(کھیل کود) - تو پھرآپ پابندی کے لیے تیار ہیں؟

فہیم پٹیل  بدھ 5 نومبر 2014
یونس خان! اگرچہ آپ نے بہادری سے اندرونی سیاست کا مقابلہ کرتے ہوئے ٹیم میں جگہ بنائی۔ مگر جناب اِس بار آپ کا مقابلہ عالمی سیاست سے ہے کہ آپ نے اعلی کارکردگی دیکر اپنے لیے مشکلات کا دروازہ کھول دیا ہے ا ور اب ہم منتظر ہیں کہ کس وجہ کو بنیاد بناکر آئی سی سی آپ پر پابندی عائد کرتی ہے۔ فوٹو فائل

یونس خان! اگرچہ آپ نے بہادری سے اندرونی سیاست کا مقابلہ کرتے ہوئے ٹیم میں جگہ بنائی۔ مگر جناب اِس بار آپ کا مقابلہ عالمی سیاست سے ہے کہ آپ نے اعلی کارکردگی دیکر اپنے لیے مشکلات کا دروازہ کھول دیا ہے ا ور اب ہم منتظر ہیں کہ کس وجہ کو بنیاد بناکر آئی سی سی آپ پر پابندی عائد کرتی ہے۔ فوٹو فائل

وہ آیا، اُس نے کھیلا اور وہ چھا گیا ۔۔۔ یہ ہیں یونس خان ۔۔۔ جو بغیر کسی وجہ کے آسٹریلیا کے خلاف ایک روزہ سیریز سے نہ جانے کس جرم کی بنیاد پر ڈراپ ہوئے  جس کے بعد  اِس کھلاڑی نے کسی مظلوم کی طرح خاموشی اختیار کرنے کے بجائے بیچ چوراہے پر وہ سب کچھ کہہ ڈالا جو عام طور پر فلم میں ہیرو کہا کرتا ہے ۔

بس پھر کیا تھا ، ہیرو جب کہتا ہے تو سب کو سننا تو پڑتا ہے اور پھر عوام کی جانب سے فلم کے اختتام پر بھرپور پزیرائی بھی ملتی ہے۔ بالکل ایسا کچھ یونس خان کے ساتھ بھی ہوا ۔۔۔ ایک روز ہ سیریز میں شرمناک شکست کے بعد سلیکٹرز اور ٹیم انتظامیہ کے پاس جب عزت بچانے کے لیے کچھ نہ بچا تو پھر ہیرو عرف یونس خان کو ٹیسٹ سیریز کے لیے بلایا گیا اور پھر جو کچھ ہوا وہ آپ بھی جانتے ہیں اور ہم بھی۔

آسٹریلیا کو تاریخ کی بدترین شکست سے دوچار کیا، ریکارڈز تو اِس آسانی سے منائیں جیسے ہمارے یہاں ایک فرد دوسرے فرد پر الزام لگاتا ہے ۔ ٹیسٹ سیریز کو دیکھنے کے بعد یہ محسوس ہی نہیں ہورہا تھا کہ چند دن قبل یہی پاکستان ، اِسی آسٹریلیا سے ایک روزہ سیریز میں کلین سوئپ ہوا ہے۔ آپ کے نذدیک اِس تبدیلی کی یقیناً بہت ساری وجوہات ہونگی بالکل اِسی طرح میرے نذیک بھی اِس یادگار فتح کی وجوہات ہیں۔۔۔

ان وجوہات میں سے ایک یہ  ہے کہ یہ پاکستان کا المیہ رہا ہے کہ یہاں کرکٹ اکثر و بیشتر اوقات سیاست کی نظر رہی ہے، پھر چاہے وہ اندرونی طور پر ہو یا بیرونی طور پر ، مگر جب بھی سیاست سے بچ کر ہم نے کھیلا تو وہ کارکردگی پیش کی کہ دنیا حیران رہ گئی۔ میں نہیں جانتا کہ سلیکٹرز اور ٹیم انتظامیہ کو یہ مشورہ کس نے دیا تھا کہ وہ ایک روزہ میچوں کی سیریز کے لیے یونس خان کو ڈراپ کردے  لیکن ایک بات ضرور جانتا ہوں کہ مشورہ دینے والا بھی اور مشورے پر عمل کرنے والا بھی ، دونوں ایک سیاست کا حصہ بنے اور اِسی سیاست نے پاکستان کو ایک روزہ سیریز میں کلین سوئپ کا منہ دیکھنے پر مجبور کیا۔

جس وقت یونس خان اپنے کیرئیر کی بہترین فارم میں آسٹریلیا پر لشکر کشی میں مصروف تھے اُسی لمحے سوشل میڈیا پر مجھے ایک مزاحیہ پوسٹ دیکھنے کا اتفاق ہوا کہ ’’غیر قانونی بیٹنگ ایکشن کے سبب آئی سی سی نے یونس خان پر پابندی لگانے کا اعلان کردیا‘‘۔ بظاہر تو یہ ایک مزاحیہ پوسٹ ہے اور عام حالات میں ایسا ممکن نہیں ہے۔ مگرجناب ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان کے متعدد کھلاڑیوں کو  اُس وقت پابند ی کا سامنا کرنا پڑا جب وہ اپنی کیرئیر کی بہترین فارم میں تھے ۔ پھر چاہے بات ہو سعید اجمل کی، محمد عامر کی، محمد آصف کی، سلمان بٹ کی، دانش کنیریا کی اور یہ ایک طویل فہرست ہے ۔

میں جانتا ہوں کہ ما سوائے سعید اجمل کے آپ باقی کھلاڑیوں کے ناموں پر حیران ہونگے کے اِن کھلاڑیوں پر تو پابندی میچ فکسنگ کے الزام میں لگی، اور مجھے آپ کی حیرانگی پر بالکل بھی حیرانی نہیں ہوگی  کہ آپ کا سوچنا بجا ہے۔ لیکن میرے سامنے ایسے بیسیوں واقعات ہیں کہ جب دنیا کے دیگر کھلاڑیوں پر میچ  فکسنگ کے الزام عائد ہوئے اور حتی کے ثابت بھی ہوگئے مگر اُن کو محض چند میچوں اور چند ہزار کے جرمانے کے عوض کھیلنے کی اجازت دے دی گئی۔ اور اِس سلسلے کی کڑی کو دیکھنے کے لیے ہمیں بہت دور جانے کی ضرورت نہیں کہ حالیہ واقعہ رونما ہوا کہ رواں سال کے آغاز میں بھارتی کرکٹ ٹیم کے کپتا ن مہندرا سنگھ دھونی اور سریش رائنا پر بھی کچھ اِس قسم کے الزامات عائد ہوئے تھے مگر مجال ہے کہ اُن کو ہاتھ لگایا گیا ہو کہ اُن کا بورڈ اُن کی پشت پر کھڑا ہوگیا۔

تو ماضی کے تجربات کے بعد اب ہم یونس خان کو متنبہ کرنا چاہتے ہیں جناب اگرچہ آپ نے بڑی بہادری سے اندرونی سیاست کا مقابلہ کیا اور کرتا دھرتاوں کو مجبور کیا کہ وہ آپ کو ایک بار دوبارہ ٹیم میں شامل کریں اور آپ نے اپنے انتخاب کو درست ثابت کرکے اُن تمام لوگوں کے لیے شرمندگی کا سامان کردیا جو سیاست کا حصہ بنے تھے مگر جناب اِس بار آپ کا مقابلہ عالمی سیاست سے ہونے جارہا ہوں کہ آپ نے اعلی کارکردگی دے کر خود کے لیے مشکلات کا دروازہ کھول دیا ہے۔ اب میں نہیں جانتا کہ کس وجہ کو بنیاد بناتے ہوئے آئی سی سی  کس بنیاد پر آپ پر پابندی عائد کرے گی مگر یہ ضرور جانتا ہوں کہ وجہ جو بھی ہو آپ کو بورڈ کی طرف سے کسی مدد کی سہولت میسر نہیں ہوگی کہ نہ ماضی میں کبھی ایسا ہوا ہے اور نہ مستقبل میں اِس قسم کی امید ہے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔