یہ مرتبہ، یہ مقام، اﷲ اﷲ

ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی  اتوار 2 نومبر 2014
drtayyabsinghanvi100@gmail.com

[email protected]

بیہقی شریف کی ایک روایت سے معلوم چلتا ہے کہ سیدالشہدا امام حسین رضی اﷲ عنہ کی ولادت کے ساتھ ہی اﷲ عزوجل نے جبرائیل امین علیہ السلام کے ذریعے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو امام مظلومؓ کی شہادت اور واقعہ کربلا سے بھی مطلع فرما دیا تھا، چنانچہ آج چودہ سو برس گزر جانے کے بعد بھی واقعہ کربلا تاریخ انسانیت میں اسی طرح زندہ و تابندہ ہے جیسے یہ حال ہی کا واقعہ ہو۔ انسانیت واقعہ کربلا کو کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔

کربلا کی جنگ اصولی جنگ تھی، حق و باطل، سچ و جھوٹ کے درمیان ایک فیصلہ کن معرکہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک اس واقعے نے اپنا اثر نہیں کھویا، معرکہ کربلا کے اسباب اور سید الشہدا امام مظلوم حسین رضی اﷲ عنہ کی شہادت سے انقلاب آفرین نتائج کل بھی انسانی تاریخ و انسانی تہذیب و تمدن کا اثر انگیز اور جلی عنوان تھے اور آج بھی ہیں، جب کہ انسان کا ذہن اور قوت فکر فلک رسا بن گئی ہے لیکن حیات انسانی کی تاریخ کے اس روشن باب اور عظیم و جلیل واقعے کی اہمیت میں کوئی کمی نہیں واقع ہوئی۔

امام عالی مقامؓ نے کربلا کے میدان میں حق و باطل میں اپنے احباب اور خاندان کے افراد کی جو گراں قدر قربانی پیش کی وہ عالم انسانیت کے لیے رشد و ہدایت اور رہنمائی کا ایک عظیم باب اور تاریخ غیرت و حریت کا روشن ترین مینارۂ نور بن چکا ہے اور حقیقی معنوں میں آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ امام حسینؓ کی قربانیوں کو تاریخ تاقیامت فراموش نہیں کرسکے گی، آپؓ کی ان ھی قربانیوں کی بدولت آج پرچم اسلام سربلند ہے۔

امام حسینؓ نہایت عبادت گزار تھے، آپؓ کے طرز زندگی میں رسول خدا صلی اﷲ علیہ وسلم کا کردار نمایاں تھا اور آپؓ نے جو کچھ کیا وہ قرآن و حدیث کی روشنی میں کیا، آپؓ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ بادشاہوں کی بدترین صفات یہ ہیں کہ دشمنوں سے ڈریں، بے سہارا اور ناداروں پر رحم نہ کریں اور عطا و بخشش کے وقت بخل سے کام لیں۔ اہل بیت اطہار اور آل رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی شرافت و تکریم مسلم ہے۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہر نکاح اور نسبت کا رشتہ قیامت کے دن منقطع ہوجائے گا سوائے میرے سبب اور نسب کے، نبی رحمتؐ نے حضرت سلمان فارسیؓ کو بھی اپنے اہل بیت سے قرار دیا۔ ا سلام میں محمد رسول اﷲ ؐ سے جس کو جتنی زیادہ نسبت ہے وہ مسلمانوں کے نزدیک اتنا ہی عظیم المرتبت ہے، سید الشہدا امام حسینؓ کی قدر و منزلت کا اندازہ لگانے کے لیے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی یہ احادیث مبارکہ ہی کافی ہیں۔

٭ حسینؓ مجھ سے ہیں اور میں حسینؓ سے ہوں، مزید فرمایا ٭ حسنؓ اور حسینؓ جوانان جنت کے سردار ہیں اور ان کے پدر بزرگوار ان دونوں سے بہتر ہیں (ابن ماجہ) نبی کریم ؐ نے فرمایا ’’فاطمہؓ میرے وجود کا ٹکڑا ہے، سو جس نے اسے غضبناک کیا اس نے مجھے غضبناک کیا (صحیح بخاری)۔

٭ رسول اﷲ ؐ کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’بے شک حسنؓ اور حسینؓ دنیا میں میرے دو پھول ہیں (مشکوٰۃ)
٭ امیر المومنین حضرت علی المرتضیٰؓ فرماتے ہیں ’’حسنؓ سینے سے لے کر سر تک رسول اﷲؐ کے مشابہ اور حسینؓ سینے سے لے کر قدموں تک آپؐ کے مشابہ تھے (ترمذی)
مباہلہ کے اہم موقع پر جب نجران کے نصرانی مقابلے پر آنے کی ہمت ہی نہ کرسکے تب بھی ہمیں اعلیٰ ترین نفوس و اہل بیت اطہار ؓ آپؐ کے ہمراہ تھے جن کی اہمیت کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔

٭ رسول اﷲ ؐ دونوں شہزادوں کے لیے یہ دعا فرماتے کہ ’’اے اﷲ عز وجل! میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت فرما‘‘ (ابن ماجہ، ابوداؤد)
٭ امام ترمذی نے اپنی کتاب میں ایک روایت درج کی ہے کہ حضرت اسامہ بن زیدؓ فرماتے ہیں کہ میں کسی ضرورت کے لیے رات کے وقت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کوئی چیز چادر میں چھپائے ہوئے باہر تشریف لائے جب میں اپنی بات پوری کرچکا تو میں نے دریافت کیا کہ یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم! آپ چادر میں کیا چھپائے ہوئے ہیں؟ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے چادر ہٹائی تو اس کے نیچے سے حسنؓ اور حسینؓ ظاہر ہوئے، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا یہ دونوں میرے بیٹے اور میری بیٹی (فاطمہ رضی اﷲ عنہا) کے بیٹے ہیں، اے اﷲ عز وجل میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان دونوں سے محبت رکھ اور ان دونوں سے محبت کرنے والوں سے بھی محبت رکھ۔ (ترمذی شریف)

٭ حضرت سلمان فارسی ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے تھے ’’حسنؓ و حسینؓ میرے بیٹے ہیں، جس نے ان کو محبوب رکھا اس نے مجھ کو محبوب رکھا اور جس نے مجھے محبوب رکھا اس نے اﷲ عز وجل کو محبوب رکھا، اﷲ عز وجل نے اس کو جنت میں داخل کیا اور جس نے ان دونوں سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا اور جس نے مجھ سے بغض رکھا اس نے اﷲ عز وجل سے بغض رکھا اور جس نے اﷲ عز وجل سے بغض رکھا اﷲ عز وجل نے اس کو جہنم میں داخل کیا (المستدرک حاکم 166/3)
٭ حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’جس نے حسن ؓ اور حسینؓ کو محبوب رکھا اس نے در حقیقت مجھے محبوب رکھا اور جس نے ان دونوں سے بغض رکھا اس نے درحقیقت مجھ سے بغض رکھا (ابن ماجہ 64/1)

٭ حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ رسولﷺ نے فرمایا ’’لوگو! اﷲ تعالیٰ سے محبت رکھو کیوں کہ وہ تمہارا رب ہے اور تمہیں نعمتیں عطا فرماتاہے اور مجھے محبوب رکھو اﷲ کی محبت کی وجہ سے اور میرے اہل بیت کو محبوب رکھو میری محبت کی وجہ سے (ترمذی و مشکوٰۃ 573)
٭ ایک دوسرے مقام پر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ میرے اہل بیت کی مثال نوح علیہ السلام کی کشتی کی طرح ہے جو اس میں سوار ہوا اس نے نجات پائی اور جو باہر رہا وہ غرق ہوا۔
ان تمام مندرجہ بالا احادیث و روایات سے ثابت ہوا کہ اہل بیت اطہار کی محبت ہر ایک مسلمان پر واجب ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو حسنین کریمین رضی اﷲ عنہما سے کتنی محبت تھی کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان سے محبت کو اپنی محبت اور ان سے عداوت کو اپنی عداوت قرار دیا۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرامؓ اہل بیت اطہار ؓ سے بے حد محبت فرماتے اور ان کا انتہائی ادب و احترام کیا کرتے تھے۔
؎
اے کربلا کی خاک اس احسان کو نہ بھول
تڑپی ہے تجھ پہ لاش ِ جگر گوشہ ٔ بتول
اسلام کے لہو سے تیری پیاس بجھ گئی
سیراب کر گیا تجھے خون ِ رگ ِ رسول

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔