پاکستان، قبل از عمران

03332257239@hotmail.com

[email protected]

عمران خان کامیاب ہوں گے یا ناکام؟ تیسری تو کوئی بات نہیں ہوسکتی۔ ناکام ہوگئے تو تاریخ کا حصہ بن جائیں گے۔ اگر وہ کامیاب ہوگئے تو؟ کامیابی کا مطلب یہی ہوگا کہ وہ وزیر اعظم بن جائیں اور نیا پاکستان دنیا کے نقشے پر ابھر آئے۔ ’’اور‘‘ جی ہاں اس آخری جملے میں اور دونوں باتوں کو الگ الگ کرتا ہے۔ ممکن ہے وہ وزیراعظم تو بن جائیں لیکن نیا پاکستان نہ بنا سکیں۔ یوں عمران کے لیے نیا پاکستان بنانے کے لیے تین مرحلے سامنے آتے ہیں۔ انتخابات کا ہونا، قومی اسمبلی میں اکثریت اور پھر نئے پاکستان کی تعمیر۔ اگر وہ تین سیڑھیاں عبور نہ کرسکے تو کچھ بھی نہیں ہوگا۔ پہلے ہم ناکامی کے خدشات پر بات کریں گے۔

باؤنڈری پر چھکا لگانے والے کے ذہن میں دونوں باتیں ہوتی ہیں۔ گیند تمام کھلاڑیوں کے سروں سے گزر جائے گی یا کیچ پکڑا جائے گا۔ عمران نے باؤنڈری کی جانب گیند کو اچھال دیا ہے۔ نواز شریف، آصف زرداری اور فضل الرحمن کیچ آؤٹ کرنے کے لیے آگے بڑھ رہے ہیں۔ گیند اس وقت فضا میں ہے اور کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ چھکا یا کیچ کا سماں پورے ملک میں مچا ہوا ہے۔ 14 اگست کے بعد اسلام آباد پہنچنے اور دھرنے کو 70 دن گزرنے پر ڈاکٹر طاہر القادری نے تبدیل کردیا ہے۔ حکومت ایک وکٹ گراکر خوش ہے۔

عمران کی 30 نومبر کی اسلام آباد پہنچنے والی کال نے کھیل کو مزید طویل کردیا ہے۔ اس وقت تک دھرنا سنچری ایام کو عبور کرچکا ہوگا یا سال کے آخری مہینے تک غیر یقینی کی فضا اس لیے قائم رہے گی کہ گیند اس وقت تک فضا میں ہوگی۔ نہ عمران کا چھکا لگ رہا ہے اور نہ پارلیمنٹ کپتان کو آؤٹ کر پا رہی ہے۔ یہ آج کی بات ہے۔ آنے والے کل میں کیا ہوگا؟ سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ عمران تاریخ کا حصہ بن جائیں گے یا صرف وزیراعظم ہی بن پائیں گے یا وہ نیا پاکستان بناکر آج کے وطن عزیز کو پاکستان، قبل از عمران والا ملک قرار دلوا سکیں گے۔

عمران کی کامیابی کے امکان اور ناکامی کے خدشات پر یہ کالم پڑھنے والے قارئین جانتے ہیں کہ کوئی انسان سو فیصد کامیابی کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔ 99 فیصد کامیابی کا چانس ہو تو ایک فیصد ناکامی کا اندیشہ ہوتا ہی ہے۔ ناکامیاں عمران کی زندگی کا لازمی حصہ رہی ہیں اور وہ اس کا تذکرہ بھی کرتے ہیں۔ کرکٹ میں پہلے ہی ٹیسٹ کے بعد منتخب نہ ہوسکنا، آسٹریلیا سے 87 کے ورلڈ کپ کا سیمی فائنل لاہور میں ہار جانا، کینسر اسپتال کی تعمیر میں مشکلات اور سیاست کے میدان میں 15 برسوں میں ایک سیٹ سے آگے نہ بڑھ سکنا۔ ڈوب کر ابھر کر نکل جانے والے کی زندگی ایک طرف لیکن آج ہم متوقع جیت یا ہار پر گفتگو کر رہے ہیں۔

شکست عمران کو تاریخ کا حصہ بنا دیگی اور مورخ صرف چند سطروں میں کپتان کا ذکر کرکے آگے بڑھ جائے گا، اگر وہ جیت گئے تو مورخ پاکستان کی تاریخ کو عمران کی شخصیت کے دائرے میں دو حصوں میں تقسیم کردیگا۔ آج والا ہمارا ملک قبل از عمران والا پاکستان کہلائے گا۔ حضرت عیسیٰ ؑ کے بعد والا زمانہ A.D اور ان سے پہلے والا زمانہ B.C کہلاتا ہے یعنی وہ دور جسے دنیا بعد از مسیح اور قبل از مسیح کے نام سے جانتی ہے۔ کیا مورخ اس وطن عزیز کو بعداز عمران اور قبل از عمران میں تقسیم کریگا؟ یہی ہمارے آج کے کالم کا سوال ہے۔

کپتان کی کامیابی کو ہم نے دو حصوں میں بانٹا ہے۔ کامیابی کے پائیدان کی یہ دوسری اور تیسری سیڑھی ہوسکتی ہیں۔ وزیراعظم بننا اور نیا پاکستان بنانا۔ دوسری سیڑھی پر پہنچ کر تیسری تک نہ پہنچ سکنا عمران کی ذاتی جیت تو ہوسکتی ہے لیکن پاکستان کو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح عمران کو تاریخ میں ایک باب تو مل جائے گا لیکن مورخ اپنے قلم کو عمران کے حوالے سے دو حصوں میں منقسم نہیں کرے گا۔

’’وزیر اعظم عمران خان‘‘ کیونکر نیا پاکستان بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکیں گے؟ ہم ابھی تک ناکامی کے خدشات پر گفتگو کر رہے ہیں۔ بھٹو، نواز شریف اور بے نظیر نے پہلی مرتبہ وزیراعظم کے عہدے کا حلف اٹھایا تو ان کی عمریں چالیس کے لگ بھگ تھیں۔ مہاتیر محمد بھی پاکستان کے تین وزرا اعظم کی عمر کے تھے۔ لیاقت علی خان ہوں یا مارشل لا لگانے والے ایوب، ضیا اور مشرف، تمام کی عمریں پچاس اور پچپن کے درمیان تھیں۔

نہرو، حسینہ واجد اور خالدہ ضیا نے بھی پچاس کے پیٹے تک حلف اٹھالیا تھا۔ 52 میں پیدا ہونے والے عمران کی عمر ساٹھ کے ہندسے کو عبور کرچکی ہے۔ چالیس سال کی عمر تک بلا تھامے ہاتھ بیس برسوں سے مائیک تھامے ہوئے ہیں۔ پاکستان کے بگاڑ کو درست کرنے کے لیے پانچ پانچ برسوں کی دو میعاد لازمی ہیں۔ جس ملک میں کوئی حکومت مدت پوری نہ کرسکتی ہو اور جہاں چار مرتبہ مارشل لا لگ چکا ہو وہاں دس سال تک کسی جمہوری حکومت کے چل جانے کی کوئی مثال نہیں۔

مفاد پرست حلقے تبدیلی کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ہوں گے۔ سیاسی پارٹیاں، جاگیردار، سرمایہ دار، رشوت خور اور مزے اڑانے والے نااہل لوگ کپتان کے راستے میں رکاوٹی پتھر بچھانے کی کوشش کریں گے۔ غیر منظم کارکنان اور پارٹی میں شامل ہوجانے والے خود غرض لیڈر ہر ماہ عمران کے لیے نیا درد سر پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔ یہ وہ رکاوٹیں ہیں جو عمران کے وزیراعظم بن جانے کے باوجود نئے پاکستان کی راہ میں حائل ہوں گی۔

کیا عمران ان رکاوٹوں کو عبور کرکے نیا پاکستان بنا پائیں گے؟ کیا ہم آج کے پاکستان کو ’’قبل از عمران کا پاکستان‘‘ قرار دے سکیں گے؟ یہ سوال آج کے ہر شہری کا سوال ہے۔ اس سوال کے صحیح جواب کی بنیاد پر ہمارے اگلے دس پندرہ سال گزرینگے۔ ہمارا آج کا قاری نوجوان ہے تو جواب یہ طے کریگا کہ اس کے اگلے تیس چالیس سال کیسے گزرینگے۔ اگر آپ 40/50 سال کے ہیں تو یہ سوال طے کریگا کہ آپ کا بڑھاپا کیوں کر بسر ہوگا۔ سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ ہماری آنیوالی نسلوں کا مستقبل کیا ہوگا؟

کالم اب تک یہ طے نہیں کر سکا کہ عمران ان رکاوٹوں کو عبور کرکے نیا پاکستان بنا بھی سکیں گے یا نہیں۔ وہ یہ بھاری پتھر اٹھا سکیں گے یا چوم کر چھوڑ دیں گے۔ عمران کے نام کے ساتھ PM لگنا تو کوئی معنی نہیں رکھتا۔ انگریزی کے دو حروف دو درجن پاکستانیوں کے ساتھ اب تک لگ چکے ہیں۔ عمران نئے پاکستان کا یہ خواب دکھا رہے ہیں کہ آج ملک ملائیشیا، کوریا، ترکی اور چین کی طرح غربت کے صحرا سے نکل کر خوشحالی کے جزیرے پر اتر آئیگا۔

ہم گیارہ کروڑ پاکستانیوں کو خط غربت سے اوپر اٹھا دینگے، ہرے پاسپورٹ کی دنیا بھر میں قدر ہوگی، پاکستانیوں کو دیکھ کر دنیا کہے گی کہ یہ سچے لوگ ہیں، دنیا کے غریب ملکوں کے بے روزگاروں کی قطاریں پاکستانی سفارت خانوں کے باہر لگی ہوں گی۔ خواب صرف خواب ہوگا یا اس کی تعبیر بھی مل سکتی ہے؟ اب اگر ہم دل کڑا کرکے مان لیں کہ عمران اکثریت حاصل کرکے وزیراعظم بن جاتے ہیں تو وہ رکاوٹوں، جی ہاں اوپر دی گئی پانچ جمع دو رکاوٹوں کو عبور کرپائیں گے؟

ایک رائے ہے کہ سب کو آزمایا ہے تو ایک بار عمران کو بھی سہی۔ اس کے پیچھے یہ خوف ہے کہ کپتان کو موقع نہ دینے کی صورت میں یہ خلش ہمیشہ بڑھاپے تک ذہن میں رہے گی کہ کاش ہم اسے آزما لیتے۔ ممکن ہے خواب صرف خواب ہی ہو لیکن ہم بڑھاپے میں دل کو تو سمجھا سکیں گے کہ نیا پاکستان ہماری قسمت میں ہی نہ تھا۔ نہ آزمانے کی صورت میں وہیل چیئر، اسپتال کے بستر اور کومے میں جانے سے قبل افسوس تو نہ ہوگا۔

لوگ کہتے ہیں کہ اگر عمران کو دوسری سیڑھی پر پہنچا کر تیسری کے لیے نہ آزمایا گیا تو پھر چالیس سال تک کوئی دوسرا عمران خان جنم نہیں لے گا۔ چار عشروں میں ایک نسل بدل جاتی ہے۔ تحریک انصاف کو موقع نہ دینے کا مطلب آج کے نوجوان ووٹر کا بڑھاپے تک انتظار ہے۔ انتظار نئے پاکستان کا۔ خوش حال اور باعزت پاکستان کا۔ کپتان کی ہار کا مطلب حالات کا جوں کا توں رہنا ہے۔ اگر وہ جیت گیا تو وہ دور بعد ازعمران کہلائے گا۔ پھر ہم آج کے وطن عزیز کو کہیں گے، پاکستان… قبل از عمران۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔