کرکٹ ٹیم کا کم بیک

ایاز خان  منگل 4 نومبر 2014
ayazkhan@express.com.pk

[email protected]

سانحہ واہگہ بارڈر کے اگلے دن اگر کہیں سے کوئی اچھی خبر آ سکتی تھی تو وہ کرکٹ کا میدان ہے۔ ہماری حالت عجیب ہے کہ ایک طرف واہگہ بارڈر پر شہید ہونے والوں کا دکھ ہے تو دوسری طرف پاکستان کی آسٹریلیا کے خلاف شاندار جیت کی خوشی۔ ایسے سانحات اور واقعات کے بعد جو زندہ بچ جاتے ہیں ان کا واسطہ بیک وقت خوشی سے بھی پڑتا ہے اور وہ غم سے بھی ہمکنار رہتے ہیں۔ سانحہ واہگہ کے اگلے دن جس طرح شہری دوبارہ اپنی بہادر افواج کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے پرچم اتارنے کی تقریب میں شریک ہوئے اس سے ثابت ہو گیا کہ یہ زندہ قوم ہے۔

پاکستان نے دوسرے ٹیسٹ میں آسٹریلیا کو ناک آؤٹ کر کے وائٹ واش کر دیا۔ واحد ٹی ٹوئنٹی اور تینوں ون ڈے میچوں میں شکست کے بعد کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ پاکستان دو ٹیسٹ میچوں پر مشتمل سیریز جیت سکتا ہے۔ پہلا ٹیسٹ بلاشبہ یونس خان کے نام رہا جنہوں نے دوسرے ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں بھی ڈبل سینچری اسکور کر کے 90 سال بعد آسٹریلیا کے خلاف مسلسل تین اننگز میں سنچری اسکور کرنے کا ریکارڈ بنایا۔ آسٹریلیا کے خلاف وائٹ واش بھی 32 سال بعد ہوا۔ ان دو ٹیسٹ میچوں کو اگر ریکارڈ ساز قرار دیا جائے تو غلط نہیں ہو گا۔ یونس کا ریکارڈ آپ کے سامنے ہے یہ وہی یونس خان ہیں جنھیں ون ڈے اسکواڈ میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔

آسٹریلیا کے خلاف356رنز سے کامیابی پاکستان کا کسی بھی ٹیم کے خلاف اتنے بڑے مارجن سے جیت کا نیا ریکارڈ ہے۔ اس سے پہلے پاکستان نے 2006میں بھارت کو کراچی ٹیسٹ میں 341رنز سے شکست دی تھی۔ پاکستان جیت کے بعد ٹیسٹ کرکٹ کی عالمی رینکنگ میں تیسرے نمبر پر آ گیا۔آسٹریلیا کے خلاف اس ہوم سیریز سے پہلے ایک ایسا ماحول بنایا جا رہا تھا کہ مصباح الحق کرکٹ چھوڑ کر کوئی اور کام کرنے لگیں یوں یہ کہا جا سکتا ہے کہ دو کھلاڑی جنھیں بیکار سمجھ کر باہر بٹھانے کی سازش ہو رہی تھی، وہ دونوں پرفارم کر گئے اور انھوں نے یہ سازش ناکام بنا دی۔ مصباح الحق پر سب سے بڑا الزام یہ لگایا جاتا ہے کہ وہ سست رفتاری سے بیٹنگ کرتے ہیں۔ انھوں نے ایک ایسا ریکارڈ بنا دیا جو بہت سے لوگوں کے لیے ناقابل یقین ہے۔

کپتان نے پہلے ٹیسٹ میں 69 رنز کی اننگز کھیل کر فارم میں واپس آنے کا اعلان کیا تھا دوسرے ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں سینچری بنا کر انھوں نے ناقدین کے منہ بند کیے اور پھر جب دوسری اننگز میں ان کی سینچری مکمل ہوئی تو وہ عظیم کرکٹر ویوین رچرڈز کے ساتھ اپنا کام لکھوانے میں کامیاب ہو گئے۔ اب وہ ٹیسٹ کرکٹ میں تیز ترین سینچری جو محض 56گیندوں پر بنائی گئی کے ریکارڈ ہولڈر ہیں‘ ویوین رچرڈز نے بھی اتنی ہی گیندوں پر یہ معرکہ سر کیا تھا۔ مصباح الحق ابوظہبی ٹیسٹ جیت کر پاکستان کے کامیاب ترین کپتان بھی بن گئے۔

یہ ٹیسٹ اظہر علی کے لیے بھی یاد گار بن گیا انھوں نے دونوں اننگز میں سینچری اسکور کر کے یہ بتا دیا کہ وہ بہترین بیٹسمین ہیں۔ باؤلنگ میں ذوالفقار بابر اور یاسر شاہ چھائے رہے۔ راحت علی اور یاسر کی طرح پہلا ٹیسٹ کھیلنے والے عمران خان نے بھی اپنا انتخاب درست ثابت کیا۔ کاغذوں میں پاکستان اور آسٹریلوی کرکٹ ٹیموں کا موازنہ کیا جائے تو پاکستانی باؤلنگ ناتجربہ کار نظر آتی ہے۔ اس لحاظ سے پاکستانی باؤلروں نے جس طرح آسٹریلین بیٹنگ کو چار دفعہ آؤٹ کیا ہے وہ قابل تعریف ہے۔ اس سیریز میں وکٹ کیپر بیٹسمین سرفراز احمد بھی بطور بلے باز ایک نئے روپ میں نظر آئے۔

پہلے ٹیسٹ میں سینچری سمیت وہ جب بھی کریز پر آئے انھوں نے مثبت اور تیز کرکٹ کھیلی مجھے لگتا ہے کہ وہ اگر اپنی کیپنگ کو بہتر کر لیں تو پاکستان کے لیے کافی مدت تک کھیل سکتے ہیں۔ پاکستانی کھلاڑیوں کی پرفارمنس کی کیا تعریف کی جائے یہ ایک ایسی ٹیم ہے جسے کئی سال سے اپنے میدانوں میں انٹرنیشنل کرکٹ کھیلنے کا موقع نہیں ملا۔ ان کھلاڑیوں کی بدقسمتی یہ ہے کہ انھوں نے ہوم کرکٹ بھی کھیلنی ہوتی ہے تو انھیں کسی تیسرے ملک میں جانا پڑتا ہے۔ دنیا میں کوئی ایک اور ٹیم بھی ایسی نہیں جسے اپنے ملک میں کرکٹ کھیلنے کا موقع نہ ملتا ہو۔ اس سیریز سے یہ بھی ثابت ہو گیا ہے کہ ملک میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہے۔ اس ٹیلنٹ کو تلاش کر کے اگر اس کا صحیح وقت پر استعمال کیا جائے تو اس کے نتائج ہمیشہ مثبت نکلتے ہیں۔ ایک کرکٹ ہی نہیں اور بھی بے شمار شعبے ایسے ہیں جہاں ٹیلنٹ کی بھرمار ہے لیکن کہیں رشوت کہیں سفارش اور کہیں اقربا پروری کی وجہ سے یہ ٹیلنٹ ضایع کر دیا جاتا ہے۔

پاکستان کی اگلی سیریز نیوزی لینڈ کے خلاف ہے۔ اس سیریز کی اہمیت اپنی جگہ لیکن ہمیں اب جس چیز کی تیاری کرنی ہے وہ آنے والا ورلڈ کپ ہے جو آیندہ سال آسٹریلیا میں ہونا ہے۔ ورلڈ کپ کے لیے جو ٹیم منتخب کی جانی ہے اس کا کپتان اب مصباح کے سوا کوئی اور نہیں ہو سکتا۔ یونس خان کو بھی اب شامل کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہو گا۔ میرے خیال میں ورلڈ کپ کے لیے جو ٹیم منتخب کی جانی ہے اس میں کپتان کا کردار زیادہ ہونا چاہیے۔ اگر کپتان کسی کھلاڑی یا کھلاڑیوں کو ضروری سمجھتا ہے تو انھیں ضرور ٹیم میں ہونا چاہیے اور اگر وہ سمجھتا ہے کہ کسی کھلاڑی کی ٹیم میں جگہ نہیں بنتی تو اسے منتخب نہیں کیا جانا چاہیے۔

آسٹریلین وکٹوں پر محض جارحانہ بیٹسمین کام نہیں آئیں گے ایسے بلے بازوں کی بھی ضرورت ہو گی جو بوقت ضرورت روک کر بھی کھیل سکیں۔ ہم چونکہ ٹیسٹ سیریز جیت چکے ہیں اس لیے ٹی ٹوئنٹی اور ون ڈے سیریز اس کی شکست اب بہت پیچھے رہ گئی ہے لیکن جیت میں اتنا نہیں کھو جانا چاہیے کہ ہم اپنی غلطیوں پر نظر نہ ڈالیں۔ چیئرمین پی سی بی کو مستقبل کے فیصلے کرتے وقت ون ڈے سیریز میں ہونے والی غلطیوں کا ضرور جائزہ لینا چاہیے۔ معین خان جو ایک مدت سے کرکٹ بورڈ کی مجبوری بنے ہوئے ہیں انھیں اب دو عہدے دینے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ پاکستان میں دو عہدوں کا رواج اب ختم ہونا چاہیے۔ آسٹریلیا کے خلاف سیریز دوسرے ٹیسٹ کے مین آف دی میچ مصباح الحق اور مین آف سیریز یونس خان کے نام ہے۔

آخر میں نجم سیٹھی کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ آئی سی سی کے آیندہ صدرکے لیے وزیراعظم نجم سیٹھی کے نام کی منظوری دے چکے ہیں۔ سیٹھی صاحب جب تک چیئرمین پی سی بی رہے۔ ان سے بہت سی چیزوں پر اختلاف رہا ان کی کارکردگی پر تنقید بھی ہوتی رہی لیکن چونکہ وہ انٹرنیشنل لیول پر پاکستان کی نمایندگی کرنے جا رہے ہیں تو ہم ان کے لیے دعا گو ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔