شدت پسندوں کے خلاف آپریشن میں کامیابیاں

ایڈیٹوریل  اتوار 2 نومبر 2014
 عجیب بات یہ ہے کہ قبائلی علاقوں میں بھی عسکریت پسند موجود ہیں جب کہ ملک کے دیگر حصوں میں بھی ان کا نیٹ ورک متحرک ہے، فائل فوٹو

عجیب بات یہ ہے کہ قبائلی علاقوں میں بھی عسکریت پسند موجود ہیں جب کہ ملک کے دیگر حصوں میں بھی ان کا نیٹ ورک متحرک ہے، فائل فوٹو

خیبر ایجنسی کی تحصیل باڑہ اور لوئر اورکزئی ایجنسی میں فضائیہ کی بمباری اور زمینی جھڑپوں میں 33 دہشت گردوں کے مارے جانے کی اطلاع دی گئی ہے، جب کہ ان معرکوں میں آٹھ اہلکار شہید ہوگئے۔ واضح رہے ملک کے انتہائی شمالی علاقوں میں پاک فوج کا عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن جاری ہے۔

اخباری اطلاعات کے مطابق تحصیل باڑہ کے مختلف علاقوں میں جیٹ طیاروں اور ہیلی کاپٹروں کی بمباری اور جھڑپوں کے نتیجے میں متعدد عسکریت پسند مارے گئے جب کہ چند سیکیورٹی اہلکار زخمی ہو گئے۔ بمباری سے عسکریت پسندوں کے پانچ ٹھکانوں کے تباہ ہو نے کی خبر بھی دی گئی ہے۔

ہفتہ کی صبح سیکیورٹی فورسز کے ہیلی کاپٹروں اور جیٹ طیاروں نے فضائی کارروائی کا آغاز کیا اور مختلف علاقوں سپاہ، سپن قبر، نالہ ملک دین خیل اور اکا خیل کی ذیلی شاخ میری خیل میں عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جب کہ سپن قبر اور سپاہ کے علاقوں میں فورسز اور عسکریت پسندوں کے درمیان جھڑپیں ہوئیں، شمالی وزیرستان میں آپریشن ضرب عضب جاری ہے‘ اس کے ساتھ ساتھ خیبر ایجنسی میں عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن ہو رہا ہے‘ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندی موجود ہے اور یہاں اسلحہ بھی موجود ہے۔

اورکزئی ایجنسی اور خیبر ایجنسی میں پہلے بھی عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کی جاچکی ہے لیکن یہاں حالات اب بھی خراب ہیں‘ اس طرح ماموند ایجنسی میں بھی عسکریت پسند موجود ہیں‘ اصولی طور پر پورا قبائلی علاقہ تاحال کسی نہ کسی رنگ میں عسکریت پسندی کا شکار ہے‘ ان علاقوں سے دہشت گردوں اور ان کے نیٹ ورک کے خاتمے کے لیے جہاں فوجی کارروائی ضروری ہے‘ وہاں صوبائی حکومتوں کے انتظامی مشینری کی چابکدستی بھی ضروری ہے۔

اس کے علاوہ قبائلی علاقوں میں موجود انتظامی سیٹ اپ کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے‘ فاٹا سیکریٹریٹ کا اچھا خاصا بجٹ ہے۔ یہ بجٹ کن امور پر خرچ ہوتا ہے اس پر بھی نظرثانی کی ضرورت ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ قبائلی علاقوں میں بھی عسکریت پسند موجود ہیں جب کہ ملک کے دیگر حصوں میں بھی ان کا نیٹ ورک متحرک ہے‘ پشاور‘ بنوں‘ ڈیرہ اسماعیل تو قبائلی علاقوں کے ساتھ ہیںان شہروں اور قبائلی علاقوں کی سرحدوں پر چیک پوسٹیں قائم ہیں۔

اس کے باوجود اسلحہ اور دہشت گرد باآسانی سیٹلڈ ایریاز تک پہنچ جاتے ہیں‘یہ کس کی ناکامی ہے؟ عسکریت پسندوں کا نیٹ ورک کراچی‘ کوئٹہ‘ لاہور تک پھیلا ہوا ہے‘ یہ اس لیے ہوا ہے کہ صوبائی حکومتوں نے اپنا کردار ادا نہیں کیا‘ اگر صوبائی حکومتیں متحرک کردار ادا کرتیں تو آج ملک کے شہروں میں دہشت گردوں کا نیٹ ورک قائم نہ ہوتا۔فوج کا کام دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو تباہ کرنا ہے اور وہ یہ کام بخوبی کر رہے ہیں۔ اگلا مرحلہ سول حکومت اور اس کی انتظامیہ کا ہے جب تک وہ اپنا کردار ادا نہیں کرتے ‘دہشت گردی کے عفریت پر قابو پانا خاصا مشکل کام ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔