے تھے۔ وہ یہ کہتے تھے کہ تمہارا دین دھرم تم جانو، خدا جانے۔ بس اچھے انسان بن جاؤ۔ اور دوسرے انسان کو تکلیف نہ پہنچاؤ۔ اور یہ پیغام بستی بستی نگر نگر پہنچاتے رہتے تھے۔

کہنے والے کہتے ہیں کہ اسے پتا تھا کہ کوئی اس کا تعاقب کر رہا ہے اس ٹرین میں جب بھگتی کرکے مانجھند سے (سن کے قریب) وہ واپس لوٹ رہے تھے اور پھر جب وہ قاتل اس کے پاؤں پڑ کے کہتا ہے کہ ’’کنور سائیں! دعا کرو، میں اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاؤں۔‘‘ تو رک اسٹیشن کے قریب آکے اسے کہتے بھی ہیں ’’اب تمہیں میری دعا ہے کہ تم اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاؤ۔‘‘

ابا لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ پنو عاقل کے قریب تین رات کی مسلسل بھگتی لگائی، ایک لغاری دہقاں بھگتی ختم ہونے پر انھیں مکھی کی شکایت کرتا کہ اس نے اس کے دو ٹکڑے زمین پر قبضہ کیا ہے، تو جب کہا کہ مکھی کہاں ہے؟ تو پتا چلا کہ مکھی نہیں آیا۔ دو راتیں اس کا انتظار کیا، وہ نہ آیا۔ بالآخر رنجیدہ ہوکے اس کے گھر کے باہر یہ گانا گانا شروع کردیا ’’یہ دنیا مسافر خانہ ہے‘‘ مکھی کی بیوی نے کنور کو اپنے دروازے پر جو گاتے دیکھا تو یہ ماجرا شوہر سے پوچھا، تو شوہر نے بتایا کہ وہ لغاری دہقاں کے دو ٹکڑے زمین کے واپس کروانے کے لیے کھڑا ہے۔ بیوی نے کہا کہ وہ ٹکڑے فوراً واپس کرو، ورنہ وہ چھت سے چھلانگ لگا کر خودکشی کرلے گی اور اس طرح لغاری دہقاں کو پھر وہ دو ٹکڑے زمین کے واپس ملے۔

ان کے گاؤں کے قریب برسات میں مسجد شہید ہوئی تو کنور نے خود نہ صرف چندہ کیا بلکہ اس کی تعمیر میں بنا اجرت مزدوری کا کام بھی کیا۔

یہ باتیں ریکارڈ پر ہیں اور کوئی بھی عام آدمی ان حقیقتوں کی تصدیق کرسکتا ہے آج یکم نومبر 1939 کو صبح گیارہ بجے سندھ کا بھگت کنور رک اسٹیشن پر جام شہادت پی لیتا ہے۔ اس کے قاتل سے بڑھاپے میں ہمارے کچھ دوست ملے بھی تھے۔ اسے کسی وڈیرے اور پیر کے کہنے پر مارا گیا، یہ بھی سب کو پتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔