ہائے.....کس وقت خدا یاد آیا

ایم جے گوہر  اتوار 2 نومبر 2014

ایک بے وقوف حضرت عیسیٰ ؑ کا شریک سفر تھا، اس نے ایک گہرے گڑھے میں ہڈیاں دیکھ کر کہا کہ اے روح اللہ! وہ کیا نام پاک ہے جس سے تو مردوں کو زندہ کرتا ہے، مجھے بھی تو وہ اسم پاک سکھا دے تاکہ ان پرانی ہڈیوں میں جان ڈال دوں۔ حضرت عیسیٰ ؑ نے فرمایا، تو چپ رہ یہ کام تیرا نہیں، تیرا دم اور تیری زبان اس کام کے لائق نہیں۔ اس نے کہا کہ خیر اگر میں ان اسرار کو زبان پر نہیں لاسکتا تو، تو ہی ان ہڈیوں پر کچھ پڑھ کر دم کردے۔ حضرت عیسیٰ ؑ نے اپنے دل میں کہا کہ الٰہی یہ بھید کیا ہے۔

اس بیوقوف کو اتنا اصرار کیوں ہوگیا ہے۔ اس بیمار کو اپنا غم کیوں نہیں اور اس مردار کو اپنی جان کی فکر کیوں نہیں۔ اس نے اپنے مردے کو چھوڑ دیا ہے اور بیگانے مردے جلانے چاہتا ہے۔ خدا نے وحی نازل کی کہ بداقبالی کو بداقبالی ہی کی تلاش ہوتی ہے کیونکہ کانٹوں کا اگنا ان کے بوئے جانے کا بدلہ ہے۔ جب حضرت عیسیٰ ؑ نے دیکھا کہ وہ بے وقوف ہم سفر سوائے بحث و تکرار کے ایک قدم بڑھنا نہیں چاہتا اور اپنی بے عقلی کی وجہ سے کوئی نصیحت قبول نہیں کرتا بلکہ اپنی گم راہی کی وجہ سے (معجزہ نہ دکھانے کو) بخل سمجھتا ہے تو حضرت عیسیٰ ؑ نے اس کی درخواست کے مطابق ان ہڈیوں پر خدا کا نام لے کر دم کیا۔ خدا کے حکم سے وہ ہڈیاں زندہ ہوگئیں۔ یکایک دیکھا کہ وہ تو ایک شیر سیاہ تھا۔ اس نے ایک چھلانگ ماری اور پنجہ مار کر اس شریک سفر کو پھاڑ ڈالا۔ اس کا سر توڑ کر بھیجا پاش پاش کردیا اور اس کا خول ایسا رہ گیا جیسے اس میں کبھی مغز تھا ہی نہیں۔

آپ حضرت مولانا روم کی مذکورہ حکایت کو سامنے رکھیے اور مولانا طاہر القادری کے لاہور سے شروع ہونے والے ’’انقلابی سفر‘‘ سے لے کر اسلام آباد کے ڈی چوک پر 70 روز پڑاؤ کے بعد دھرنے کے خاتمے کے اعلان تک ان کے بیانات، تقاریر، انٹرویوز اور گفتگوؤں کا جائزہ لیجیے اور ان کے ’’انقلابی دھرنے‘‘ کے مقاصد و اہداف اور اس کے اسباب و عوامل و محرکات پر نظر ڈالیے پھر ملک بھر کے ممتاز دانشوروں، مبصرین، تجزیہ نگاروں اور صحافیوں کی آرا کا بھی مطالعہ کیجیے تو یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں نظر آتی ہے کہ مولانا طاہر القادری بھی حضرت عیسیٰ ؑ کے شریک سفر کی طرح محض اپنی ضد، انا پرستی، بودے طرز عمل اور غیر سنجیدہ و غیر لچکدار رویوں کے باعث ماہرین و مبصرین کے تمام تر مشوروں کو نظرانداز کرکے ’’انقلاب‘‘ کے خیالی پلاؤ پکاتے اپنے چند ہزار مریدوں و پیروکاروں کو لے کر اسلام آباد کے ڈی چوک پہنچ گئے۔

ادھر تحریک انصاف کے کپتان عمران خان بھی اپنی آنکھوں میں نیا پاکستان بنانے کا خواب سجائے اپنے گنے چنے ٹائیگرز کے ساتھ اسلام آباد کے ڈی چوک پہنچ گئے اور پھر ریڈزون کے سفر تک دونوں رہنماؤں نے وزیراعظم میاں نواز شریف سے استعفیٰ لیے بغیر دھرنے ختم کرنے اور واپس نہ آنے کے بلند بانگ دعوے کیے۔ لندن پلان سے لے کر راولپنڈی پلان تک کی کئی کہانیاں بھی گردش کرتی رہیں، جس میں جاوید ہاشمی نے بھی اپنا بھرپور باغیانہ کردار ادا کرکے رنگ میں بھنگ ڈالا، جبکہ وزیراعظم میاں نواز شریف کی پشت پر آرمی چیف، سابق صدر زرداری اور پوری پارلیمنٹ جمہوریت کو بچانے کے لیے کھڑی ہوگئی۔

دھرنا لیڈروں میں مایوسی بڑھنے لگی تو واپسی کی آبرومندانہ راہیں تلاش کی جانے لگیں۔ عمران خان نے شہر شہر جلسے سجانے میں عافیت جانی اور اسلام آباد کا دھرنا محض علامتی ’’نائٹ شو‘‘ تک محدود ہوگیا۔ عمران خان اسپورٹس مین ہے، اس کا اسٹیمنا ابھی باقی ہے اسی لیے وہ تادم مرگ کہ جب تک وزیراعظم میاں نواز شریف استعفیٰ نہیں دے دیتے، ٹینٹ میں بھی اکیلا ڈی چوک پر بیٹھنے کو تیار ہے۔

البتہ مولانا قادری صاحب ہمت ہار گئے۔ موصوف نتائج و انجام سے بے پرواہ دھرنے میں شریک اپنے پیروکاروں، مریدوں، معتقدین کا، جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے، 70 دن تک لہو گرماتے رہے اور وہ بے چارے بھی شدید بارشوں، تیز ہواؤں اور موسم کی سختیوں کے باوجود اس امید پر کہ ان کا قائد و رہبر حق و سچ کی آواز بلکہ للکار بن کر انھیں اور ان کی آئندہ نسلوں کو اپنے وعدوں و دعوؤں کے مطابق اس ملک کے ظالم جاگیرداروں، وڈیروں، سرمایہ کاروں اور وقت کے ناخداؤں کے جبروستم سے نجات دلانے کے لیے انقلاب برپا کیے بغیر یہاں سے نہیں جائے گا، اپنا گھر بار چھوڑ کر 70 روز تک ڈی چوک پر دھرنا دیے بیٹھے رہے۔

ان کے ذہنوں میں مولانا طاہر القادری کے یہ کلمات گونجتے رہے کہ سرکار مدینہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ تمام لوگ بھی چلے جائیں تو میں اکیلا ہی یہاں بیٹھا رہوں گا اور جب تک انقلاب نہیں آجاتا یہاں سے نہیں جاؤں گا۔ افسوس کہ مولانا قادری نے قبریں بھی کھدوا دیں، کفن بھی اوڑھا دیے، لیکن ساری محنت رائیگاں چلی گئی۔ دھرنے کے اہداف و مقاصد حاصل کرنے میں واضح ناکامی کے باعث مولانا قادری کے ’’انقلابی غبارے‘‘ سے ہوا نکل گئی۔ چار و ناچار انھیں دھرنے کے خاتمے کا اعلان کرنا پڑا۔ ادھر ڈیل کی خبریں اخبارات کی زینت بننے لگیں۔ مولانا طاہر القادری کے مریدین، معتقدین و پرستار شدید مایوسی کے عالم میں بوجھل قدموں کے ساتھ، منہ چھپائے اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے اور حضرت مولانا عمران خان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے شہر شہر جلسے کرکے اپنے انقلابی دھرنے کی خفت مٹانے اور کینیڈا واپسی کے لیے راہیں ہموار کرنے کی خاطر بودی تاویلیں اور بے سروپا دلیلیں پیش کر رہے ہیں، بقول شاعر:

جو بیچتے تھے دوائے دل
وہ دکان اپنی بڑھا چلے

مولانا طاہر القادری نے جوش و جذبات کی رو میں بہہ کر گزشتہ سال جنوری میں بھی اسلام آباد میں انقلاب کا میلا لگایا تھا جو کاغذی ڈیل کی فائلوں کی خوراک بن گیا اور مولانا حسرت و یاس کی تصویر بنے دل برداشتہ و شکستہ کینیڈا سدھار گئے تھے۔ اسلام آباد دھرنے کی ناکامی کے بعد وہ پھر کینیڈا واپس جانے کے لیے راہیں ہموار کر رہے ہیں۔ فرماتے ہیں اس بار میرا ملک سے باہر جانا واپس آنے کے لیے ہے، میں سو مرتبہ باہر جاؤں لیکن واپس عوام میں آؤں گا اور انقلاب لائے بغیر ملک سے واپس نہیں جاؤں گا۔ مولانا نے مزید فرمایا کہ انتخابات کا میدان خالی نہیں چھوڑیں گے اور ان کی جماعت عام انتخابات سمیت ضمنی و بلدیاتی الیکشن میں حصہ لے گی۔ اسے مولانا قادری کی ایک اور سادگی ہی کہیے کہ انقلابی دھرنے میں ناکامی کے بعد انتخابی میدان میں کامیابی کی خوش فہمی کا شکار ہیں۔

حالانکہ ملک کے کسی صوبے میں ان کا کوئی مستند ووٹ بینک نہیں ہے اور فی الحال ملک میں نواز حکومت کے خاتمے اور عام انتخابات کے انعقاد کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا ہے۔ خود مولانا فرماتے ہیں اور کیا خوب فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فوری طور پر نواز حکومت کو گرانا نہیں چاہتا۔ مولانا کو الہام بہت تاخیر سے ہوا، اگر انقلاب مارچ شروع کرنے سے قبل انھیں یہ ’’غیبی خبر‘‘ مل جاتی تو قوم کو 70 روز تک ’’انقلابی مشقتوں‘‘ کا عذاب نہ سہنا پڑتا۔ غالباً شاعر نے ایسے ہی کسی موقع پر کہا تھا کہ:

ہائے کم بخت کو کس وقت خدا یاد آیا

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔