سانحہ واہگہ بارڈر

ایڈیٹوریل  منگل 4 نومبر 2014
دہشتگردوں نے انتہائی محفوظ مقام کو نشانہ بنا کر ہماری سیکیورٹی حصار کی قلعی کھول دی ہے، فائل فوٹو

دہشتگردوں نے انتہائی محفوظ مقام کو نشانہ بنا کر ہماری سیکیورٹی حصار کی قلعی کھول دی ہے، فائل فوٹو

لاہور میں واہگہ بارڈر پر آزادی پریڈ کے اختتام کے بعد شہریوں کی واپسی پر ایک خودکش دھماکے میں رینجرز اہلکاروں، خواتین اور بچوں سمیت 57افراد شہید جب کہ123 زخمی ہوگئے۔ خود کش دھماکا اس قدر خوفناک تھا کہ جائے وقوعہ پر آگ لگ گئی اور دھماکے کی آواز کئی کلومیٹردورتک سنی گئی۔ اخباری اطلاعات کے مطابق اتوار کی شام ساڑھے پانچ بجے کے قریب واہگہ بارڈر پر معمول کی پرچم اتارنے کی تقریب کے بعد شہری گھروں کو واپس جارہے تھے کہ ایک خودکش بمبار نے خودکو دھماکے سے اڑا لیا، آزادی گیٹ پر پہنچنے والے بچے ،مرد خواتین اور رینجرز اہلکار نشانہ بنے۔

مختلف ذرایع سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق دھماکا چیکنگ پوائنٹ سے چند میٹر دور فوڈ مارکیٹ کے قریب ہوا ۔ کئی دکانوں،رینجرز کی گاڑیوں ، سرکاری اور غیر سرکاری املاک کو بھی نقصان پہنچا،دھماکے کی جگہ پر کئی فٹ گہرا گڑا پڑ گیا۔ ڈی جی رینجرز کا کہنا تھا کہ خودکش حملہ آور نے پریڈ ختم ہونے کے آدھے گھنٹے بعد خود کو حفاظتی حصار کے باہر اڑایا۔ انھوں نے میڈیا کو بتایا کہ رینجرز کے قائم کردہ خصوصی حفاظتی حصار کی وجہ سے خودکش حملہ آور پریڈ ایریا میں داخل نہیں ہو سکا اور اس نے خود کو پریڈ ایریا سے 600 گز کے فاصلے پر اڑا لیا۔ واہگہ آنے والے افراد کو پہلے سیکیورٹی بیرئر پر صرف گاڑی کی تلاشی کی حد تک چیک کیا جاتا ہے جب کہ دوسرے سیکیورٹی بیرئیر پر ان کی جامہ تلاشی لی جاتی ہے اور واک تھرو گیٹس سے گزارا جاتا ہے ۔

خود کش حملہ آور سخت سیکیورٹی کی وجہ سے سیکنڈ بیرئیر عبور نہ کر سکا جس جگہ دھماکا ہوا وہ این ایل سی کمپاونڈ کے نزدیک ہے اور یہاں پاک بھارت تجارت کے لیے استعمال ہونے والی سیکڑوں گاڑیوں اور ہزاروں مزدوروں کا رش ہوتا ہے۔ آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا نے گھرکی اسپتال میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ واہگہ بارڈر پر جہاں دہشت گردی ہوئی وہاں سیکیورٹی پولیس کی ذمے داری نہیں ہوتی بلکہ تمام انتظامات رینجرز کے حوالے ہوتے ہیں۔ وقوعہ کے وقت وہاں پولیس موجود نہیں تھی۔ کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان جماعت الاحرار نے اس حملے کی ذمے داری قبول کی ہے۔ انٹیلی جنس ذرایع کے مطابق کالعدم تنظیم جنداللہ نے بھی لاہور دھماکے کی ذمے داری قبول کی ہے ۔

سانحہ واہگہ بارڈر نے سارے پاکستان کو سوگوار کر دیا ہے‘ شہدا کی لاشیں کراچی سے خیبر تک پہنچی ہیں‘ دہشتگردوں نے انتہائی محفوظ مقام کو نشانہ بنا کر ہماری سیکیورٹی حصار کی قلعی کھول دی ہے۔ وزارت داخلہ کہہ رہی ہے کہ اس نے واہگہ بارڈر پر ممکنہ خود کش حملے کی وارننگ جاری کر دی تھی‘ اب پنجاب حکومت بھی پھرتیاں دکھا رہی ہے‘ رینجرز والے فرما رہے ہیں کہ ان کی سیکیورٹی کی وجہ سے خود کش بمبار اس مقام تک نہیں پہنچا جہاں تقریب ہو رہی تھی‘ سچی بات یہ ہے کہ حکومت اور سرکاری ادارے اپنی اپنی کھال بچانے کے لیے حقائق کو چھپا رہے ہیں۔زیادہ بہتر ہوتا اگر سب ادارے اپنے اپنے حصے کی ناکامی تسلیم کرتے تاکہ مستقبل کی منصوبہ بندی کی جاسکے ۔ واہگہ بارڈر پر خود کش حملہ کرنے والا دہشت گرد وہاں زمین سے نہیں نکلا تھا‘ یقیناً اس کے لاہور میں ہی ہینڈلرز ہوں گے۔

وہ کہیں نہ کہیں رہائش پذیر بھی ہوں گے‘ وقوعے کے دن ان ہینڈ لرز نے خود کش دہشت گردکو جائے وقوع کے انتہائی قریب پہنچایا ہو گا جہاں اسے خود کش جیکٹ پہنچائی گئی ہو گی اور پھر اسے جائے وقوع تک پہنچایا گیا۔ واہگہ بارڈر کے تقریب کے مقام سے لے کر باہر تقریباً ڈیڑھ دو کلو میٹر کے علاقے میں سیکیورٹی ہوتی ہے۔ خود کش حملہ آور نے ایک آدھ بیرئیرز بھی کراس کیے ہیں‘ یہ سب کچھ کیسے ہوا؟ ایسا محسوس ہوتا کہ کسی نے اس مدد فراہم کی ہے۔ ان سوالوں کا جواب ضرور سامنے آنا چاہیے۔ پاکستان میں انٹیلی جنس ایجنسیوں کی بھر مار ہے لیکن ان کی اثر پذیری معمولی درجے کی ہے۔ آئی ایس آئی واحد ادارہ ہے جس کی کارکردگی اعلیٰ درجے کی ہے۔ سانحہ واہگہ بارڈر کے حوالے سے اس نے اپنا کردار ادا کر دیا لیکن سوچنے والی بات یہ ہے کہ باقی ادارے کیا کر رہے ہیں‘ آئی بی سویلین شعبے کاسب سے اہم ادارہ ہے لیکن افسوس کہ ملک میں جاری دہشت گردی کے حوالے سے اس کا کردار صفر ہے‘ حکومت کو بچانے کے لیے ہو سکتا ہے کہ اس کا کردار ہو لیکن عوام کے تحفظ کے لیے جن اطلاعات کی ضرورت ہوتی ہے‘ وہ مہیا کرنے میں وہ ناکام ہے۔

اسی کی وجہ یا تو اس کے دائرہ کار کا معاملہ ہے یا وسائل کا‘ بہر حال اس کے بعد پولیس انٹیلی جنس ہوتی ہے‘ اسپیشل برانچ کا کردار بھی مدتوں سے ختم ہو چکا ہے۔پولیس سی آئی ڈی بھی دہشت گردی کے حوالے سے غیر فعال ہے۔ تھانے کی سطح پر مخبر کا نظام ہوتا تھا‘ وہ بھی ختم ہو چکا ہے‘ اب تھانے کی سطح پر پولیس کی توجہ قحبہ خانوں یا جوئے کے اڈے تک محدود ہو گئی ہے حالانکہ اگر پولیس کا انٹیلی جنس نیٹ ورک فعال ہوتا تو سانحہ واہگہ کے مجرمان وقوع تک پہنچنے سے پہلے ہی گرفتار ہو چکے ہوتے۔ رینجرز کی اپنی انٹیلی جنس بھی ہوتی ہے‘ خود کش حملہ آور کو ڈیڑھ کلو میٹر دور ہی پکڑا جانا چاہیے تھا مگر کیا کیا جائے‘ پاکستان میں ہر ادارہ زوال پذیر ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔