طلبا کی کردار سازی… استاد کی تمنا

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  اتوار 2 نومبر 2014
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

تعلیم و تربیت ایک ایسا اہم مسئلہ ہے کہ جس پر آج بھی ہمارے ہاں ہی نہیں مغرب میں بھی بحث و مباحثہ چلتا رہتا ہے کہ وقت کے تقاضوں کے تحت کوئی تبدیلی تعلیمی نظام کو مزید موثر اور بہتر نتائج کا حامل بنا سکتی ہے؟ مغرب میں پرائمری سطح پر بھی تجربات جاری ہیں اور والدین کی ایک بڑی تعداد نے مختلف وجوہات کی بنیاد پر اپنے بچوں کو قیمتی انگلش میڈیم اسکولوں میں پڑھانے کے بجائے گھر پر ہی ہوم اسکول، موم اسکول (Home School / Mom School) کے نام سے تعلیم دینا شروع کردی ہے۔ اگر آپ گوگل پر جاکر اس تحریک کو تلاش کریں تو آپ کو سیکڑوں کی تعداد میں ویب سائٹس مل جائیں گی۔

بہرحال بات ہو رہی تھی اچھی تعلیم و تربیت کی۔ ہمارے ہاں بھی پرائمری سطح پر بھی اسکول کے معیار تعلیم اور اساتذہ کے کردار پر اکثر بحث کی جاتی ہے، خاص کر پنجاب یا دیہی علاقوں کے اسکولوں میں تو استاد کا کردار اکثر ذرائع ابلاغ کی زینت بنتا رہتا ہے کہ جس میں کسی استاد کی جانب سے تشدد سے بچے موت کے منہ تک پہنچ جاتے ہیں۔

حقیقت تو یہ ہے کہ ایک استاد کا کردار ہمارے ہاں آج پرائمری سطح سے لے کر اعلیٰ تعلیمی اداروں تک ایک سوالیہ نشان کے آگے کھڑا ہے جب کہ ہم جانتے ہیں کہ پرائمری سطح پر بھی ایک استاد کا کردار نہایت اہم ہوتا ہے کیونکہ یہیں سے تو مستقبل کے معماروں کی بنیاد رکھی جاتی ہے، چنانچہ اگر بنیاد ہی غلط رکھ دی جائے تو پھر اچھے مستقبل کی توقع کیسی؟

ایمانداری سے تمام حالات کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ کسی استاد کا کردار محض اس کے معاشی اسٹیٹس یعنی اس کو ملنے والی تنخواہ اور معیار زندگی کے دیگر پہلوؤں سے نہیں ہوتا بلکہ اس پورے نظام سے ہوتا ہے جس میں نصاب سے لے کر اس حصول کے مقصد تک ہوتا ہے جو ہمارے معاشرے یا ایمان کا حصہ ہے۔ مثلاً ایک استاد دو چار لاکھ روپے رشوت دے کر یا پھر کسی جماعت یا گروہ کی دن رات خدمت کرکے طلبا کو تعلیم و تربیت دینے آئے تو وہ تعلیم تو یقیناً دے سکے گا مگر تربیت کیسے دے گا، جب کہ وہ خود اصولوں کو ’’توڑ‘‘ کر آیا ہو۔ پھر وہ تعلیم کے شعبے میں قدم رکھنے کے بعد اپنے لگائے گئے یا خرچ کیے گئے سرمایے کی وصولی بھی چاہتا ہے۔

ماضی پہ نظر ڈالیے، رابندر ناتھ ٹیگور نے طلبا کو تعلیم فراہم کرنے کے لیے فطرتی ماحول کا انتخاب کیا۔ بچہ حواس خمسہ سے سیکھتا ہے لیکن آج کل اسکول میں بچہ سننے اور دیکھنے کے ذریعے ہی سیکھتا ہے۔ پہلے بچے کی تعلیم و تربیت میں وجدان اور علم الدانی شامل ہوتے تھے جن سے تصوف کی بنیاد میں بھی مدد ملتی تھی، بزرگان دین اسی کے ذریعے شخصیت کو پروان چڑھاتے تھے۔ روحانی مقام بھی اسی طرح پروان چڑھتا تھا۔

آج بچے کو پڑھایا جانے والا نصاب اوسط درجے کی صلاحیت کے حساب سے تیار کیا جاتا ہے جس سے ذہین بچہ باوجود صلاحیت کے آگے بڑھ نہیں سکتا، اسے ایک کتاب ختم کرنے کے لیے سال بھر انتظار کرنا پڑتا ہے۔ بچے کو پابند کردیا گیا ہے کہ وہ ایک کتاب پورے ایک سال میں ہی ختم کرے۔ مغرب میں (خاص کر امریکا میں) انسینٹیو Incentive اسکیم کے تحت طلبا میں مطالعے کا رجحان بڑھانے اور زیادہ علم دینے کے لیے ایک کتاب ختم کرنے پر ایک مخصوص رقم بچے کو بطور ہمت افزائی دی جاتی ہے۔ لیکن اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ اس طرح بچے کی سرگرمیاں سرمایہ دارانہ ہوجاتی ہیں۔

آج کا تعلیمی نظام پورا کا پورا اسی تناظر میں گھوم رہا ہے، خواہ مشرق ہو یا مغرب، یہی وجہ ہے کہ آج ڈگری یافتہ لوگ تو بڑی مقدار میں تعلیمی اداروں سے نکل رہے ہیں لیکن دانشوروں کا قحط پڑگیا ہے۔ اس پہلو پر ذرا اور غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس عمل سے استاد بھی وہ کردار ادا کرنے سے قاصر ہے جس کی توقع ہم (ماضی کے اعتبار سے) کرتے ہیں۔ آج کے رجحان پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ مشرق و مغرب میں ایسے علوم کو ترجیح دی جارہی ہے جن کی مارکیٹ میں بہت مانگ ہوتی ہے، صورتحال یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ اب ڈاکٹر کی ڈگری کی حیثیت بھی ایم بی اے فنانس سے کم ہوکر رہ گئی ہے کیونکہ اب ایک ایم بی بی اے زیادہ کما کر دے رہا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ دنیا بھر میں تعلیمی نصاب کو قومی مفاد کے نقطہ نظر سے دیکھا جاتا ہے تاکہ طلبا جب عملی زندگی میں قدم رکھیں تو ملک و قوم کے لیے سودمند ثابت ہوں لیکن عملاً نصاب اس کے برعکس ترتیب دیا جارہا ہے۔ اب آپ اس کو شعوری کوشش کہہ لیں یا غیر شعوری! اب نصاب کیریئر کو مضبوط و مستحکم اور زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانے کے نقطہ نظر سے تشکیل دیا جاتا ہے، ایسے ہی شعبوں میں طلبا کی اکثریت داخلہ لیتی ہے اور ایسے ہی شعبوں کے تعلیمی اخراجات سب سے زیادہ ہوتے ہیں۔

چنانچہ ایسے تعلیمی ماحول سے پڑھ کر نکلنے والوں کی شخصیت بھی کیریئر پرست بن کر نکلتی ہے، جن کے ذہن میں زیادہ سے زیادہ مال و دولت کا (تنخواہ کی شکل میں) حصول ہوتا ہے۔ چنانچہ عملی مشاہدہ بتاتا ہے کہ اس طرح کے تعلیمی نظام سے نکل کر عملی زندگی میں قدم رکھنے والے کیریئر پرست اپنے بوڑھے والدین کو بھی اکثر تنہا چھوڑ کر بہتر مستقبل کی تلاش میں نکل جاتے ہیں۔ جس تعلیمی نظام سے نکلنے والے اپنے والدین کو بھی خیرباد کہہ دیں ان سے ملک و قوم کے مفاد کی توقع رکھنا کس قدر احمقانہ ہے۔

قابل فکر بات یہ ہے کہ تعلیم میں پروفیشنل ازم آجانے سے تجارتی یا کمپنی والی سرگرمیاں بڑھ گئی ہیں اور بالکل ایک فیکٹری یا انڈسٹری کی شکل میں تعلیمی نظام ڈھل چکا ہے، جس طرح کسی کمپنی کا مطمع نظر پروڈکٹ تیار کرنا، اس کے صارف بڑھانا ہوتا ہے بالکل ایسے ہی تعلیمی اداروں کے مالکان بھی تعلیمی اداروں سے زیادہ سے زیادہ منافع کمانا چاہتے ہیں۔ اس صورتحال میں ممکن ہے کہ صارف یعنی طلبا کی تعداد بڑھ جائے مگر قومی مفاد کا حصول ممکن نہیں۔

یہی وجہ ہے کہ آج سرمایہ داروں کی ایک بڑی تعداد نجی جامعات تک کے قیام میں دلچسپی لے رہی ہیں۔ طلبا کی تعداد میں اضافے کے نت نئے طریقے تلاش کیے جا رہے ہیں، طلبا کو اپنے پاس زیادہ سے زیادہ عرصے رکھنے کے حیلے تلاش کیے جا رہے ہیں، چنانچہ اب بچوں کی تعلیم کلاس ون سے شروع نہیں ہوتی بلکہ پلے گروپ، پریپ ون، ٹو، کے جی ون ٹو، اور نہ جانے کیا کیا ناموں سے تعلیم کے فروخت یعنی کاروبار کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے۔ اور پھر ان سب کی توجیح (Justification) ایسی پیش کی جاتی ہے کہ عموماً والدین مجبور ہوکر اپنے بچے کو یہاں داخل کرادیتے ہیں۔

نصاب تعلیم اور نظام تعلیم کو پروفیشنل ازم اور سرمایہ دارانہ جال کے پردے میں اس طرح مسلط کردیا گیا ہے کہ بظاہر ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارا جدید نظام تعلیم قومی مفادات کے دائرے میں ہے اور ایک استاد ہمارے طلبا کی بہترین تربیت کرسکتا ہے جب کہ حقیقت حال اس کے قطعی برعکس ہے، کیونکہ یہ وہ ماحول ہے کہ جہاں ایک اعلیٰ کردار اور باصلاحیت استاد بھی طلبا کی وہ کردار سازی نہیں کرسکتا جس کی وہ تمنا رکھتا ہو۔

ہم مغرب کو حسرت سے دیکھتے ہیں اور ان کے تعلیمی نظام کو اپنانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں اور کچھ نہیں تو نچلے طبقات کے علاقوں میں 60 گز کے مکان میں اسکولوں کا نام بھی وائٹ گرامر اسکول رکھ کر خوش ہوجاتے ہیں، ہم یہ بھی نہیں سوچتے کہ مغرب میں تو خود ہوم اسکول، موم اسکول کی تحریک چل رہی ہے۔ ہم نے فطری ماحول کو تعلیم سے علیحدہ کردیا جب کہ فطری ماحول تو تخلیقی صلاحیت پیدا کرتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ جب پورا نظام تعلیم ہی مادہ پرستی کے گرد گھما کر رکھا دیا جائے تو پھر استاد سے کیسی توقع کہ کام تو اس نظام تعلیم میں کرے جو مادہ پرستی کے گرد گھومتا ہو مگر طلبا کو مثالی انسان بنائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔