تھرپارکر میں قحط کی تباہ کاریاں

ایڈیٹوریل  اتوار 2 نومبر 2014
بہر حال تھرپارکر میں صورت حال سندھ حکومت کے لیے چیلنج ہے، افسوسناک امر یہ ہے کہ اندرون سندھ میں انفرااسٹرکچر انتہائی خستہ حال ہے
۔ فوٹو: فائل

بہر حال تھرپارکر میں صورت حال سندھ حکومت کے لیے چیلنج ہے، افسوسناک امر یہ ہے کہ اندرون سندھ میں انفرااسٹرکچر انتہائی خستہ حال ہے ۔ فوٹو: فائل

سندھ میں تھرپارکر میں قحط کی تباہ کاریاں جاری ہیں، ماہ اکتوبر میں 38 انسانی جانیں قحط کی نذر ہوگئیں، سندھ حکومت امدادی گندم بھی منصفانہ طور پر تقسیم کرنے میں ناکام رہی۔ تھر پارکر میں قحط سالی کوئی نیا مسئلہ نہیں بلکہ اس صحرائی علاقے میں طویل عرصے سے شدید قحط کے باعث موت کا رقص جاری ہے جس کا نشانہ صرف انسان ہی نہیں بلکہ چرند پرند بھی تواتر سے بن رہے ہیں۔

ابھی پچھلے دنوں وہاں موروں کے کثیر تعداد میں ہلاکتوں کی خبریں خوبصورت پرندوں کے شائقین کے دل پر بجلی بن کر گر رہی تھیں حالانکہ مور اس قدر قیمتی پرندہ ہے کہ امیر ممالک میں اس کی قیمت لاکھوں میں نہیں بلکہ کروڑوں میں ملتی ہے۔ اگر ہمارے ارباب بست و کشاد تھوڑی زحمت کر کے اس پہلو پر غور کر لیتے تو ان مرنے والے موروں کی جان بچا کر وہ بھاری زر مبادلہ کما سکتے تھے لیکن انھوں نے اتنی نقد آور نعمت کی قدر نہیں کی تو انھیں بے چارے انسان کی کیا قدر ہو گی جو بے مول بکتا ہے۔

ہماری عقلمندی کی داستانیں بھی اب عالمی ریکارڈ کی کتابوں  میں درج ہونی چاہئیں کہ باران رحمت سیلابوں کا باعث بنتی ہے اور دوسری طرف تھر میں خشک سالی کا قحط ہے۔ اس وقت تو سارے ملک کے انجینئروں کو سر جوڑ کر بیٹھ جانا چاہیے کہ سیلابوں کا رخ صحراوں کی جانب کس طرح موڑا جائے۔

بہر حال تھرپارکر میں صورت حال سندھ حکومت کے لیے چیلنج ہے‘ افسوسناک امر یہ ہے کہ اندرون سندھ میں انفرااسٹرکچر انتہائی خستہ حال ہے‘ دیہات اور شہروں کے درمیان رابطہ سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں اور بہت سے دیہات تک پہنچنا ہی مشکل ہوتا ہے‘ جمہوری حکومتوں کا کام عوام کی فلاح و بہبودکے لیے کام کرنا ہوتا ہے‘ اگر سندھ حکومت مستقبل کو سامنے رکھ کر پالیسیاں بناتی تو تھرپارکر میں قحط سالی پر قابو پایا جا سکتا تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔