(پاکستان ایک نظر میں) - انٹری ٹیسٹ یا میرٹ کا قتل

وقار احمد شیخ  منگل 4 نومبر 2014
حکومتی سطح پرتعلیم کا معیار بہتر بنانےاور دہرے نظام تعلیم سےچھٹکارا حاصل کرنے کیلئے بڑےاور اہم فیصلوں کی اشد ضرورت ہے۔ فوٹو فائل

حکومتی سطح پرتعلیم کا معیار بہتر بنانےاور دہرے نظام تعلیم سےچھٹکارا حاصل کرنے کیلئے بڑےاور اہم فیصلوں کی اشد ضرورت ہے۔ فوٹو فائل

آپ اپنے شعبے میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے بعد اگلے درجے کے اہل قرار پائیں اور جب وہاں پہنچیں تو علم ہو آپ کی بہترین کارکردگی یقیناً نچلے درجے کے لئے تو کافی تھی لیکن اگلے درجے کے لیے آپ کو ایک اور امتحان سے گزرنا ہوگا تو آپ کی کیفیت کیا ہوگی؟ کچھ ایسی ہی کیفیت سے وہ طلبا گزرتے ہیں جو امتحانات میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرنے اور بہترین نتائج کے باوجود اگلے شعبے میں داخلے کے لئے انٹری ٹیسٹ پر مجبور کردیے جاتے ہیں، یہاں تک کہ پوزیشن ہولڈر طلبا بھی اپنے رزلٹ کارڈ کو تھامے خود سے یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا ان کے شاندار نمبرز بھی ان کی اہلیت پر سوالیہ نشان ہیں جو انہیں متعلقہ شعبے میں داخلے کے لیے ایک بار پھر امتحان سے گزرنا ہے۔ 

ان دنوں پنجاب میں طالب علموں کی جانب سے انٹری ٹیسٹ کے خلاف احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ طلبا نے انٹری ٹیسٹ کو میرٹ کا قتل قرار دیتے ہوئے حکومت سے انٹری ٹیسٹ فی الفور ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ طلبا کا کہنا ہے کہ ہر سال ذہین اور پوزیشن ہولڈر طلبا کو انٹری ٹیسٹ کے ذریعے میڈیکل اور انجینئرنگ کالجز میں داخلے سے محروم کردیا جاتا ہے، ایک طرف پسماندہ علاقوں کے طلبا بڑے شہروں جیسے وسائل سے محروم ہیں تو دوسری طرف انہیں انٹری ٹیسٹ کی تیاری کے لئے ٹیوشن کی مد میں ہزاروں روپے خرچ کرنا پڑتے ہیں۔ احتجاجی طلبا نے انٹری ٹیسٹ کو ذہین طلبا کے خلاف ظالمانہ اقدام قرار دیا ہے۔

خرابی کا اصل سبب کیا ہے؟ ہمارا دہرا نظام تعلیم یا پھر کرپٹ معاشرہ؟ اس حقیقت کا اعتراف نہایت تکلیف دہ ہے کہ کرپشن نہ صرف ہمارے ملک کے ہر ادارے میں بلکہ معاشرے کے ہر فرد میں بھی سرائیت کرچکی ہے۔ تعلیم کا شعبہ بھی اس سے مبرا نہیں۔ اس کے ساتھ ہی ہم دہرے نظام تعلیم کو بھی نظر انداز نہیں کرسکتے۔ یقیناً ہمہ جہت محرکات ہیں جو اس سسٹم کی خرابی کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ اگر انٹری ٹیسٹ کے حق میں دلائل دئیے جائیں تو بہت سی باتیں بیان کی جاسکتی ہیں جو ٹیسٹ کے انعقاد کو درست ثابت کرسکیں۔ انگلش، اردو میڈیم کے چکر میں پھنسے ’’آدھے تیتر آدھے بٹیر‘‘ ہوں یا پھر او/اے لیول یا میٹرک سسٹم کے ذریعے پڑھنے والے، ایک نئے درجے میں داخلے کے لیے دونوں کی صلاحیتوں کا جانچنا لازمی امر ہوجاتا ہے، پھر امتحانی نتائج پر اٹھتی انگلیاں بھی نظر انداز نہیں کی جاسکتیں۔ کون نہیں جانتا کہ اسکول لیول پر ہی نہیں بلکہ بورڈ سطح پر بھی ’’پوزیشن‘‘ خریدنا یا ’’پاس‘‘ ہونا کس قدر آسان ہے، بس آپ میں قوت خرید اور سکت ہو۔ کیا دوران امتحان نقل کا رجحان طلبا کی صلاحیتوں کو مشکوک نہیں بناتا؟ امتحان میں نقل کی بنیاد پر پاس ہونے والا طالب علم کیا حقیقی معنوں میں اگلے درجے میں داخلے کا اہل ہوسکتا ہے؟ کیا رزلٹ کارڈ ہی طالب علم کی صلاحیتوں کا حقیقی نمائندہ ہے۔ کیا ایسے طالب علموں کو بغیر ٹیسٹ لئے اگلے درجے میں داخل کرنا درست اقدام ہوسکتا ہے؟

لیجیے! ان باتوں سے تو بلاگ کا مقصد فوت ہوتا نظر آرہا ہے، ہم ابتدا میں انٹری ٹیسٹ کو میرٹ کا قتل قرار دے بیٹھے اور خود ہی انٹری ٹیسٹ کے حق میں دلائل بھی دینے شروع کردیے۔ لیکن بجا محسوس ہوتا ہے کہ تجزیہ غیر جانبداری سے کیا جائے۔ یہ سب دلائل اپنی جگہ لیکن ہم بنیاد کو کیسے بھول سکتے ہیں۔ اگر ہر چور، ڈکیت اور قاتل یہ رونا لے کر بیٹھ جائے کہ معاشرے نے اسے اس انتہائی اقدام پر مجبور کیا ورنہ وہ تو بہت فرشتہ صفت انسان تھا، تو چاہے جو بھی مجبوری رہی ہو اس کا جرم نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، اسی طرح نظام تعلیم کی بنیادی خرابی کو دور کرنا ازحد ضروری ہے، ورنہ ’’نقص زدہ مال‘‘ مارکیٹ میں یونہی سپلائی ہوتا رہے گا۔

جہاں تک بات پوزیشن خریدنے یا نقل سے پاس ہونے کی ہے تو کیا انٹری ٹیسٹ کے نتائج کو 100 فیصد درست قرار دیا جاسکتا ہے؟ معاشرے میں لگی کرپشن کی دیمک کا ذکر ہم پہلے ہی کرچکے ہیں، جب بورڈ امتحانات میں پیسے دے کر پیپر کلیئر کروایا جاسکتا ہے تو انٹری ٹیسٹ لینے والے بھی اسی معاشرے کے فرد ہیں۔ اس موضوع کو قطع کرتے ہوئے ’’ہوائی الزامات‘‘ سے گریز کرتے ہیں اور بنیادی خرابی کا تذکرہ کرتے ہیں۔ سب سے پہلے قصوروار ہمارا پست اور دہرا نظام تعلیم ہے، اس کے بعد تعلیم کا ’’منافع بخش کاروبار‘‘ بن جانا ہے۔ حقیقی معنوں میں تعلیم کو کاروبار کا روپ دینے والے زیادہ قصوروار ہیں، اور زیادہ سے زیادہ ’’منافع‘‘ کا حصول ہی دہرے نظام تعلیم کے پنپنے کا باعث ہے۔ اگر انٹری ٹیسٹ کا ناقدانہ جائزہ لیا جائے تو وہاں بھی ’’کمائی کا چکر‘‘ ہی اصل وجہ دکھائی دیتی ہے۔

ہم یونہی فرض کرلیتے ہیں کہ ایک کالج کے کسی شعبے میں داخلے کے لیے 50 سے 60 نشستیں ہیں، لیکن ان ہی نشستوں پر تقریباً 1500 طالب علموں سے ٹیسٹ لیا جاتا ہے، نتیجہ ظاہر ہے کہ 1450 طالب علم ہر حال میں فیل ہوں گے، اب آجائیں فیس کی طرف، یہاں بھی ہم حقیقی اعداد و شمار کے بجائے فرض کرلیتے ہیں کہ فی طالب علم 500 روپے حاصل کیے جاتے ہیں، اس طرح یہ رقم 7 لاکھ 50 ہزار روپے بنتی ہے۔ کیا انٹری ٹیسٹ کے انعقاد میں اس قدر خرچہ آتا ہے؟ کیا فیل ہونے والے 1450 طالب علموں کو یہ رقم واپس کردی جائے گی؟ کالج کو صرف انٹری ٹیسٹ کی مد میں کس قدر ’’منافع‘‘ حاصل ہورہا ہے؟ اس بات سے بھی سب واقف ہیں کہ انٹری ٹیسٹ میں مختلف سطح پر مختلف فیسیں رائج ہیں، اور امیدوار طلبا بھی ہزاروں کی تعداد میں ہوتے ہیں، یعنی ہمارا پیش کیا گیا فارمولا اصل اعداد و شمار کا عشر عشیر بھی نہیں۔ تو پھر اس قدر منافع بخش اقدام کو کون سا کاروباری ادارہ ترک کرنا چاہے گا؟

حکومتی سطح پر تعلیم کا معیار بہتر بنانے اور دہرے نظام تعلیم سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے بڑے اور اہم فیصلوں کی اشد ضرورت ہے، محض ’’لیپاپوتی‘‘ سے کام چلایا نہ جائے گا۔ انٹری ٹیسٹ میں قابلیت کو جانچنے کے بجائے تعلیمی نظام سے نقل اور بوٹی مافیا کا مکمل خاتمہ کرکے رزلٹ کو شفاف بنایا جاسکتا ہے۔ ایک طالب علم جو بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرکے پاس ہوتا ہے یہ اس کا حق ہے کہ اسے اگلے درجے میں بنا کسی ٹیسٹ کے داخل کیا جائے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

وقار احمد شیخ

وقار احمد شیخ

بلاگر جامعہ کراچی سے بین الاقوامی تعلقات میں ماسٹرز اور گزشتہ بیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ کالم نگاری کے علاوہ کہانیوں کی صنف میں بھی طبع آزمائی کرتے رہے ہیں۔ اپنے قلمی نام ’’شایان تمثیل‘‘ سے الگ پہچان رکھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔