حصار کھینچئے، بند باندھیے

ثناء غوری  ہفتہ 1 نومبر 2014
sana_ghori@outlook.com

[email protected]

نفسانفسی کا ہر طرف راج ہے، انسان خواہشات کے تعاقب میں اتنا آگے بڑھ چکا ہے کہ وہ خواب جن کی تعبیر کی خواہش وہ دوسروں سے اپنی زندگی وابستہ ہونے کی وجہ سے کرتا ہے، درحقیقت وہ اس کی اپنی ذات کا الجھاوا بن جاتے ہیں۔ ورنہ جن لوگوں کے لیے ہم اپنے خواب پورے کرکے انھیں خوشیاں دینا چاہتے ہیں انھیں ہی فراموش کرنے کا کیا جواز بنتا ہے۔ سارے دن کی دوڑ دھوپ کے بعد فراغت کے لمحات یا تو دوستوں کے ساتھ گزار دیے جاتے ہیں یا سوشل نیٹ ورکس کی نذر ہوجاتے ہیں۔

ہم سوشل ویب سائٹس کے شہر طلسم میں جی رہے ہیں۔ سماجی ویب سائٹس ایک جادو ہیں اور ہم روز بروز ان کے سحر میں جکڑے چلے جا رہے ہیں اور غیر محسوس طور پر ان کی ذہنی غلامی میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ پاکستان میں اینڈرائڈ فونز آجانے کے بعد اور عام آدمی کی اس دنیا میں رسائی حاصل کرنے سے جہاں شعور کے دروازے کھلے وہیں ان دروازوں سے مسائل کی آمد کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا ہے۔

ہمارے معاشرے میں تعلیم و تربیت پر تو کم کم ہی توجہ گئی، لیکن ہاں ٹیکنالوجی ہر طرح کی فراہم کردی گئی۔ کچھ عرصے قبل اندرون سندھ سفر کے دوران ایک گاؤں میں کچھ دیر کے لیے رکنے کا اتفاق ہوا۔ ایک ڈھابے سے کھانے پینے کا سامان خرید رہی تھی کہ اچانک میری نظر وہاں بیٹھے بہت سارے لوگوں پر پڑی۔ حیرت اس بات پہ تھی کہ اتنے سارے لوگوں کی موجودگی کے باوجود مکمل خاموشی تھی اور فقط ٹیلی وژن کی آواز آرہی تھی۔

ٹیلی وژن پر کیا چل رہا ہے؟ میں اس لیے اس بات سے بے خبر تھی، کیوں کہ وہ دور کافی اوپر ایک لکڑی کے تختے پر رکھا تھا۔ وہاں موجود تقریباً بچاس کے قریب لوگ بڑے انہماک سے اوپر کی طرف نظریں کیے ٹی وی دیکھنے میں محو تھے۔ میری نظر بھی ٹی وی اسکرین کی طرف اٹھ گئی۔ پڑوسی ملک کا ایک انتہائی بے ہودہ گانا چل رہا تھا۔ گاؤں کے سیدھے سادے لوگ اس ’’تفریح‘‘ سے محظوظ ہو رہے تھے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ترقی کا راگ الاپتی ہماری حکومت نے سب کچھ تو دیا لیکن تعلیم کی فراہمی پر توجہ نہیں دی۔ ایک شخص جو تعلیم اور شعور سے کوسوں دور ہے، وہ اگر ایسی چیزوں کو دیکھے گا تو آپ کا کیا خیال ہے اس پر عقل ودانش کے دروازے کھل جائیں گے یا بے ہودہ خیالات اس کی سوچ کو اپنے سانچے میں ڈھال لیں گے؟

یہی حال ان دنوں سوشل نیٹ ورکنگ کا بھی ہے۔ انٹرنیٹ اور سستے موبائل فون پر اینڈرائڈ ٹیکنالوجی آج ہر شخص کی دسترس میں ہے، جس کے لیے ہم اپنے پڑوسی ملک اور دیرینہ دوست چین کے شکرگزار ہیں۔ یہ دوستی شاید یک طرفہ ہے، کیوںکہ ہم نے جس طرح چین کی مصنوعات کو اپنے ملک میں کھلی منڈی دی ہے، اس کی مثالیں چین کی تاریخ کے صفحات پر رقم ہوں گی۔ یہ اور بات ہے کہ ہم نے چین سے ہر طرح کی ٹیکنالوجی خریدی مگر اس سے سیکھ کر خود کچھ نہ بنا سکے۔

بندر کے ہاتھ ناریل لگ جائے تو کچھ ایسا ہی ہوتا ہے جو ہماری قوم کر رہی ہے۔ ٹیکنالوجی ہاتھ لگ چکی ہے، لیکن اس کا درست سمت میں استعمال شاید بمشکل دس فیصد لوگ کر رہے ہوں۔

بات فقط ان پڑھ لوگوں کی نہیں۔ ہمارا پڑھا لکھا طبقہ بھی اسی راہ پر گامزن ہے۔ اپنے بچوں کو سوشل نیٹ ورکنگ کی حقیقت سمجھائے بنا، انٹرنیٹ کے صحیح استعمال کی باقاعدہ تربیت دیے بغیر ہم بڑی آسانی سے دوسرے کی دیکھا دیکھی اپنے بچوں کو ٹیبلٹ اور آئی فون تحفے میں خرید کر دے دیتے ہیں۔ انٹرنیٹ پر اپ لوڈنگ اور شیئرنگ کے چکر میں کتنی ہی لڑکیاں اور لڑکے بلیک میل ہوئے اور کتنوں نے بدنامی کے خوف سے اپنی جان دے دی۔

اس حوالے سے ہمیں یہ حقیقت پیش نظر رکھنی چاہیے، ہم کچھ بھی کرلیں مغربی سماج کے ساتھ کھڑے نہیں ہوسکتے۔ ان کی روایات، اقدار اور ثقافت ہم سے بالکل الگ ہیں۔ جہاں ان کی آزادی شروع ہوتی ہے وہ مقام ہمارے عام گھروں میں آزادی کی انتہا کے زمر ے میں آتا ہے۔ ایسے میں ’’کچھ بھی‘‘ شیئر اور اپ لوڈ کرنے کے ضمن میں ایک معمولی سی لغزش کسی نوجوان کی زندگی تباہ کرسکتی ہے۔

ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم خود پر ’’دقیانوسی‘‘ ہونے کا ٹیگ نہیں لگانا چاہتے۔ لیکن ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ دقیانوسی ہونے کا تعلق معاشرے کی اقدار سے نہیں ہوتا۔ مذہب اور عقائد کو ایک طرف رکھ کر بھی سوچا جائے تب بھی ہر جگہ ہر علاقے کی اپنی معاشرتی حدود ہوتی ہیں اور ان حدود کی پاسداری نہ کرنے والوں کو معاشرہ قبول نہیں کرتا۔ ٹیکنالوجی اپنائیے، لیکن اپنے شعور کے دروازے بھی ہر وقت کھلے رکھیے اور اپنی اقدار کو کسی قیمت پر نظرانداز نہ کیجیے۔

معاملہ انٹرنیٹ اور موبائل فون تک محدود نہیں۔ ٹی وی جو ہر گھر کی ضرورت ہے، اس کی اسکرین بھی ہمیں نظریں جھکانے یا چرانے پر مجبور کردیتی ہے۔ خبریں یا کسی سنجیدہ پروگرام کے دوران چینلز پر جب کوئی نامناسب اشتہار چلتا ہے تو اسکرین کے سامنے بیٹھے گھر کے تمام لوگ اسے دیکھنے پر مجبور ہوجاتے ہیں، چینل بدلنے کا بھی کیا فائدہ، دوسرے چینل پر یہی یا شاید اس سے بھی زیادہ نازیبا اشتہار چل رہا ہو۔ ٹی وی بند کر نہیں سکتے، اس طرح آپ دنیا سے کٹ جائیں گے۔ رفتہ رفتہ ہم ان چیزوں کے عادی ہونے لگتے ہیں، اور شاید اس سب کا مقصد بھی یہی ہے۔

ماں باپ، بہن بھائی گھر کے نوجوان بچے کیا ایک نشست میں بیٹھ کر ان مسائل کو زیربحث نہیں لاسکتے جن کا آج پاکستان کے ہر گھر کو سامنا ہے؟ اور جن پر بات کرنا شعور اجاگر کرنے کے لیے ضروری ہے۔ ہم ان موضوعات پر بحث کرتے ہیں کہ کون سا سیل فون یا ٹیبلٹ اچھا ہے، ہم اس پر بحث کیوں نہیں کرتے کہ اس ٹول کو ہمیں کیسے انفارمیشن کے حصول کے لیے استعمال کرنا چاہیے کہ یہ اشیاء ہمارے لیے مثبت سرگرمیوں کے استعمال کا ذریعہ بن جائیں۔ ہم اس نکتے پر اپنے گھروں میں بات کیوں نہیں کرتے کہ وہ کون سی حد ہے جہاں ہمیں خود کو روک لینا ہے۔

انٹرنیٹ، سوشل میڈیا اور اینڈرائڈ فونز کی وسیع دنیا سے متعلق اشتہارات اور سلوگنز ہمیں آزادی کا وہ تصور دیتے ہیں جس کا انجام تباہی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ ہر آزادی کو پابندیوں کی ضرورت ہوتی ہے، اسی لیے خاندان، قبیلہ، معاشرہ، حکومت اور ریاست جیسے ادارے وجود میں آئے، تاکہ انسان ان کی بنائی ہوئی اقدار، ضوابط اور قوانین کے دائرے میں رہ کر آزادی سے لطف اٹھا سکے، اگر یہ ادارے نہ ہوتے تو دنیا انسانوں کی ایک ایسی بھیڑ بن جاتی جس کی کوئی منزل ہوتی نہ کوئی مقصد۔ فرد کو بے ہنگم اور تباہ کن آزادی سے بچانے کا فریضہ خاندان انجام دیتا ہے اور قوم، عوام یا شہریوں کو اس تباہی سے بچانے کے لیے ریاست کا ادارہ ذمے داری پوری کرتا ہے۔ ہمیں اپنی اقدار پر ہونے والی جس یلغار کا سامنا ہے۔

اس کا مقابلہ خاندان ایک حد تک ہی کرسکتا ہے، سوال یہ ہے کہ ریاست کا ادارہ کہاں ہے؟ حکومت کہاں ہے؟ قوانین کے نفاذ، ان پر عمل درآمد اور آگاہی کی مہم کے ذریعے ٹیکنالوجی کے غلط استعمال کو روکا جاسکتا یا اسے محدود کیا جاسکتا ہے، لیکن حکومت اور اس کے متعلقہ ادارے اس ساری صورت حال میں خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ اس دنیا میں ایسی مثالیں موجود ہیں جب مختلف ملکوں کی حکومتوں نے اپنی معاشرتی اور اخلاقی اقدار کے بچاؤ کے لیے انٹرنیٹ اور متعلقہ ٹیکنالوجیز کے ذریعے آنے والے طوفان کے سامنے بند باندھے، لیکن ہماری حکومت اور متعلقہ ادارے اپنی ذمے داری پوری کرنے کو تیار نہیں دکھائی دیتے۔ بہرحال حکومت کچھ کرے نہ کرے، بطور فرد اور خاندان ہمیں اپنی اقدار کی حفاظت کے لیے خود حصار کھینچنا ہوگا اور بند باندھنے ہوں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔