- پاکستان اورآئی ایم ایف کے درمیان اضافی ریونیو پر اتفاق
- والدین اور بھائیوں نے بہن کو قتل کرکے لاش تیزاب میں ڈال دی
- کبھی نہیں کہا الیکشن نہیں کروائیں گے، وزیر اطلاعات
- پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں مظلوم کشمیری عوام سے اظہار یکجہتی کی قرارداد منظور
- ترکیہ کے المناک زلزلے پر بھی بھارت کا پاکستان کیخلاف پروپیگنڈا
- راولپنڈی میں گیارہ سالہ بچی سے زیادتی
- امریکا؛ ڈکیتی کے دوران مزاحمت پر گولی لگنے سے پاکستانی نژاد پولیس افسر جاں بحق
- اگر کوئی لڑکی محبت کا اظہار کرے تو میں کیا کرسکتا ہوں، نسیم شاہ
- پنجاب، خیبر پختونخوا میں بلدیاتی اداروں کی معطلی کا نوٹیفکیشن اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج
- حکومت کا پیٹرول کی قیمت بڑھانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے، ذخیرہ اندوز باز آجائیں، وزیر پیٹرولیم
- سعودی ولی عہد کا ترکیہ اور شام کو امداد پہنچانے کیلیے فضائی پُل بنانے کا حکم
- پی ٹی آئی کا 33 حلقوں پر ضمنی انتخابات کی تاریخ تبدیل کرنے کا مطالبہ
- انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قدر میں کمی آگئی
- انڈے کھانے سے دل کو فائدہ ہوسکتا ہے
- گلیشیئر پگھلنے سے پاکستان اور بھارت میں 50 لاکھ افراد متاثر ہوسکتے ہیں
- کابینہ میں توسیع؛ وزیراعظم نے مزید 7 معاونین خصوصی مقرر کردیے
- ہالینڈ میں زیرِ آب سائیکلوں کی سب سے بڑی پارکنگ کی تعمیر کا منصوبہ
- فاسٹ بولر وہاب ریاض کی پی ایس ایل میں شرکت پر سوالیہ نشان لگ گیا
- اسلام آباد؛ شادی شدہ خاتون کی نازبیا تصاویر بنوانے والا پولیس اہلکار گرفتار
- الیکشن کمیشن ہنگامہ آرائی: تحریک انصاف کے عامر ڈوگر اور لیگی سینیٹر گرفتار
گندم کی امدادی قیمت کا اعلان

ایک ترقی پذیر ملک ہونے کے ناتے پاکستان میں عام آدمی کی خوراک کا بنیادی عنصر گندم ہے، فائل فوٹو
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے 2014-15 کی فصل کے لیے گندم کی امدادی قیمت 1300 روپے فی چالیس کلو گرام مقرر کرنے کی منظوری دیدی ہے‘ وزارت خزانہ کے اعلامیہ کے مطابق گندم کی امدادی قیمت بڑھانے کا فیصلہ کسان برادری کو سہولت فراہم کرنے اور انھیں ان کی پیداوار کا بہتر معاوضہ کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے کیا گیا ہے تاکہ کسان خوشحال ہو سکے۔
زراعت ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے ایک ترقی پذیر ملک ہونے کے ناتے پاکستان میں عام آدمی کی خوراک کا بنیادی عنصر گندم ہے۔ اس لیے گندم کی کمی یا اس کی قیمت میں اتار چڑھائو سے پورا ملک متاثر ہوتا اور حکومت کے خلاف عوامی اشتعال اور احتجاج میں اضافہ ہو جاتا ہے، اگر اس پر بروقت قابو نہ پایا جائے تو یہ احتجاج حکومت کے وجود کے لیے بھی خطرہ بن جاتا ہے لہٰذا حکومت کی پوری توجہ گندم کی بروقت اور سستے داموں فراہمی پر مرکوز ہوتی ہے۔
دوسری جانب سسٹم میں خرابی کے باعث زرعی ملک ہونے کے باوجود پاکستان میں زرعی مداخل بہت مہنگی ہوتی چلی جا رہی ہیں۔ زرعی ماہرین کے مطابق پاکستان واحد ملک ہے جس میں زرعی مداخل پر جی ایس ٹی وصول کیا جاتا ہے‘ بجلی‘ کھادیں اور زرعی ادویات بھی بہت مہنگی ہیں جب کہ بھارت میں بعض ریاستوں میں کسانوں کو بجلی مفت فراہم کی جاتی اور زرعی مداخل پر بھی رعایت ملتی ہے۔
اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ گندم کی امدادی قیمت بڑھنے سے کسان کو فائدہ پہنچے گا لیکن دوسری طرف اس پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے کہ گندم مہنگی ہونے سے جہاں عام آدمی کے لیے خوراک کے حصول میں مشکلات پیدا ہوں گی وہاں خورونوش کی دیگر اشیا بھی مہنگی ہو جائیں گی۔ کسان جو فصلیں کاشت کر کے پورے ملک کو خوراک فراہم کرتا ہے خود بدحالی، کسمپرسی اور استحصال کا شکار ہے۔ اصل فائدہ جاگیردار اور مل مالکان اٹھاتے ہیں۔ گنے کے کاشتکاروں کو بہت سی شکایات ہیں۔
وفاقی وزیر خوراک سکندر حیات بوسن کے مطابق بعض شوگر ملوں کی طرف سے گزشتہ چار سال سے گنے کے کاشتکاروں کو ادائیگیاں نہیں کی جا رہی ہیں جس کی وجہ سے کسانوں کو شدید مالی مسائل کے باعث نئی فصلوں کی بوائی میں مشکلات درپیش ہیں ۔ ہفتہ کو پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کے وفد نے شوگر ملوں کو درپیش مسائل کے حل کے سلسلے میں وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار سے ملاقات کی۔
وفاقی وزیر خزانہ نے وفد کو جہاں شوگر ملوں کے مسائل حل کرنے کی یقین دہانی کرائی وہاں اس بات پر بھی زور دیا کہ شوگر ملز مالکان کسانوں کے واجبات جلد ادا کرنے کے ساتھ ساتھ گنے کی کرشنگ بروقت شروع کرنے کو یقینی بنائیں۔ وفد نے اپنا مسئلہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ 12 لاکھ ٹن فاضل چینی کے باعث شوگر ملوں کے پاس نقصانات سے بچنے اور گنے کے کاشتکاروں کو ادائیگی یقینی بنانے کے لیے چینی برآمد کرنے کے سوا کوئی اور آپشن نہیں۔
وفاقی وزیر خزانہ نے وزارت تجارت کو شوگر ملوں کو درپیش مسائل کے حل کے لیے سمری تیار کر کے کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کو بھجوانے کی ہدایت تو فوری کر دی ہے مگر کسانوں کے مسائل کے حل کے لیے شوگر ملز مالکان کو زبانی کلامی ہدایت دینے پر ہی اکتفا کیا ہے۔ علاوہ ازیں ایک خبر کے مطابق سیلاب اور دیگر قدرتی آفات کے بعد چاول کی قیمت میں غیر معمولی کمی ہونے سے کسانوں کو شدید نقصان پہنچا ہے اور انھیں فصل کی قیمت پہلے سال کی نسبت 50 فیصد سے بھی کم مل رہی ہے۔
زرعی ماہرین کے مطابق پچھلے سال باسمتی چاول کی قیمت 27سو روپے فی من تھی جو اب 12سو سے 15سو روپے فی من فروخت ہو رہا ہے جب کہ ادویات کھاد اور بیج سمیت دیگر اخراجات شامل کر کے ایک من چاول پر 19 سو سے 21 سو روپے خرچ آتا ہے اس طرح کسان کو فی من سات سو روپے تک نقصان ہو رہا ہے۔ کل پیداوار کے حساب سے کسانوں کو 28 سے 30 ارب روپے کا نقصان ہو گا۔دوسری جانب لوٹ مار کا یہ عالم ہے کہ منڈیوں میں چاول مہنگے داموں فروخت کیا جا رہا ہے جس سے ایک خاص طبقہ ہی فائدہ اٹھا رہا ہے۔
ایران ہمارے چاول کا سب سے بڑا خریدار ہے مگر اس سے کوئی معاہدہ نہ ہونے سے بھی کسانوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ صنعتی اور ملکی ترقی میں مجموعی طور پر زرعی شعبے کا بہت بڑا کردار ہے۔ زرعی خوشحالی کے لیے ناگزیر ہے کہ کسانوں کو استحصال سے بچانے کے ساتھ ساتھ انھیں سستے داموں زرعی مداخل فراہم کیے جائیں ورنہ ملکی ترقی کا خواب صرف نعروں تک محدود ہو کر رہ جائے گا۔
پاکستان کو ترقی دینے کے لیے وفاقی حکومت کو صوبائی حکومتوں کے ساتھ مل کر زرعی شعبے کی ترقی کے لیے کام کرنا چاہیے۔ گندم کی امدادی قیمت بڑھانے سے یقیناً کسان کو فائدہ ہو گا لیکن اصل فائدہ اس وقت ہو گا جب کسان کی فصل مقررہ نرخوں پر خریدی جائے‘ مارکیٹ میکنزم میں ٹھیکیداری نظام اور سرکاری اہلکاروں کی کرپشن کے باعث کسانوں کو نقد آور فصلوں میں بھی نقصان ہو رہا ہے‘ پاکستان کی پسماندگی کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔