- پشاور؛ بس سے 2 ہزار کلو سے زیادہ مضر صحت گوشت و دیگر اشیا برآمد
- وزیراعلیٰ پنجاب نے نوازشریف کسان کارڈ کی منظوری دے دی
- چائلڈ میرج اور تعلیم کا حق
- بلوچستان؛ ایف آئی اے کا کریک ڈاؤن، بڑی تعداد میں جعلی ادویات برآمد
- قومی ٹیم کی کپتانی! حتمی فیصلہ آج متوقع
- پی ایس 80 دادو کے ضمنی انتخاب میں پی پی امیدوار بلامقابلہ کامیاب
- کپتان کی تبدیلی کیلئے چیئرمین پی سی بی کی زیر صدارت اہم اجلاس
- پاکستان کو کم از کم 3 سال کا نیا آئی ایم ایف پروگرام درکار ہے، وزیر خزانہ
- پاک آئرلینڈ ٹی20 سیریز؛ شیڈول کا اعلان ہوگیا
- برج خلیفہ کے رہائشیوں کیلیے سحر و افطار کے 3 مختلف اوقات
- روس کا جنگی طیارہ سمندر میں گر کر تباہ
- ہفتے میں دو بار ورزش بے خوابی کے خطرات کم کرسکتی ہے، تحقیق
- آسٹریلیا کے انوکھے دوستوں کی جوڑی ٹوٹ گئی
- ملکی وے کہکشاں کے درمیان موجود بلیک ہول کی نئی تصویر جاری
- کپتان کی تبدیلی کے آثار مزید نمایاں ہونے لگے
- قیادت میں ممکنہ تبدیلی؛ بورڈ نے شاہین کو تاحال اعتماد میں نہیں لیا
- ایچ بی ایف سی کا چیلنجنگ معاشی ماحول میں ریکارڈ مالیاتی نتائج کا حصول
- اسپیشل عید ٹرینوں کے کرایوں میں کمی پر غور کر رہے ہیں، سی ای او ریلوے
- سول ایوی ایشن اتھارٹی سے 13ارب ٹیکس واجبات کی ریکوری
- سندھ میں 15 جیلوں کی مرمت کیلیے ایک ارب 30 کروڑ روپے کی منظوری
اس قابل ہیں ہم کیا؟
ستمبر کی بیس تاریخ کو امڈ کر آنے والا سیلاب… اکیس کی رات تک جاری رہا اور ہم سب گھروں میں مقید قیافے لگاتے رہے کہ اگلے لمحے کیا ہونے والا ہے۔
ایک طویل ویک اینڈ ہاتھ لگا تو فرصت ہی فرصت نظر آنے لگی، فارغ الوقتی تھی اور ہم نے… سو جی بھر کر ٹی وی دیکھا جو کہ ہمیں خوف زدہ کرنے کا فریضہ سر انجام دے رہا تھا۔ سمٹی ہوئی چیزوں کو بکھیرا اور پھر سمیٹا… فیس بک پر کئی روز سے پڑے ’’ اپ ڈیٹس ‘‘ کو دیکھا۔ ایک تصویر نے چونکا دیا جس پر پسند کرنے والوں کی تعداد ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں میں تھی۔
غالباً آپ میں سے بھی کئی لوگوں کی نظر سے یہ تصویر گزری ہو گی۔ اس کا کیپشن تھا کہ امریکا میں جس سینما میں یہ فلم جمعے کے روز ریلیز ہونا تھی، اسی روز اس شہر میں زلزلہ آیا اور سینما کی عمارت دو ٹکڑوں میں بٹ گئی… ساتھ میں تصویر جس میں کہ ایک عمارت اس طرح سے تھی گویا کاغذ سے بنی ہوئی کسی چیز کو پھاڑ کو دو ٹکڑے کر دیا جائے۔
اس پر تبصرے بھی جاری تھے اور لوگوں کی آرا ء کہ اللہ تعالی نے کیسا معجزہ دکھایا ہے۔ انھی میں ایک تبصرہ… بلکہ کئی تبصرے اس نوعیت کے بھی نظر آئے کہ وہ تصویر اور زلزلے کی خبر بالکل جھوٹ اور بے بنیاد پراپیگنڈہ ہے۔ مزید چیک کرنے اور انٹر نیٹ پر تصدیق کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ وہ تصویر چلی کی ایک عمارت کی تھی جو کہ ایک زلزلے میں کچھ عرصہ قبل تباہ ہو گئی تھی۔ دل میں جہاں یہ خیال آیا کہ کاش وہ جھوٹی خبر سچ ہوتی وہیں یہ سوچ بھی آئی کہ کیا ایسا ہو سکتا ہے؟ اس قابل ہیں ہم کیا کہ اللہ تعالی ہماری بڑائی اور عظمت دکھانے کو معجزے بھیجے؟ رسول اللہﷺ کی حرمت پر ہم سب قربان… مگر کیا ہمارے اعمال اس قابل ہیں کہ ہم خود کو آپ ﷺ کی امت کہہ سکیں؟
پیر کے دن کام پر جاتے ہوئے راستہ بھر اسلام آباد ہائی وے پر وہ تباہی پھری ہوئی دیکھی کہ خود سے ہی پوچھا، کون اس نقصان کا ازالہ کرنے والا ہے؟ ایک سائن بورڈ تک گر جائے تو مہینوں وہ دوبارہ اپنی جگہ پر لگا ہوا نظر نہیں آتا۔ اقوال قائد تو تہ و بالا ہوئے پڑے تھے… ( اب وہ مرمت کر دئے گئے ہیں) ان اقوال کو اتنا نمایاں کر کے لگانے کی ضرورت کیا ہے جب ہم میں نہ اتحاد ہے نہ نظم اور ایمان بھی ڈانوں ڈول رہتا ہے۔ سڑک پر جا بجا بنے ہوئے امریکی پرچم، جنھیں ہر پیدل اور سوار اپنے پائوں تلے روند کر گزرتا ہے، اس سے امریکا کو کیا فرق پڑنے والا ہے؟
ممکن ہے کہ وہ سیٹلائیٹ پر ان تصاویر کو اس کیپشن کے ساتھ دنیا بھر میں دکھائے کہ پاکستان امریکا کا اتنا مضبوط اتحادی ہے کہ اس نے اپنی سڑکوں پر جا بجا ہمارے پرچم کی تصاویر بنا کر ہمیں بتایا ہے کہ ہماری سڑکیں تمہاری گاڑیوں اور کنٹینروں کے لیے کھلی ہیں… ہماری ہر سڑک تمہاری ہے اور تمہارا پرچم ہماری سڑکوں پر اس بات کی تصدیق کرتا ہے… ہم کہاں کے ایسے قابل ہیں کہ اللہ سے معجزوں کی توقع کریں… کیا عالم اسلام کسی ایک نکتے پر متحد ہے؟ کیا ہم میں اتحاد ہے؟ کیا ہم ایک ہی جیسے اسلام کے پیروکار ہیں؟ کیا ہم نے بات بہ بات مذہب کو فرقوں میں نہیں بانٹ لیا ہے؟ کیا ہماری پیدائش سے لے کر وفات تک… شادی بیاہ کی رسومات اور طور طریقوں اور مذہبی عبادات کے طریقوں میں فرق نہیں؟
سب فرقوں میں الفاظ کے ہیر پھیر کے سوا کیا فرق ہے؟ شاید ان کو بھی معلوم نہ ہو جو ان کے پیرو کار ہیں۔ اسی طرح جس طرح اس روز توڑ پھوڑ کرنے والے ٹیلی وژن پر کہہ رہے تھے کہ انھیں معلوم نہیں کہ مظاہرہ کس بات پر کیا جا رہا ہے، وہ عوام کے ساتھ شامل تو ہیںاور وہی کر رہے ہیں جو باقی کر رہے ہیں مگر مقصد جاننے کا نہ شوق تھا نہ ضرورت۔ اپنا اپنا غبار نکالنے کا موقع مل رہا تھا تو کوئی کیوں گنواتا… ٹیلی فون اور انٹرنیٹ کے ذریعے مزید اشتعال انگیز پیغامات کی ترسیل کر کے ہمارے رہے سہے برداشت کے مادے کو بھی ختم کر دیا جاتا ہے۔ چھوٹی طاقتوں کو کسی نہ کسی طرح کچلنے کا خواب ہر بڑی طاقت کی رگوں میں لہو بن کر دوڑتا ہے۔
کسی بھارتی صحافی سے منسوب کرکے یہ پیغام آپ کو بھی غالباً موصول ہوا ہو گا کہ مسلمانوں کی روز بروز بڑھتی ہوئی تعداد سپر پاورز کی آنکھوں میں مانند خار کھٹکتی ہے اور وہ ہمہ وقت کسی نہ کسی تخریبی حربے کی تلاش میں مصروف رہتے ہیں۔ ہمارے اگنی، پرتھوی میزائل اور سپر پاورز کے دیگر ہتھیاروں کے حصول سے بہتر ہے کہ مسلمانوں کے مذہب کے خلاف دس منٹ کی ایک فلم بنا کر اسے یو ٹیوب پر ڈال دیا جائے… جو تباہی و بربادی کا کام ہمارے میزائل، ہتھیاراور افواج اتنی محنت کے ساتھ نہیں کر سکتیں، یہ خود چند گھنٹوں میں کر دیں گے…
یہ ہے وہ پراپیگنڈہ جو ہمارے اعمال و افعال کی ترجمانی بھی کرتا ہے اور ہم اس کا مظاہرہ بارہا دیکھ چکے ہیں۔ ایک مذہب ہی کیا… کسی بڑے لیڈر کا قتل ہو، مہنگائی، لوڈ شیڈنگ، تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتیںہوں یا کوئی اور سبب… جب بھی مظاہرہ کریں گے تو اسی طرح اپنی قومی اورسرکاری املاک کا نقصان کریں گے۔ ہمارا دشمن ہمیں ہم سے بہتر سمجھتا ہے، ہماری کمزوریوں کو جان لینا اس کی ایک بڑی کامیابی ہے۔ اگر ہم کہیں کہ ملک کا نظام مظاہروں کی وجہ سے بگڑ جاتا ہے تو وہ ایک بات ہے۔
مگر جو چہرہ ہمارے ملک کا اور ہمارا مسخ ہو کر اقوام عالم کے سامنے آیا ہے اس میں ہم سب قصور وار ہیں۔
ہم جو سوچے سمجھے بغیر ہر بات پر یقین کر لیتے ہیں،ہم جو مقصد جانے بغیر ہر ہجوم کا حصہ بن جاتے ہیں، ہم جو توڑ پھوڑ کرتے وقت اس طرح بے رحم ہو جاتے ہیں گویا ہم اپنے دشمنوں کا سر کچل رہے ہوں، ہم جو مذہبی جذبات کے نام پر لوگوں کے جذبات کو اپنی تحریر کو تقریر کے ساتھ بھڑکاتے ہیں، ہم جو میڈیا میں کہی گئی ہر بات کو من و عن تسلیم کر لیتے ہیں، ہم جو مختلف چینلز پر بیٹھ کر وہی زبان بولتے ہیں جو ہمیں بولنے کو کہی جاتی ہے، ہم جو چینلز پر وہ سب کچھ دکھاتے ہیں جو نہ صرف اپنے لوگوں میں خوف و ہراس پیدا کرتا ہے بلکہ دنیا بھر میں ہماری وہ تصویر دکھاتا ہے۔
جو ہمیںکسی طور ایک منظم اور مہذب قوم نہیں دکھاتی، یہی ہمارے دشمنوں کا مقصد اور ان کی چال ہے۔اگر اب تک کسی توڑ پھوڑ نے کوئی نتیجہ دکھایا ہے یا ہماری تقدیر کو بدلا ہے تو ہم اس فعل کو مناسب کہہ سکتے ہیں، لیکن اگر ہر بار نقصان اپنا ہی ہوتا ہے تو ہمیں اپنی اصلاح کی ضرورت ہے، اپنی وضع بدلنے کی ضرورت ہے۔
گھروں سے نکلتے ہوئے خوف کی کیفیت ہمراہ ہو لیتی ہے اور اس وقت تک ہم سفر رہتی ہے جب تک کہ لوٹ کر گھر نہ پہنچ جائیں۔ کہاں کس وقت اور کس کی طرف سے کس بات پر مظاہرہ شروع ہو جائے گا، ہر وقت یہ خوف سرگوشیاں کرتا رہتا ہے… لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال نے بے یقینی کے بادلوں سے ملک کی فضا بھری ہوئی ہے۔ جمعے کا دن ، عبادت کا خاص دن، سب دنوں میں جس دن کی افضلیت سب سے بڑھ کر ہے… ہر بار خطرے کی گھنٹیاں بجاتا ہوا آتا ہے، اس دن کا تقدس مجروح کر کے رکھ دیا گیا ہے۔
جمعرات کی شام ہی سوالات شروع ہو جاتے ہیں کہ کل کس کی ’’ باری ‘‘ ہے۔ دارالخلافہ تک میں کاروبار زندگی معطل ہو کر رہ جاتا ہے تو ملک کے باقی حصوں کا کیا حال ہو گا۔ جنھیں بہت ضروری گھروں سے نکلنا ہوتا ہے وہ بھی دبک کر رہ جاتے ہیں۔ بچوں کو اسکول کالج بھجواتے ہوئے بھی خوف ہوتا ہے کہ جانے وہ کس صورت حال میں پھنس جائیں گے۔ اللہ تبارک و تعالی ہی ہمیں ہدایت کی راہ دکھا سکتا ہے اور ہم اپنے اقوال، اعمال و افعال کی اصلاح کر کے اس سے کسی معجزے کی توقع کر سکتے ہیں… اور ہماری یہی جون رہی تو… ہم سب کا اللہ ہی حافظ ہے!!!!
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔