سیاست میں انتقام اور بے حسی

محمد سعید آرائیں  پير 3 نومبر 2014

سیاست کو سیاستدان عوام کی خدمت کا نام دیتے ہیں مگر عملی طور پر سیاست میں خدمت تو خواب میں بھی نہیں ملتی، البتہ سیاست میں انتقام اور بے حسی اب واضح ہوچکی ہے، جس کا تازہ اور واضح ثبوت ملتان میں پی ٹی آئی کے سابق صدر اور اصول پرستی کی خاطر باغی کہلانے والے سیاسی رہنما جاوید ہاشمی کی شکست سے قوم کے سامنے آیا ہے۔

جاوید ہاشمی نے اپنی عمر کا زیادہ وقت مسلم لیگ میں گزارا اور شریف برادران کی جلاوطنی کے دوران جاوید ہاشمی مسلم لیگ (ن) کے سربراہ رہے اور جنرل پرویز کی زیر عتاب لاوارث مسلم لیگ (ن) کی قیادت اس برے وقت میں کرتے رہے جب مسلم لیگ (ن) کے بڑے بڑے رہنما سرکاری مسلم لیگ (ق) میں پناہ لے چکے تھے۔

2002 کے جنرل پرویز مشرف کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) نے جاوید ہاشمی کی سربراہی میں حصہ لیا تھا اور بعد میں وہ (ق) لیگ کی حکومت میں گرفتار کرکے سات سال کے لیے جیل بھیجے گئے اور بعد میں 2007 میں شریف برادران وطن واپس آئے مگر دونوں بھائی 2008 میں انتخاب نہ لڑسکے اور نواز شریف اپنے معاہدے کے تحت 2013 تک خود منتخب نہ ہوسکے تھے، البتہ شہباز شریف اکثریت نہ ہونے کے باجود (ق) لیگ کے بعض ارکان کو ملا کر پنجاب میں اپنی حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئے تھے۔

مسلم لیگ ن کے قائدین نے وطن واپس آکر جاوید ہاشمی کو اہمیت نہیں دی اور نظر انداز کیا، جس سے مایوس ہوکر جاوید ہاشمی 2011 میں تحریک انصاف میں شامل ہوگئے۔ پی ٹی آئی میں جانے سے قبل مسلم لیگ ن کے قائدین نے انھیں اپنے ساتھ رکھنے کی ذاتی کوشش نہیں کی اور رسمی طور پر کسی اور کو منانے ضرور بھیجا۔ اگر مسلم لیگ ن کے قائدین خود منانے آتے تو ممکن تھا جاوید ہاشمی مان جاتے مگر باغی تحریک انصاف میں چلے گئے جہاں ان کا زبردست استقبال ہوا تھا مگر انھوں نے واضح کردیا تھا کہ پی ٹی آئی میں بھی باغی رہوں گا اور غیر جمہوری اقدام کی حمایت نہیں کروں گا۔

جاوید ہاشمی تحریک انصاف کے صدر بنائے گئے تو یوں لگتا تھا کہ ان کے پرانے حریف شاہ محمود قریشی خوش نہیں تھے مگر خاموش رہے۔ اگست میں پی ٹی آئی کے دھرنے سے جاوید ہاشمی خوش نہیں تھے اور ملتان آگئے جنھیں عمران خان نے مناکر بلا لیا مگر دھرنے کے نتیجے میں ہونے والے غیر جمہوری اقدام کی انھوں نے مخالفت کی تو عمران خان نے خود کو ان سے الگ کرلیا اور شاہ محمود قریشی نے موقع ملتے ہی اصولی باغی کو داغی بنا دیا۔

پی ٹی آئی کے اسمبلیوں سے استعفے کے فیصلے پر عمل صرف جاوید ہاشمی نے کیا اور عمران خان کی مخالفت کی سزا ضمنی انتخابات لڑ کر پائی۔ شاہ محمود کا انتقام پورا ہوگیا اور عمران خان نے محض اپنے فیصلے سے اختلاف کی سزا جاوید ہاشمی کو شکست دلا کر دی اور یہ بھی نہ سوچا کہ جاوید ہاشمی ان کے بعد دوسری اہم شخصیت اور تحریک انصاف کے صدر تھے۔

نواز شریف نے تو جاوید ہاشمی کو منانے کی کوشش کی تھی مگر عمران خان نے اپنے ناراض صدر کو منانے کا تکلف بھی نہیں کیا اور اپنے رہنماؤں کو بھی پیغام دے دیا کہ ان کے فیصلے کی مخالفت کرنے والے جاوید ہاشمی کا انجام یاد رکھیں وگرنہ وہ بھی چیئرمین کے انتقام کا نشانہ بن سکتے ہیں۔

سیاست میں ایسی مثال اسفند یار ولی نے بھی اے این پی کی نائب صدارت سے اپنی والدہ کو ہٹاکر قائم کی تھی۔ اس سے قبل محترمہ بے نظیر بھٹو بھی اپنی والدہ بیگم نصرت بھٹو کو پیپلز پارٹی کی چیئرمین شپ سے ہٹا کر خود چیئرمین بن چکی تھیں اور اسی بات پر محترمہ کا اپنے حقیقی بھائی مرتضیٰ بھٹو سے اختلاف ہوا تھا اور مرتضیٰ نے پی پی میں اپنا الگ گروپ بنا لیا تھا۔

اے این پی کے سربراہ اسفند یار ولی نے اپنے بھانجے حیدر خان ہوتی کو وزیر اعلیٰ بنایا تھا اور اپنے بہنوئی کو مخالف بنا لیا تھا اور بعد میں بھانجے نے اپنے والد سے تعلق توڑ کر ماموں سے تعلق بنا لیا تھا اور نانی کو بھی ناراض کرلیا تھا۔ حال ہی میں ضلع دادو کی براہ راست منتخب ہونے والی خاتون رکن اسمبلی کے شوہر نے سرکاری ملازمت کے مزے لینے کے بعد سیاست کے مزے لینے کے لیے اپنی بیوی کو استعفیٰ دینے کو کہا اور جب بیوی نہ مانی تو پی پی رہنماؤں نے خاتون سے جبری استعفیٰ لے لیا اور اسپیکر سندھ اسمبلی نے خاتون سے رابطہ کیے بغیر استعفیٰ منظور بھی کرلیا۔

میاں بیوی کے جھگڑے کی خبریں میڈیا پر بھی آئیں۔ سیاستدانوں کے لیے کہا جاتا ہے کہ وہ اقتدار میں آکر اپنے خاندان والوں کو بھی عہدے دلادیتے ہیں مگر اس کے لیے شرط اولین وفاداری ہوتی ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے بھی اپنے بھائی کو اسمبلی کے لیے منتخب کرا کر وزیر بنوایا تھا اور اپنے ہم زلف حاجی غلام کو اپنے دور حکومت میں پشاور کا سٹی ناظم بنوایا تھا اور بعد میں سینیٹر منتخب کرا دیا تھا۔

سیاست کی وجہ سے باپ بیٹے، بھائیوں اور بہنوں جیسے حقیقی اور قریبی رشتوں میں بھی دراڑیں پڑ جاتی ہیں۔ ایک بھائی ایک پارٹی میں ہے تو دوسرا دوسری سیاسی پارٹی میں ہوتا ہے۔ خاقان عباسی کے بعد ان کا بیٹا اور بیٹی مسلم لیگ(ن) میں تھے اور رکن اسمبلی اور سینیٹر تھے مگر صاحبزادی کو دوبارہ سینیٹر کا ٹکٹ نہ ملا تو (ن) لیگ چھوڑ دی۔ ممتاز بھٹو پر الزام تھا کہ انھیں گورنر اور وزیر اعلیٰ بنانے والے کزن ذوالفقار علی بھٹو کو انھوں نے ان کے برے دنوں میں چھوڑ دیا تھا اور وہ اپنی بھتیجی بے نظیربھٹو کے ہمیشہ مخالف رہے۔

ہر سیاستدان چاہتا ہے کہ اس کی پارٹی ہمیشہ ٹکٹ دیتی رہے اور اگر پارٹی ٹکٹ نہ دے تو قائد کا احسان یاد رہتا ہے نہ پارٹی سے دیرینہ تعلق۔ مفاد کے لیے فوراً سیاسی وفاداری تبدیل کرلی جاتی اور یہی حال قائدین کا ہے جو اپنے حکم کی فوری تعمیل چاہتے ہیں اور اپنے قریبی دیرینہ رفیق کو بھی نہیں دیکھتے اور معمولی بات پر نکال باہر کرتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔