ہم گاڑی ریورس گیئر میں چلا رہے ہیں…

شیریں حیدر  اتوار 2 نومبر 2014
 Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

ماہ محرم … جس کا تقدس اور حرمت سب پر واضح ہے، اسلامی سال کا آغاز، اسی ماہ مبارک میں دنیا کا آغاز ہوا ، دنیا کے ہزاروں اہم واقعات بھی اسی مہینے میں ہوئے اور اسی مہینے میں قیامت واقع ہو گی۔ قیامت… جو ہر روز ٹوٹتی ہے ، دنیا میں، اس ملک میں، اس ملک کے شہر شہر میں ، گھروں پر اور دلوں پر۔ قیامت ٹوٹ پڑنے کا محاورہ عام ہے اور ہم ہر چھوٹی بڑی آزمائش اور مصیبت پر بلک اٹھتے ہیں اور بے سوچے سمجھے کہہ دیتے ہیں کہ ہم پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ کسی بھی کیفیت کو بیان کرتے وقت دنیا کی ہر لغت نا مکمل نظر آنے لگتی ہے، غم… ایک ایسی کیفیت ہے کہ جس میں دل کا حال یہی ہوتا ہے جیسے اجڑی ہوئی کوئی نگری، حلق میں سانس اٹک اٹک جاتی ہے، سینے پر ایک بوجھ سا آن پڑتا ہے اور سر بھاری ہو جاتا ہے، کچھ، کہیں ، کیسا بھی اور کوئی اچھا نہیں لگتا اور اپنا وجود بھی بے معانی سا لگنے لگتا ہے۔

آج دنیا میں ہر طرف قتل و غارت کا بازار گرم ہے، دنیا کے درجنوں ممالک میں سب سے سستی جنس انسانی زندگی بن گئی ہے، پاکستان بھی دنیا کے ان بد قسمت ممالک میں سے ایک ہے ، یہاں جان لینے والی گولی… جان بچانے والی گولی سے کہیں سستی ہے، ہماری دھرتی ماں، اپنے سپوتوں کے لہو میں نہا جاتی ہے، اس کا سینہ غم سے بھر جاتا ہے، جن پیاروں کو سالوں میں پروان چڑھاتی ہے، ایک بے رحم گولی، ایک خود کش دھماکا، ایک خنجر یا چاقو کا وار… اور جان دنیا سے پار۔ کہاں تک سکت ہے اس زمین میںاس لہو کو چوسنے کی، کہاں تک اس کا کلیجہ اس غم کو اپنے اندر اتار سکتا ہے، کلیجہ جو غم سے پھٹ بھی جاتا ہے۔

ہماری انگلی پر ایک ہلکا سا زخم بھی آئے تو سسک پڑتے ہیں، دانت کا درد اٹھے تو دنیا کی ہر نعمت سے دل اٹھ جاتا ہے، سر میں در ہو تو بے بسی سے ناشکری کی انتہا کو پہنچ جاتے ہیں، کوئی چیز کھو جائے تو سب کچھ ہیچ لگنے لگتا ہے، کچھ چھین لیا جائے تو دست و دامن تہی لگنے لگتے ہیں… اور اگر ہمارے کسی پیارے کی موت واقع ہو جائے، کسی بھی طرح تو… قیامت کہتے ہیں ہم اسے!! قیامت ، کہ جس کی اصل شدت اور نوعیت کا شاید ہم اندازہ بھی نہیں کر سکتے۔

ہم مسلمانوں کو کچھ عرصے تک… بغیر کسی فرقے اور طبقے کی تفریق کے، ماہ محرم میں ایک جیسا غم ہوتا تھا، اس غم کو ہم دنیا کا سب سے بڑا غم سمجھتے تھے، نواسہء رسول ﷺ کی اپنے خاندان سمیت، میدان کربلا میں، دریائے فرات کے عین کنارے… پیاس سے بلکتے اور یزیدیت کے مظالم کے باعث شہادت۔ غم حسینؓ چودہ سو سال گذر جانے کے بعد بھی زندہ اور تازہ ہے۔

اپنے بچپن کے وقت کو ہی یاد کیا جائے تو ایک ایک محرم نظروں کے سامنے سے گزر جاتا ہے۔ یاد آتا ہے کہ ماہ محرم کا آغاز ہی یوں ہوتا تھا جیسے پرانے زخموں کے کھرنڈ اتر جائیں اور ان سے پھر لہو بہنے لگے۔ جیسے غم کے گلابوں پر پھر موسم بہار آ جائے۔ ’’محرم … غم کا موسم ‘‘ کی آواز کانوں میں گونجتی ہے… یاد آتی ہیں وہ گلیاں اور وہ کوچے کہ جن میں سب مسلمان رہتے تھے، فرقے کیا تھے ۔

اس وقت کسی کو معلوم نہ تھا، یہ تفریق جتنی واضح آج ہے، پہلے کبھی نہ تھی۔ معلوم تھا تو اتنا کہ محلے میں ہم سب میں سانجھ ہے، اگر حقوق العباد میں بتایا گیا کہ ہمسائے کے حقوق کیا ہیں تو سب کے اذہان میں اس کی اہمیت تھی، سب جانتے تھے کہ ایک مقام پر آنحضور ﷺ نے فرمایا کہ اللہ نے ہمسایوں کے اس قدر حقوق بتائے ہیں کہ انھیں لگا کہ شاید ہمسایوں کو وراثت میں بھی حقدار ٹھہرایا جائے گا ۔ ہمسائے میں کافر ، عیسائی، ہندو، مسلمان … اس کی تفریق نہیں، ہمسایہ تو ہمسایہ ہے۔

مجھے یاد ہے کہ محرم کے آغاز سے ہی ہر گھر میں سوگ اور غم کی کیفیت ہوتی تھی، بلا تفریق کہ کون کس فرقے سے ہے ،تمام فرقے ایک دوسرے کے عقائد کا احترام کرتے اور ماہ محرم میں ، کم از کم ، پہلے دس دن تک کسی قسم کی بے حرمتی کے مرتکب نہ ہوتے، نہ کوئی گانا بجانا ہوتا ، نہ خوشی کی کوئی تقریب… اور تو اور ہمارے ٹیلی وژن پر موسیقی محرم کے پہلے دس دن تک سنائی نہ دیتی تھی، خواہ وہ کوئی اشتہار ہی ہوتا۔

محرم کا اپنا ایک رنگ ہوتا تھا، حزن کا رنگ، ملال کا رنگ، سوگ کا رنگ، غم کا رنگ، دکھ کا رنگ… اس سب کیفیات کی ترجمانی کرتا سیاہ رنگ، سب پہنتے تھے، بالخصوص عورتیں، خواہ ان کا تعلق کسی بھی فرقے اور طبقے سے ہو۔

تعزیے کے جلوس بھی سب دیکھنے جاتے… حلیم ، ہریسے اور کھچڑے کے پکوان ہر گھر میں پکتے ، مجلسوں میں ذکر کے فرائض انجام دینے والی ’’ باجی‘‘ محلے کے ہی کسی عام سے گھر کی خاتون ہوتیں جو ماہ محرم میں، محافل میں مرثیے اور ذکر کے علاوہ ، ایک عام عورت تھی جن کا محلے میں ہر گھر میں آنا جانا، سلام دعا، دوستی ہوتی تھی۔ تھوڑا عرصہ قبل، اسکول میں والدین اور اساتذہ کی میٹنگ تھی، میں اپنے دفتر سے نکلی تو سیاہ لباس میں ملبوس کمانڈو نما باڈی گارڈز اسکول کی عمارت میں چہار اطراف نظر آئے، دل میں جانے کیسے کیسے خیالات آئے اور استفسار پر معلوم ہوا کہ ایک مشہور مذہبی خاتون کے بچے ہمارے اسکول میں پڑھتے ہیں ۔

ان کی جان کو لاحق بہت سے خطرات کی وجہ سے انھیں … اس ’’ پروٹوکول‘‘ کے ساتھ چلنا پڑتا ہے، میں حیرت کے سمندر میں غوطہ زن اس کلاس کی طرف چلی جس میں موصوفہ اپنے بچوں کے اساتذہ سے بات چیت کر رہی تھیں، وہ اتنی دبلی پتلی ، اسمارٹ خاتون تھیں کہ یہ سب ان کی شخصیت سے میل ہی نہ کھا رہا تھا۔ اگر وہ خاموشی سے، ایک ڈرائیور کے ساتھ آ کر اسکول سے اپنے بچوں کے رپورٹ کارڈ لے کر چلی جاتیں تو کسی کو معلوم ہی نہ ہوتا… مگر ہم سب اس معاشرے کے افراد ہیں جہاں ہم اپنی طاقت، شخصیت اور دولت کو دوسروں کو دکھانے کے خواہش مند ہوتے ہیں اور اس کے لیے ہمیں ایسے حربے استعمال کرنا پڑتے ہیں۔

اب جب ٹیلی وژن اور اخبارات میں سیکیورٹی الرٹ اور مستقبل کے خطرات کی بابت خبریں سنتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے کہ دنیا میں ترقی ہو رہی ہے اور ہم اس شاہراہ پر اپنی گاڑی ’’ریورس‘‘ گیئر میں چلا رہے ہیں!!!

انسانیت کی معراج یہ ہے کہ جیو اور جینے دو… کسی کے مذہب کو برا نہ کہو نہ کسی کے عقائد کو، ہر کسی کو اپنے مذہب، اپنے عقائد اور اپنی سوچ کے مطابق زندگی گزارنے کا پورا اختیار ہے اور دوسروں کے عقائد پر تنقید کا کسی کو حق حاصل نہیں، شرک کرنیوالوں اور مرتد ہو جانیوالوں کے لیے جو سزائیں ہیں وہ واضح ہیں۔ محرم کے آغاز سے ساتھ ہی ہم سنتے ہیں کہ ملک کا چپہ چپہ حساس علاقہ بن جاتا ہے، ماتمی جلوسوں اور مجلسوں پر حملوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے… ٹیلی وژن آن کرتے وقت لگتا ہے کہ کوئی نہ کوئی بری خبر سننے کو ملے گی!!! کیا ہم نے کبھی سوچا کہ اس ملک میں اغیار کی مداخلت سے کتنے ہی مسائل نے جنم لیا ہے؟؟

سنتے ہیں کہ فلاں فرقے کو فلاں ملک sponsor  کر رہا ہے اور اس کے مخالف فرقے کو اس ملک کا مخالف ملک… ہم کیوں بے وقوف بنے ہوئے ہیں ان لوگوںکے ہاتھوں اور اپنے ملک کو میدان جنگ بنا رکھا ہے ، ان کے مفادات کی جنگ میں لڑ رہے ہیں اور اپنے ہی پیاروں کو مارتے ہیں، اپنی ہی دھرتی کو، اپنے ہی لہو سے لہو رنگ کر دیا ہے، ان کا کلیجہ غم سے بوجھل کر دیا ہے… کیا ہمارے اپنے دماغ نہیں ہیں، کیا ہمیں اپنے مفادات کی پروا نہیں ہے، کیا ہم اپنے ملک سے وابستہ کوئی اچھی بات نہیں سننا چاہتے؟

کیا اسی کو ملک سے محبت کہتے ہیں کہ ہماری ہی حرکتوں کے باعث … ہمیں کٹھ پتلیوں کی طرح ہلانے والے لوگ، پورے وثوق سے کہتے ہیں کہ ہم چند ٹکوں کے عوض اپنی ماں کو بھی بیچ دینے والے لوگ ہیں، یہاں تو شاید ہم یہ سب سن کر فراموش کر دیتے ہیں مگر جب ملک سے باہر جاتے ہیں تو ہمارے ماتھے پر ناپسندیدہ انداز میں لکھا ہوا ہوتا ہے کہ ہم پاکستانی ہیں، ہاتھ میں پکڑا ہوا پاسپورٹ جسے ہم شاید فخر سے پکڑے ہوئے ہوتے ہیں، مگر سامنے والے ہمیں عام قطار سے علیحدہ ہو کر کھڑا ہونے کو کہتے ہیں، کیونکہ ہم دہشت گرد مشہور ہیں ، ہم بدنام ہیں کہ ہم پیسے کے علاوہ… صوبائی، لسانی، فرقے، ذات، برادری پر لڑنیوالے… اپنے ہی پیاروں کو مارنیوالے ہیں۔سب سے بڑا غم یہی ہے کہ ہمیں اس المیے کا احساس ہی نہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔