کولمبیا کے شہری نے شیطان کا روپ دھارلیا

سید بابر علی  اتوار 2 نومبر 2014
امریکی نوجوان کیم مورٹس کو اس کے عجیب وغریب شوق کی بنا پر گھر سے نکال دیا گیا ۔  فوٹو : فائل

امریکی نوجوان کیم مورٹس کو اس کے عجیب وغریب شوق کی بنا پر گھر سے نکال دیا گیا ۔ فوٹو : فائل

دوسروں سے منفرد نظر آنے کی خواہش بسا اوقات انسان کو ایسے کام کرنے پر بھی مجبور کردیتی ہے جس کا اس نے کبھی تصور تک نہیں کیا ہوتا۔ ایسا ہی کچھ کولمبیا سے تعلق رکھنے والے 42سالہ کیم مورٹس نے کیا ہے جنہیں اب مقامی لوگ ڈیول مین (شیطانی آدمی) کے نام سے جانتے ہیں۔

کولمبیا سے تعلق رکھنے والے کیم آج کل میکسیکو میں رہائش پذیر ہیں، جس کا سبب یہ ہے کہ آنکھ کے ڈھیلوں پر سیاہ رنگ کا ٹیٹوبنوانے اور سر پر سینگ لگوانے کی وجہ سے اُن کے کٹر عیسائی والدین نے گھر سے بے دخل کردیا ہے۔ کیم مورٹس گذشتہ گیارہ سال سے خود کو شیطان کے روپ میں ڈھالنے کے لیے اپنے جسم پر ٹیٹوز (نقش و نگار) اور باڈی موڈی فی کیشن (جسمانی ساخت میں تبدیلی) کروا رہے ہیں۔

کیم مورٹس نے جراحی کی مدد سے نہ صرف اپنے ماتھے پر ابھار اور سر پر سینگ بنوا لیے ہیں بل کہ انہوں نے اپنی آنکھوں کے سفید ڈھیلوں تک کو جسم پر نقش و نگا ر بنانے کی جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے سیاہ رنگ دے دیا ہے۔ اس حوالے سے کیم کا کہنا ہے کہ مجھے بچپن ہی سے کچھ منفرد اور نیا کرنے کا شوق تھا میں کچھ ایسا کرنا چاہتا تھا کہ لوگ مجھے دیکھتے ہی پہچان جائیں’’دیکھوں وہ ہے کیم مارٹس۔‘‘

بچپن کی اس خواہش نے مجھے جسم پر نقش و نگار بنوانے کی طرف راغب کیا۔ تقریباً 11سال قبل جب میں اپنے جسم پر پہلا ٹیٹو بنوایا تو اس کی وجہ سے ہونے والی تکلیف اس وقت راحت میں بدل گئی، جب میرے دوستوں نے میری پشت پر بنے ٹیٹو کو دیکھ کر تعریفی کلمات ادا کیے۔ کیم کا کہنا ہے کہ میرا تعلق کٹر عیسائی گھرانے سے ہے جہاں خوداذیتی کو غلط سمجھا جاتا ہے، لیکن میں نے اپنے شوق کی خاطر گھر والوں کی مخالفت بھی مول لے لی اور ان گیارہ سال میں اپنے جسم کو مختلف اقسام کے ٹیٹوز سے مزین کر چکا ہوں۔

مورٹس نے بتایا کہ پورے جسم پر ٹیٹوز بنوانے کے بعد میں نے چہرے کی ساخت میں تبدیلی لانا شروع کی۔ ابتدا میں ماتھے اور رخسار پر باڈی موڈی فیکیشن کے ذریعے چھوٹے چھوٹے ابھار بنوائے، ہونٹوں اور تھوڑی پر چھید کروائے، لیکن اس کے بعد بھی میرا جنوں کم نہیں ہوا تو میں نے ٹیٹو کا سب سے خطرناک طریقہ اپنایا، جس کے ذریعے آنکھ کے ڈھیلے میں جراحی کے ذریعے رنگ بھرا جاتا ہے۔

کیم مارٹس کا کہنا ہے کہ زیادہ تر لوگ مجھے پہلی بار دیکھ کر ڈر جاتے ہیں۔ زیادہ تر لوگ مجھ سے ایک ہی سوال پوچھتے ہیں،’’کیا اس سے تکلیف نہیں ہوتی؟‘‘ یا ’’یہ تمہارے ساتھ کس نے کیا؟‘‘ لیکن گذشتہ گیارہ سال میں ہونے والی تکلیف برداشت کرنے کا محرک صرف اور صرف ایک ہے کہ میرا جسم دنیا کے دیگر لوگوں سے مختلف نظر آتا ہے۔
باڈی موڈی فیکیشن کا کلچر نیا نہیں صدیوں پرانا ہے۔ بعض لوگ اسے وقتی فیشن سمجھتے ہیں، لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔

ٹیٹو آرٹسٹ اور باڈی پینٹر کی حیثیت سے کئی سال کام کرنے والے کیم نے حال ہی میں ’ہالوین ‘ تقریبات میں بہ حیثیت ’ڈی جے‘ نئے کیریر کا آغاز کیا ہے، جہاں انہیں امید سے زیادہ پذیرائی مل رہی ہے۔ اس حوالے سے مارٹس کا کہنا ہے کہ موسیقی میں مجھے شروع سے ہی دل چسپی تھی۔

اس پیشے کو منتخب کرنے سے قبل کئی ماہ تک میں نے ڈی جے بننے کے لیے تربیت حاصل کی اور سب سے پہلے ہالوین پارٹی میں ایک نیا تصور پیش کیا، جو یہ تھا کہ میں کچھ دنوں بعد ہونے والی ایک ہالوین پارٹی میں ساتھی ڈی جے گیزیلا کے ساتھ انوکھی پرفارمینس دوں گا، جس میں گیزیلا ’’اینجل‘‘ کے روپ میں شیطان ’’کیم‘‘ کے ساتھ انوکھا کردار ادا کرے گی۔

کیم کا کہنا ہے کہ مجھے دیکھ کر دیگر لوگوں میں بھی باڈی موڈی فیکیشن اور ٹیٹوز بنوانے کا شوق پیدا ہوتا ہے اور ہر پارٹی کے بعد متعدد لوگ اس کام کے لیے مجھ سے رابطہ کرتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ مجھے ٹیٹو بنوانے اور باڈی موڈی فیکیشن کروانے کا نقصان صر ف اتنا ہوا ہے کہ مجھے گھر والوں کی مخالفت کی وجہ سے کولمبیا سے میکسیکو منتقل ہونا پڑا ہے۔

آنکھ کے شفاف پردے (کارنیا) پر نقش و نگار اور رنگ بھرنے کی روایت کچھ نئی نہیں ہے۔ 150قبل مسیح پہلے یونان کے مشہور فلسفی حکیم جالینوس نے پہلی بار ایک مریض کے کارنیا کی سطح پر طبی مقصد کے لیے گرم نشتر سے داغ لگایا تھا۔ پہلے کام یاب تجربے کے بعد حکیم جالینوس نے آنکھوں کو رنگنے کے لیے یہ طریقہ استعمال کیا۔ بعض محققین کا کہنا ہے کہ حکیم جالینوس نے موتیا کے شکار کچھ مریضوں کے لیے کاپرسلفیٹ اور دیگر کیمیکل کے ذرات بھی استعمال کیے۔

دوسری صدی میں حکیم جالینوس کے متعارف کیے گئے طریقۂ جراحت ’کارنیل ٹیٹو‘ کو 1869میں سرجن ’لوئس وان ویکر‘ نے ایک نئے طریقے سے متعارف کرایا۔ ڈاکٹر لوئس نے موتیے کے علاج کے لیے سیاہ روشنائی کا استعمال کیا۔ نئے طریقۂ کار میں ڈاکٹر وان نے مریض کو کوکین کے زیراثر بے ہوش کرکے اس کی آنکھ کے قرنیے کو روشنائی کی ایک پتلی تہہ سے ڈھک کر ایک باریک سوئی کی مدد سے اس تہہ میں روشنائی کو داخل کردیا تھا۔ ڈاکٹر ویکر کا یہی طریقہ کچھ تبدیلی کے ساتھ آج تک مستعمل ہے۔

تاہم ڈاکٹر وان کے بعد متعدد ڈاکٹر کارنیل ٹیٹو کے طریقے کو مزید بہتر اور محفوظ بنانے کے لیے کام کرتے رہے ہیں۔

امریکی ڈاکٹر ٹیلر نے ایک کی جگہ سوئیوں کا پورا بنڈل استعمال کیا، ایک اور طبیب Armaignac نے ٹیٹو بنانے کے لیے آنکھ کے قرنیے پر تین چھوٹے پوائنٹس بنا کر ایک چھوٹی قیف کے ذریعے روشنائی کا بہاؤ جاری رکھا اور سوئی کی مدد سے ٹیٹو بنایا۔ انیسویں صدی کے مشہور فرانسیسی ماہر چشم وکٹر موریکس نے آنکھ کے قرنیے پر ٹیٹو بنانے کے بجائے اس کی ہیت ہی تبدیل کردی تھی۔

وکٹر نے آنکھ کے قرنیے کو دو حصوں میں عمودی تہوں میں تقسیم کر کے رنگ بھر دیا تھا۔ تاہم جدید ٹیکنالوجی کی بدولت ’حقیقی کارنیل ٹیٹو‘ بنانے والے افراد کی تعداد میں کمی واقع ہوئی ہے، لیکن اب بھی ایڈوینچر پسند کرنے والے افراد تمام تر خطرات کے باوجود آنکھوں میں رنگ بھرنے کے لیے کثیر رقم خرچ کرنے کو تیار رہتے ہیں۔

زیادہ تر ماہرینِ چشم اس بات پر متفق ہیں کہ طبی مقاصد کے لیے استعمال ہونے والی اس ٹیکنالوجی کوبہ طور فیشن استعمال کرنے کا نتیجہ بعض اوقات ہمیشہ کے اندھے پن پر منتج ہوتا ہے، لیکن ان تمام خطرات کے باوجود مرد و خواتین میں آنکھوں کے اندر ٹیٹو بنانے والے افراد کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔

باڈی موڈی فیکیشن کے انوکھے طریقے
منفرد دکھائی دینے کے شوقین زیادہ تر افراد اپنے پورے جسم کو نقش و نگار سے مزین کرنے کے بعد باڈی موڈی فیکیشن(جسمانی ساخت میں تبدیلیاں) بھی کرواتے ہیں، جن میں سے کچھ مشہور درج ذیل ہیں:

٭اسکیریفیکیشن
اس طریقۂ کار میں کسی تیز دھار آلے کی مدد سے جسم کے کسی بھی حصے پر کھال کو کاٹ کر، جلا کر کسی نام، عدد یا تصویر کو اجاگر کیا جاتا ہے۔ یہ طریقۂ کار زیادہ تر افریقی قبائل میں رائج ہے اور وہ اسے مذہبی روایت سمجھ کر ادا کرتے ہیں۔ اسکیریفیکیشن کروانے والے زیادہ تر افراد اسے ٹیٹو بنوانے سے زیادہ تکلیف دہ عمل قرار دیتے ہیں۔

٭کھال میں تھری ڈی آرٹ کے نمونے داخل کرنا
باڈی موڈی فیکیشن کے اس طریقے کو تھری ڈی آرٹ امپلانٹ کہا جاتا ہے۔ اس طریقۂ کار میں جراحی کے ذریعے کسی شے کو کھال کے اندر داخل کردیا جاتا ہے اور اوپر سے کھال اس نمونے کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ باڈی موڈی فیکیشن کے اس منفرد طریقے کو امریکا کے اسٹیو ہیورتھ نے متعارف کروایا ہے۔

اس حوالے سے اسٹیو ہیورتھ کا کہنا ہے کہ یہ طریقہ پیئرسنگ (جسم کے کسی حصے میں سوراخ کرکے رنگ وغیرہ ڈال دینا) سے مماثل ہے، جس کی بہتر مثال سر پر سینگ لگانے کی ہے۔ اس طریقۂ کار کے تحت ابتدا میں کھال کے نیچے پلاسٹک یا کسی دھات کے بنے چھوٹے سینگ داخل کیے جاتے ہیں اور کچھ عرصے بعد جب کھال کھنچ جاتی ہے تو چھوٹے سینگ نکال کر نسبتاً بڑے سینگ امپلانٹ کردیے جاتے ہیں اور مطلوبہ جسامت تک یہی عمل دہرایا جاتا ہے۔

٭ ہیومن برانڈنگ
باڈی موڈی فیکیشن میں ہیومن برانڈنگ کو سب سے زیادہ تکلیف دہ عمل قرار دیا جاتا ہے۔ اس طریقۂ کار میں جسم کے جس حصے پر برانڈنگ مقصود ہو وہاں گرم استری رکھی جاتی ہے جس کے نتیجے میں وہ جگہ تھرڈ ڈگری جل جاتی ہے، جس کے بعد مطلوبہ ڈیزائن بنا دیا جاتا ہے۔

٭زبان کو دو شاخہ بنانا

باڈی موڈی فیکیشن میں زبان کو دو حصوں میں تقسیم کرکے نئی جدت پیدا کی گئی ہے۔ اس طریقۂ کار میں زبان کو درمیان سے دو حصوں میں کاٹ دیا جاتا ہے۔ زبان کٹنے کے بعد کٹے ہوئے دونوں حصوں کو آزادانہ طور پر حرکت دینا ممکن ہوتا ہے۔

٭ ناک کان اور ہونٹوں کو نئی شکل دینا
نیویارک کے پلاسٹک سرجن ڈاکٹر لاجوس نیگی نے باڈی موڈی فیکیشن کے دل داہ افراد کے لیے ایک نیا طریقہ نکالا ہے، جس کے تحت وہ مطلوبہ فرد کی خواہش کے مطابق کان، ناک اور ہونٹوں کو کسی ماورائی مخلوق کی شکل میں ڈھال دیتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔