حالات کے تناظر میں (پہلاحصہ)

نسیم انجم  اتوار 2 نومبر 2014
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

وزیراعظم نواز شریف کو اس بات پر بے حد اطمینان اور خوشی حاصل ہوئی ہوگی کہ طاہرالقادری نے دھرنا ختم کردیا، ان کے دھرنا ختم کرنے سے حکومت نے سکھ کا سانس لیا اور حلق میں اٹکی ہوئی سانسیں بحال ہوگئیں، نواز شریف نے اس موقع پر دوسرے دھرنے کی جوکہ تحریک انصاف کا ہے، ختم ہونے کی امید ظاہر کی ہے، انھوں نے کہا دوسرا دھرنا بھی خوش اسلوبی سے ختم ہوگا، صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے۔

واقعی میٹھا ہوتا ہے اگر اصل معنوں میں صبر و شکر ادا کیا جائے، لیکن سانحہ ماڈل ٹاؤن، گلو بٹ کی آمد، جانی و مالی نقصانات، اموات، نوجوانوں پر تشدد اور قید و بند کی صعوبتیں، شیلنگ، یہ سب کیا ہے؟ کیا اسی عمل کا نام ’’صبر‘‘ ہے؟ صبر تو عوامی تحریک کے رہنما و لیڈر طاہرالقادری اور تحریک انصاف کے بانی و سربراہ عمران خان نے کیا۔ انھوں نے قومی سطح پر کسی عمارت یا سرکاری گاڑیوں کو ذرہ برابر نقصان نہیں پہنچایا اور نہ ہی قتل عمد کا بدلہ لیا اور نہ کسی عام و خاص کی جان لینے کا ارتکاب کیا، اور نہ ہی کسی کو مجبور کیا کہ وہ دھرنوں میں شرکت کریں، تمام لوگ اپنی مرضی سے دور دور سے آئے، اس کی وجہ عوام کرپشن کا خاتمہ چاہتے ہیں۔

اپنے حقوق کے لیے اٹھ کھڑا ہونا، لاقانونیت نہیں ہے۔ ہزاروں کا مجمع اپنے گھر کے آرام و سکون کو چھوڑ کر دھرنے میں شریک ہوتا رہا، بچوں کی تعلیم کا بھی حرج ہوا، معاشی مسائل نے ذہنی اذیت میں مبتلا کیا، پھر پرخطر راستوں پر سفر کرنا بھی آسان نہ تھا، جن مشکلات کا سامنا اپنے حقوق طلب کرنے والوں کو کرنا پڑا، اس اذیت کا احساس ایوانوں اور ایئرکنڈیشنڈ دفاتر اور اسمبلیوں میں بیٹھنے والوں کو بھلا کس طرح ہوسکتا ہے؟ دو ماہ سے زیادہ عرصے تک کسی زیاں کے بغیر دھرنوں میں شریک ہونا آسان بات نہیں، اس کے برعکس جب پیپلز پارٹی اپنا جلسہ کرتی ہے تو ایک دو روز پہلے ہی سے بڑی بڑی وارداتیں ہونی شروع ہوجاتی ہیں، ایک نہیں، دو نہیں اٹھارہ دکانیں لوٹ لی جاتی ہیں۔ چلیں اس طرح کی وارداتیں تو ہوتی ہی رہتی ہیں، اسے ہم پیپلز پارٹی کے کھاتے میں نہ بھی ڈالیں تو کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔

لیکن ایدھی سینٹر میں ہونے والی ڈکیتی حکومت سندھ کے کھاتے میں جائے گی، ایک طرف جلسہ ہو رہا ہے، جیالے اور جیالیاں رقص کر رہی ہیں، انواع و اقسام کے کھانے پکوائے جا رہے ہیں تو دوسری طرف عبدالستار ایدھی جیسی عظیم شخصیت کو ذہنی تکلیف پہنچائی جا رہی ہے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ایدھی صاحب نے کہا کہ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ میرے ساتھ یہ سلوک ہوگا۔ ان کے صاحبزادے فیصل ایدھی نے وضاحت کی کہ میرے والد ٹھیک ہیں لیکن اس واقعے سے انھیں گہرا صدمہ پہنچا ہے۔

کل ان کی آنکھوں میں آنسو تھے، یہ روپے پیسے کی بات نہیں۔ اصل بات ان کے وقار کو ٹھیس پہنچائی گئی۔ پاکستانی عوام ایدھی کو ان کی بے لوث خدمات پر سلام پیش کرتے ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے دن بھی لوٹ مار کا بازار گرم تھا اور ایسی ایسی باتیں سامنے آئی تھیں جنھیں سن کر دل دہل گیا اور تقسیم ہند کے دردناک واقعات یاد آگئے تھے۔ پورا ملک دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔ لیکن حکومت کو خاصا اطمینان ہے کہ تحریک انصاف کا دھرنا بھی جلد ہی اختتام کو پہنچے گا لیکن بقول عمران خان کہ یہ حکومت کی خوش فہمی ہے اور وہ دھرنا اس وقت تک ختم نہیں کریں گے جب تک کہ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوجائیں۔ انھوں نے یہ بھی فرمایا کہ بلاول کو اردو بولنی نہیں آتی اسے ’’پارٹی‘‘ وصیت میں دے دی گئی، پولیس اور پولیس ڈپارٹمنٹ کے اعلیٰ حکام باپ بیٹے کی حفاظت کرتے رہے اور ایدھی لٹ گئے۔

وزیراعظم کے اس بیان نے بھی حیرت میں مبتلا کردیا کہ دھرنے دھرے رہ جائیں گے، پاکستان آگے نکل جائے گا۔ لیکن کیسے آگے نکلے گا، کیا پاکستان کے پر نکل آئے ہیں، یا وہ ہوائی جہاز میں بیٹھ گیا ہے؟ پاکستانی عوام کو اس وقت مزید حیرانی ہوئی جب ان کا یہ بیان سامنے آیا کہ ہمارا ایک بھی کرپشن اسکینڈل سامنے نہیں آیا؟ اگر ان کی اس بات پر یقین کرلیا جائے تو قادری اور عمران نے دھرنے کیوں دیے؟

کیوں انتخابات کی دھاندلی کے حوالے سے اہم شخصیات سامنے آئیں اور انھوں نے اپنے بیانات ریکارڈ کرائے، عمران خان بار بار یہ کہنے پر کیوں مجبور ہیں کہ ’’نواز شریف اپنے اثاثے ظاہر کردیں، دھرنا ختم کردوں گا۔‘‘ ہمارے ملک کے اہم ترین اداروں اور ان کے سربراہوں نے مظالم، ناانصافی کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے خاموشی اختیار کرلی ہے اور اسی خاموشی کا دوسرا نام بے حسی ہے، کچھ بھی ہوجائے پانی سر سے گزر جاتا ہے۔ غریب اور بھوکی عوام بلک رہے ہیں، سسک رہے ہیں، خوشی اور خوشحالی چند خاندانوں کو ہی میسر ہے، جو مقتدر ہیں، ورنہ تو ہر شخص کسی نہ کسی مشکل میں غیر منصفانہ رویے کا شکار ہے۔

تھرپارکر کی ہی مثال لے لیں، جہاں موت رقص کر رہی ہے اور معصوم بچے ہر روز بیماری اور اجل کا شکار ہو جاتے ہیں۔ تھرپارکر کا علاقہ ریگستان کی مانند ہوچکا ہے، سبزہ، اشجار، زراعت، کھیتی باڑی سب ختم، ہر طرف مٹی ہی مٹی اور نوحہ کناں ہوائیں چل رہی ہیں، اسی ویرانے میں مائیں اپنے معصوم بچوں کو گودوں میں لٹائے حسرت و یاس کی تصویر بن چکی ہیں، نہ رہنے کے لیے ٹھکانہ اور نہ پینے کے لیے پانی۔ پیپلز پارٹی کی مہربانی سے بے شمار منرل واٹر کی بوتلیں محض اپنے مفاد کے لیے چھپا دی گئیں، ان غریبوں کے منہ میں پانی نہیں گیا لیکن طمع پرستوں کو بھی فائدہ حاصل نہ ہوسکا، چونکہ گوداموں میں پانی خراب ہوگیا اور پینے کے قابل نہیں رہا۔

وزیراعظم نواز شریف نے اس بات کا نوٹس بھی لیا تھا اور ذمے داروں سے جواب طلب کیا تھا، لیکن ہمیشہ کی طرح بات ادھر ہی ختم ہوگئی۔ جب تک ملزمان کو کیفر کردار تک نہیں پہنچایا جائے گا ظلم اسی طرح پنپتا رہے گا اور موت بے قصور لوگوں کو نگلتی رہے گی اور حکومتیں اسی طرح تبدیل ہوتی رہیں گی۔ اگر ایسے میں کسی نے آواز اٹھائی تو کیا برا کیا؟ سچ کا ساتھ دینے والے بھی شامل ہوگئے، کوئی لمحہ ایسا ضرور آئے گا جب باطل کی شکست ہوگی۔

سندھ کے وزیراعلیٰ بھی بہت ساری خوبیوں کے مالک ہیں، انھوں نے ببانگ دہل یہ اعلان کردیا ہے کہ تھر میں کسی ایک فرد کا نام بتایا جائے جو بھوکا مرا ہو۔ ہماری حکومت 16 لاکھ افراد کو خوراک فراہم کر رہی ہے اور اب تک تھر میں 2 ارب روپے خرچ کیے گئے ہیں، انھوں نے مزید کہا کہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سالانہ دس فیصد بچے 5 سال کی عمر سے پہلے مر جاتے ہیں۔ حکومت گزشتہ چار سال سے تھر کے لوگوں کو مفت گندم مہیا کر رہی ہے، اور 16 لاکھ افراد کو خوراک جب کہ 46 ڈاکٹرز بھی تعینات کردیے ہیں۔

وزیراعلیٰ کی سندھ اسمبلی میں تقریر کے بعد میں یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ آخر یہ امداد تھرپارکر کے لوگوں تک کیوں نہیں پہنچتی ہے، ان کے تو چولہے ٹھنڈے پڑے ہیں۔

(جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔