میانمار ہیروئن کے شکنجے میں

ندیم سبحان  منگل 4 نومبر 2014
سرنجیں، کرنسی کی جگہ استعمال ہونے لگیں۔ فوٹو: فائل

سرنجیں، کرنسی کی جگہ استعمال ہونے لگیں۔ فوٹو: فائل

میانمار (سابقہ برما) جنوب مشرقی ایشیا میں واقع ملک ہے جس کی سرحدیں چین، بھارت، بنگلا دیش، لاؤس اور تھائی لینڈ سے ملتی ہیں۔

حالیہ مہینوں میں میانمار مذہبی فسادات کی وجہ سے عالمی ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز رہا۔ سیاسی عدم استحکام کے شکار ملک میں بودھوں کی جانب سے روہنگیا مسلمانوں پر بدترین مظالم ڈھائے گئے، ان کا قتل عام کیا گیا، مساجد اور املاک نذر آتش کی گئیں۔ مختلف رپورٹوں کے مطابق ان فسادات کے دوران سیکڑوں مسلمان ہلاک اور ایک لاکھ سے زائد بے گھر  ہوئے۔

آپ شائد اس بات سے واقف نہیں ہوں گے میانمار میں ہیروئن کے نشے کا استعمال عروج پر ہے۔ بالخصوص چین کی سرحد کے ساتھ لگنے والے علاقے میں ہیروئن کا استعمال اس قدر عام ہے کہ وہاں ملکی کرنسی کی جگہ سرنجوں نے لے لی ہے جن کے ذریعے ہیروئن کے عادی اپنی رگوں میں یہ مہلک نشہ اتارتے ہیں۔

خانہ جنگی اور سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے میانمار کی کرنسی اس قدر بے وقعت ہوگئی ہے کہ دکان دار پانچ دس کیاٹ ( کرنسی کا نام ) کے نوٹ کے بدلے میں خریدار کو ٹشو ، سگریٹ یا ٹافیاں پیش کردیتے ہیں اور گاہک بھی بہ خوشی اس پر راضی ہوجاتے ہیں۔ تاہم ’ ہیروئن زدہ ‘ سرحدی قصبے، میوز اور اطراف کے علاقے میں واقع دکانوں پر سرنجیں کرنسی کی جگہ پر استعمال ہورہی ہیں۔ آپ ایک سرنج دکان دار کو دے کر اس کی مساوی قیمت کی چیز خرید سکتے ہیں۔ اسی طرح گاہک بھی دکان داروں سے بقیہ رقم کے بدلے میں سرنج تردد کیے بغیر لے لیتے ہیں کیوں کہ انھیں معلوم ہے وہ اسے کسی دشواری کے بغیر اشیاء کی خریداری میں استعمال کرسکتے ہیں۔

چین کے ساتھ برما کی ریاست کاچین کی سرحد لگتی ہے۔ اس ریاست میں خواتین کی ایک تنظیم نے علاقے میں ہیروئن کے پھیلاؤ اور دیگر مسائل کے بارے میں Silent Offensive کے عنوان سے تفصیلی رپورٹ جاری کی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کچھ دکان دار منرل واٹر کی بوتلوں کو بھی بہ طور کرنسی استعمال کررہے ہیں۔ کیوں کہ نشہ کرنے والے  پانی کو سرنجوں کے ذریعے ہیروئن کے سفوف میں ملاکر اسے مائع میں تبدیل کرتے ہیں اور پھر اپنی رگوں میں اتار لیتے ہیں۔

اس علاقے میں ہیروئن بے حد سستی اور عام ہے۔ مہلک نشے کی عام دستیابی کی وجہ یہاں قانون کی عملداری نہ ہونا ہے۔ سرسبز جنگلات سے ڈھکی پہاڑی ریاست میں مختلف گوریلا گروپوں کی حکمرانی ہے جن میں سے بیشتر اب مرکزی حکومت کے ساتھ ہوگئے ہیں۔ اس خطے میں بڑے پیمانے پر پوست کی کاشت ہوتی ہے۔ ہیروئن اور افیم کی پیداوار کے لحاظ سے یہ علاقہ افغانستان کے بعد دوسرے نمبر پر ہے، مگر حیران کن طور پر دنیا نے اسے نظرانداز کر رکھا ہے، اور منشیات کی پیداوار کے حوالے سے صرف پڑوسی ملک کا نام  سننے میں آتا ہے۔

کاچین کے دیگر حصوں کی طرح ریاستی دارالحکومت میتکینا میں سڑکوں پر، کھیتوں میں، رہائشی عمارت اور یونی ورسٹی سمیت ہر طرف سرنجیں بکھری دکھائی دیتی ہیں۔ ’’کاچین بیپٹسٹ کنوینشن‘‘ بااثر مقامی کرسچیئن نیٹ ورک ہے جس کی شاخیں پورے ملک میں پھیلی ہوئی ہیں۔ اس نیٹ ورک کی جاری کردہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کاچین ریاست کے 80 فی صدنوجوان ہیروئن کی لت میں مبتلا ہیں۔

اکسٹھ سالہ ایسٹر میوز کی رہنے والی ہے۔ اس نے ایک امریکی خبررساں ایجنسی کو بتایا کہ اس علاقے میں پولیس کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ بااختیار لوگوں نے اپنے قوانین بنا رکھے ہیں۔ یہاں ہیروئن کی پیداوار بڑے پیمانے پر ہوتی ہے۔ ایسٹر کے مطابق کسی بھی گاؤں کا ایک گھر ایسا نہیں جہاں کوئی نہ کوئی ہیروئن کا عادی نہ ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔