پرائمری ایجوکیشن میں استاد کا کردار

رئیس فاطمہ  اتوار 2 نومبر 2014
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

پرائمری ایجوکیشن میں استاد کا کردار میری نظر میں وہی ہے، جو ایک معمار کا ہوتا ہے یعنی بنیاد کی اینٹ نہ صرف صحیح جگہ رکھنی ہوتی ہے بلکہ اس پہ لگائے جانے والے مصالحے میں سیمنٹ اور بجری کا تناسب بھی معیاری ہونا چاہیے۔

گویا بنیادی تعلیم میں سب سے زیادہ اہم رول استاد کا ہے۔ لیکن افسوس کہ نہ سرکاری سطح پر اس کی اہمیت کو سمجھا جاتا ہے نہ نجی ملکیت میں چلنے والے پرائیویٹ اسکولوں کی انتظامیہ استاد کی اہمیت و کردار کی کوئی پرواہ کرتی ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی ایک کڑوا سچ ہے کہ خود پرائمری اسکولوں کے اساتذہ کو سرے سے اپنی ذمے داریوں اور نیک نامی کا کوئی خیال نہیں ہے۔ ذمے دار تینوں ہیں، لیکن سب سے زیادہ قصور وار خود گورنمنٹ ہے۔ آئیے! ہم تینوں کا جائزہ لیتے ہیں۔

گورنمنٹ کو سب سے زیادہ قصور وار ٹھہرانے کی بہت ساری مضبوط وجوہات ہیں۔ نمبر ایک یہ کہ سرکاری پرائمری اسکولوں کے استاد کی تنخواہ اور دیگر مراعات کا کوئی خیال نہیں رکھا گیا۔ نہ انھیں رہائش دی جاتی ہے، نہ معقول کنوینس الاؤنس، جب کہ بڑے افسران کے لیے ہر قسم کی سہولیات موجود ہیں۔ پرائمری کے استاد کوپک اینڈ ڈراپ کی سہولت بھی حکومت فراہم نہیں کرتی۔ نہ ہی ان کی قلیل تنخواہوں میں خاطر خواہ سالانہ اضافہ ہوتا ہے۔

نہ ہی ریٹائرمنٹ کے بعد ملنے والی پنشن اس قابل ہوتی ہے کہ وہ اپنے گھر کا چولہا روشن رکھ سکے۔ استاد کو جب تک مالی فراغت حاصل نہیں ہوگی وہ یکسوئی سے بچوں کو تعلیم نہیں دے سکے گا۔ ایک صحت مند دماغ کے لیے سب سے پہلے معدے کا صحت مند ہونا ضروری ہے۔ خالی پیٹ تو انسان کو نیند بھی نہیں آتی۔ چہ جائیکہ معصوم بچوں کو دل جمعی سے پڑھانا۔ سرکاری اسکولوں میں تو وقفے کے دوران اساتذہ کو چائے تک اپنے پیسوں سے خرید کر پینی پڑتی ہے۔

دوسرے نمبر پہ پرائمری استاد کے کردار کے حوالے سے پرائیویٹ اسکول مالکان کا نامناسب رویہ ہے۔ یہ لوگ تاجر ہیں اور تجارت کا پہلا اصول ’’منافع کمانا‘‘ ہے اسی لیے نجی تعلیمی ادارے طالب علموں کو اپنا ’’کلائنٹ‘‘ کہتے ہیں، والدین سے بھاری بھاری فیسیں اور مختلف تقاریب کے بہانوں سے ’’غنڈہ ٹیکس‘‘ جبراً لیا جاتا ہے لیکن استاد کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔ زیادہ تر پرائمری اسکول جو اپنے نام کے ساتھ فخریہ انگلش میڈیم لکھتے ہیں، وہاں جا کر کسی پرائمری ٹیچر کی قابلیت اور تنخواہ کا جائزہ لیں تو حیران کن انکشافات ہونگے۔ قابلیت اور اہلیت کے نام پر صرف اتنا کہ وہ کم سے کم معاوضہ پر کام کر سکیں۔

ڈھیروں ہوم ورک چیک کر سکیں۔ عموماً میٹرک پاس لڑکیاں بڑی تعداد میں ایسے اسکولوں میں ملیں گی جنھیں بمشکل 3 سے 4 ہزار ماہانہ پہ ملازم رکھا جاتا ہے۔ ظاہر ہے ایسی صورتحال میں نہ وہ صحیح طور سے اردو پڑھا سکتی ہیں نہ انگریزی۔ چھٹی کرنے کی صورت میں تنخواہ کاٹ لی جاتی ہے۔ جو نام نہاد بڑے اسکول ہیں وہاں بھی کسی استاد کا ڈگری یافتہ یا ٹرینڈ ہونا ضروری نہیں۔ بس تھوڑی سی انگریزی بولنی آنی چاہیے۔ پھر الف سے آم اور عام سب جائز ہے۔ ٹیچر بھی یہ بات جانتے ہیں اس لیے وہ بھی مالکان کی خواہشات کا احترام کرتے ہوئے بھتہ وصولی میں اپنا اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ طالبعلم کی کارکردگی بڑھانے کے بجائے کلائنٹ بڑھانے اور انھیں خوش رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

یہ کسی استاد کا نہیں بلکہ ’’کارندوں‘‘ کا کردار ادا کرتے ہیں۔ یہی سب سے بڑا المیہ ہے اور اب آتے ہیں پرائمری ایجوکیشن کے اساتذہ کے اپنے کردار کی طرف۔ تو میں انھیں بھی برابر کا تو نہیں البتہ چالیس فیصد قصور وار یا ذمے دار ٹھہراتی ہوں۔ سب سے پہلے تو ہم سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کی بات کرتے ہیں۔ تو ان کا رویہ اپنے شاگردوں سے مایوس کن ہے۔ سرکاری اسکولوں کے 98 فیصد اساتذہ ایسے ہیں جنکے ڈیوٹی کے اوقات پڑھانے کے علاوہ سب کام ہوتے ہیں۔

بچوں کو ان کے حال پہ چھوڑ کے یہ اساتذہ یا تو کلاس رومز میں ہی موبائل پہ باتیں اور SMS کرتے/کرتی ہیں۔ جب موبائل نہیں تھا اور سوئیٹر بننے کی روایت زندہ تھی تو خواتین اساتذہ زیادہ تر اون سلائیاں ساتھ رکھتی تھیں اور کلاس میں پڑھانے کے بجائے سوئیٹر بنتی رہتی تھیں۔ اسکول کی ہیڈ مسٹریس اور ہیڈ ماسٹر کا بھی یہی حال ہے۔ وہ چپراسی اور چوکیداروں سے اپنے گھر کے ذاتی کام کرواتے ہیں۔ تنخواہیں محکمہ تعلیم دیتا ہے، لیکن گاڑی وہ ہیڈ ماسٹر یا ہیڈ مسٹریس کی ڈرائیو کرتے ہیں۔ حکم نہیں مانیں گے تو سالانہ خفیہ رپورٹ خراب ہو جائے گی اور انکریمنٹ نہیں ملے گا۔ جو استاد تحائف دینے میں آگے آگے ہوتے ہیں ان کی ACR ہمیشہ A+ جاتی ہے۔ لیکن جو اساتذہ اپنی ذمے داری نبھاتے ہیں کسی حد تک کلاسوں میں پڑھاتے بھی ہیں، لیکن تحائف دینے کی سکت نہیں رکھتے ان کی ACR کبھی B سے آگے نہیں بڑھتی۔

آپ کسی بھی سرکاری اسکول میں چلے جائیں۔ ہر جگہ طالب علم کلاسوں کے بجائے گراؤنڈ میں اور استاد اسٹاف روم میں نظر آئیں گے۔ پوچھنے والا کوئی نہیں۔ کیونکہ نوکریاں پکی ہیں۔ آپ کچھ کریں یا نہ کریں تنخواہ باقاعدگی سے ملتی رہے گی۔ بالکل ارکان اسمبلی کی طرح بغیر اسمبلی آئے ان کے TA اور DA بڑھتے رہیں گے، ماہانہ الاؤنس بھی بڑھتا رہے گا۔ کارکردگی کے نام پر صرف اپنے لیڈر کی قصیدہ خوانی اور دوسروں پر کیچڑ اچھالنا، یا تالیوں کے بجائے ڈیسک بجانا۔ پرائمری ایجوکیشن کے اساتذہ کا ایک اور تکلیف دہ رول سرکاری و نجی اسکولوں کے طلبا و طالبات کو ٹیوشن دینا ہے۔

گورنمنٹ اسکول والے تو اسکولوں میں ہی صاحب حیثیت والدین کے بچوں کو تدریس کے اوقات میں ہی ٹیوشن دینے لگتے ہیں۔ کیونکہ اسکول کا سربراہ اس کا ساتھ دیتا ہے۔ لیکن نجی اسکولوں کے اساتذہ خود والدین سے کہتے ہیں کہ اگر وہ ان سے ٹیوشن پڑھوائیں گے تو ان کے بچے کا رینک اچھا آئے گا اور یہی ہو بھی رہا ہے۔ والدین مجبور ہیں کہ ان کی بات مانیں۔ افسوسناک بات یہ بھی ہے کہ خود والدین بھی اسکول ٹیچرز کو یہ لالچ دیتے ہیں کہ اگر ان کا بچہ فرسٹ یا سیکنڈ آیا تو وہ انھیں خوش کر دیں گے۔

دراصل سارا سسٹم ہی سفارشی بنیادوں پہ چل رہا ہے۔ صحت اور تعلیم کے شعبے جو سب سے زیادہ اہم ہیں۔ حکومت کی توجہ ان کی جانب بالکل نہیں ہے۔ سارا نظام وڈیروں، جاگیرداروں اور سرداروں کے ہاتھوں میں ہے۔ جو کبھی نہیں چاہتے کہ پرائمری تعلیم عام ہو اور پرائمری ایجوکیشن سے جڑے استاد کا نہ صرف وقار بحال ہو بلکہ اس کی عزت نفس بھی مجروح نہ ہو۔ یہاں تو یہ حال ہے کہ چھوٹے چھوٹے قصبوں اور گاؤں میں استاد کسی وڈیرے، سردار یا خان کا ذاتی ملازم ہوتا ہے۔

ایسی صورت میں جب پرائمری اسکول کا ٹیچر ہونا باعث فخر نہ ہو تو استاد کس طرح اپنا مثبت رول ادا کرسکتا ہے؟ استاد ہو یا پولیس والے، سب طاقت ور لوگوں کے ذاتی ملازم ہوتے ہیں۔ پرائمری ایجوکیشن میں استاد کا کردار طے کرنے سے پہلے یہ بات ذہن میں رکھیں کہ استاد بھی اسی معاشرے کا فرد ہے۔ وہ کوئی آسمانی مخلوق نہیں۔ اگر اس کا کردار آج منفی نظر آ رہا ہے تو اس کے تدارک کے لیے پہلے اپنے فرسودہ اور گلے سڑے سسٹم سے نجات حاصل کیجیے۔

تاجر اور دکاندار کسی ملک کو چلانے کا ٹھیکہ مل جائے تو وہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ دولت کمانے کا کام کریگا، نہ کہ اسکول اور اسپتال بنوائے گا۔ پرائمری ایجوکیشن کے استاد کا وقار بحال کیجیے، سرکاری اسکولوں میں ہیڈ ماسٹر اور ہیڈ مسٹریس کو پابند کیجیے کہ وہ اساتذہ کو ان کی ذمے داریاں پوری کرنے کی طرف راغب کرے۔ ساتھ ہی یہ بھی کہ بصورت دیگر ہیڈ ماسٹر / ہیڈ مسٹریس اور نااہل اساتذہ کی سالانہ ترقیاں روک دی جائیں۔ لیکن یہ اسی وقت ممکن ہے جب وڈیرہ شاہی اور جاگیردارانہ غلامانہ ذہنیت اور سسٹم سے نجات مل سکے۔ نجات دلائے گا کون؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔