لتھونیا سے

جاوید چوہدری  جمعرات 6 نومبر 2014
www.facebook.com/javed.chaudhry

www.facebook.com/javed.chaudhry

لتھونیا کا پہلا تعارف ڈاکٹر ماریا تھی‘ میں 1999ء میں پہلی بار کوپن ہیگن گیا‘ کوپن ہیگن میں لٹل مارمیڈ کے مجسمے کے قریب ڈاکٹر ماریا مل گئی‘ لٹل مارمیڈ کوپن ہیگن میں سمندر کے کنارے جل پری کا مجسمہ ہے‘ جل پری کے اس مجسمے سے ایک افسانوی داستان منسوب ہے‘ یہ جل پری پانی میں رہتی تھی‘ یہ کسی انسان کی محبت میں گرفتار ہوئی‘ یہ اس کی محبت میں خشکی پر آئی اور مجسمہ بن کر سمندر کے کنارے چٹان پر منجمد ہو گئی‘ یہ مجسمہ آج تک موجود ہے۔

دنیا سے ہر سال لاکھوں سیاح کوپن ہیگن آتے ہیں‘ سمندر کے کنارے پہنچتے ہیں‘ لٹل مارمیڈ کے قریب جاتے ہیں‘ تصویر کھنچواتے ہیں اور خوشی خوشی واپس چلے جاتے ہیں‘ پتھر کا یہ معمولی مجسمہ دنیا میں کوپن ہیگن کی پہچان ہے‘ یہ اب تک ڈنمارک کو اربوں ڈالر کما کر دے چکا ہے‘ یہ مجسمہ سیاحتی اسٹنٹ کے سوا کچھ نہیں‘ آپ جب تک اس مجسمے تک نہیں پہنچتے آپ اس کی محبت کا شکار رہتے ہیں لیکن آپ جوں ہی اس کے قریب پہنچ جاتے ہیں‘ آپ کھلی آنکھوں سے یہ دیکھتے ہیں‘ آپ مایوسی اور ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں۔

1999ء جولائی کی دس تاریخ کو میں بھی اسی کیفیت کا شکار تھا‘ میں مایوسی کے عالم میں لٹل مارمیڈ سے ذرا سے فاصلے پر بیٹھ کر کف افسوس مل رہا تھا‘ میں نے اچانک کسی خاتون کی آواز سنی‘ میں نے سر اٹھایا تو ایک عجیب منظر دیکھا‘ ایک نوجوان خاتون لٹل مارمیڈ کے سامنے کھڑی ہو کر اسے اونچی آواز میں گالیاں دے رہی تھی اور دو درجن سیاح اس کے گرد کھڑے ہو کر قہقہے لگا رہے تھے‘ میں اپنی جگہ سے اٹھا اور مجمعے میں شامل ہو گیا‘ وہ خاتون لٹل مارمیڈ کو گالی دیتی اور پھر چلا کر کہتی اس بدبخت نے میرے دس سال ضایع کر دیے اور مجمع قہقہہ لگاتا‘ میں نے چلا کر خاتون سے اس نفرت کی وجہ پوچھی‘ اس نے بتایا میں پچھلے دس سال سے یہ مجسمہ دیکھنے کے لیے مر رہی تھی‘ میں بڑی مشکل سے یہاں پہنچی‘ یہ دیکھا تو سخت مایوسی ہوئی‘ میں اس مایوسی میں اسے گالیاں دے رہی ہوں۔

وہ خاتون ڈاکٹر ماریا تھی‘ وہ اپنی نفرت کے بھرپور اظہار کے بعد میرے ساتھ بینچ پر بیٹھ گئی‘ وہ لتھونیا سے کوپن ہیگن آئی تھی‘ میں نے اس کے منہ سے پہلی بار لتھونیا سنا‘ ڈاکٹر ماریا نے بتایا ’’لتھونیا 1990ء میں سوویت یونین سے آزاد ہوا‘ ہم لوگ کوپن ہیگن سے دور نہیں ہیں‘ ہم شام کو فیری لیتے ہیں اور صبح کوپن ہیگن پہنچ جاتے ہیں‘ ہوائی جہاز کے ذریعے پچاس منٹ کا سفر ہے لیکن سوویت یونین میں ہونے کی وجہ سے ہم نے یہ سفر 70 سال میں طے کیا۔

ہم یورپ میں ہونے کے باوجود لتھونیا سے باہر نہیں جا سکتے تھے‘ میں نے بچپن میں لٹل مارمیڈ کی کہانی سنی‘ میں اس کی محبت میںگرفتار ہوئی‘ میں عمر کم ہونے کی وجہ سے کوپن ہیگن نہیں آ سکتی تھی‘ میں نے یہاں پہنچنے کے لیے آزادی کے بعد دس سال انتظار کیا‘ میں بڑی مشکل سے آج یہاں پہنچی‘ لٹل مارمیڈ دیکھی تو بہت افسوس ہوا اور میں یہ افسوس چھپا نہ سکی‘‘۔

ڈاکٹر ماریا نے یہ کہانی سنانے کے بعد اپنا سفری تھیلہ اٹھایا اور وہ وہاں سے روانہ ہو گئی لیکن مجھے لتھونیا سے متعارف کرا گئی‘ لتھونیا سے دوسرا تعارف محسود خان ہیں‘ محسود خان کوپن ہیگن میں رہتے ہیں‘ ڈنمارک میںکاروبار کرتے ہیں‘ اسلام آباد میں مقیم ہیں‘ یہ پاکستان میں لتھونیا کے اعزازی قونصل جنرل ہیں‘ میں ان کے گھر کے صحن میں لتھونیا کا جھنڈا دیکھتا ہوں تو یہ سوچ کر حیران ہوتا ہوں محسود خان کو لتھونیا کی قونصلر شپ لینے کی کیا ضرورت تھی؟ میں نے جب بھی محسود خان سے یہ سوال کیا‘ انھوں نے ہنس کر جواب دیا آپ جب تک لتھونیا جائیں گے نہیں آپ کو وجہ سمجھ نہیں آ سکتی‘ لتھونیا سے تیسرا تعارف آصف علی زرداری ہیں۔

پاکستان میں لتھونیا کا سفارت خانہ نہیں‘ ترکی میں لتھونیا کا سفیر پاکستانی امور بھی دیکھتا ہے‘ لتھونیا جب بھی ترکی کے لیے نیا سفیر بھجواتا ہے‘ یہ سفیر ترکی میں اسناد پیش کرنے کے بعد پاکستان کے دورے پر آتا ہے اور پاکستانی صدر کو بھی اپنی اسناد پیش کرتا ہے‘صدر آصف علی زرداری کے دور میں لتھونیا کا سفیر ترکی سے اسلام آباد آیا‘ ایوان صدر میں اسناد پیش کرنے کی تقریب ہوئی‘ تقریب کے دوران ہمارے صدر نے لتھونیا کے سفیر سے پوچھا ’’ آپ کا ملک کہاں ہے‘‘ سفیر نے جواب دیا ’’ ہم بالٹک سی کے ساتھ ہیں‘ لتھونیا بالٹک اسٹیٹ ہے۔ ہم تین ملک ہیں‘ لتھونیا‘ لٹویا اور اسٹونیا۔ ہم سوویت یونین سے آزاد ہوئے‘‘ وغیرہ وغیرہ۔

صدر نے یہ تعارف سنا اور اس کے بعد پوچھا ’’ آپ کی آبادی کتنی ہے‘‘ سفیر نے جواب دیا ’’تیس لاکھ‘‘ صدر آصف علی زرداری مسکرائے اور طنزاً کہا ’’ ہمارے ملک میں تیس ایسے شہر ہیں جن کی آبادی آپ کے ملک کی کل پاپولیشن سے زیادہ ہے‘‘ سفیر نے ادب سے جواب دیا ’’ جی ہاں‘ ہم ایک چھوٹا سا ملک ہیں‘‘ صدر آصف علی زرداری نے اس کے بعد پوچھا ’’آپ کی ایکسپورٹس کتنی ہیں‘‘ سفیر نے ادب سے جواب دیا ’’پچاس ارب ڈالر‘‘ یہ فگر صدر آصف علی زرداری کے لیے حیران کن تھی‘ انھوں نے دوبارہ پوچھا ’’ ایکسی لینسی ففٹی ملین ڈالر آر ففٹی بلین ڈالرز‘‘ سفیر نے جواب دیا ’’ سر ففٹی بلین ڈالرز‘‘ یہ جواب صدر زرداری کے لیے حیران کن تھا کیونکہ پاکستان 20 کروڑ لوگوں کا ملک ہے۔

ہم ایٹمی طاقت بھی ہیں‘ ہم جغرافیائی لحاظ سے بھی بہت اہم ہیں لیکن ہماری برآمدات 32 بلین ڈالر ہیں جب کہ ہم سے 66 گنا چھوٹا ملک 50 بلین ڈالر برآمدات سالانہ کماتا ہے‘ صدر نے سفیر سے پوچھا ’’آپ کیا برآمد کرتے ہیں‘‘ سفیر نے بتایا ’’ ہم لیزر ٹیکنالوجی میں دنیا میں پہلے نمبر پر ہیں‘ ہم سیکنڈ ہینڈ گاڑیوں کا کاروبار بھی کرتے ہیں‘ ہم دنیا کو بائیو ٹیکنالوجی بھی دیتے ہیں اور ہم ایگریکلچرل مصنوعات بھی بناتے ہیں‘‘ ہمارے صدر مزید شاک میںچلے گئے۔

سفیر ترکی روانہ ہو گیا لیکن صدر اس کے بعد بڑی مدت تک لوگوں کو یہ واقعہ سناتے رہے‘ وہ یہ واقعہ سنا کر آخر میں ہر بار کہتے تھے ’’ آپ دیکھئے دنیا کہاں چلی گئی‘ لتھونیا 1990ء میں آزاد ہوا‘ آبادی تیس لاکھ اور رقبہ صرف 65 ہزار تین سو مربع کلو میٹر اور یہ ملک صرف لیزر ٹیکنالوجی اور بائیو ٹیکنالوجی سے 50 بلین ڈالر کما رہا ہے جب کہ ہم 20 کروڑ لوگوں کا ملک ہیں اور صرف 32 بلین ڈالر کی مصنوعات ایکسپورٹ کرتے ہیں‘ ہمارے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے‘‘ صدر آصف علی زرداری کے یہ الفاظ لتھونیا سے میرا تیسرا تعارف تھے۔

میں اتوار کے دن پیرس آیا‘ شیخ مبشر کو ساتھ لیا اور ہم سوموار کو ویلنس پہنچ گئے‘ ویلنس لتھونیا کا دارالحکومت ہے‘ یہ ساڑھے پانچ لاکھ لوگوں کا چھوٹا سا شہر ہے‘ یہ شہر دریا نیرس کے کنارے آباد ہے‘  دریا شہر کے درمیان سانپ کی طرح بل کھاتا ہوا گزرتا ہے‘ ویلنس میں سردی شروع ہو چکی ہے‘ ہم جب ائیر پورٹ پر اترے تو شام کے چھ بجے تھے لیکن ہر طرف گھپ اندھیرا تھا‘ ائیر پورٹ چھوٹا سا ہے مگر انتظامات اچھے ہیں‘ ہم ائیر پورٹ سے باہر نکلے‘ درجہ حرارت صفر سے کم تھا‘ لوگ گرم کپڑوں میں چھپے ہوئے تھے‘ معلوم ہوا ہم سے ایک دن قبل درجہ حرارت منفی سات تک پہنچ گیا تھا۔

نومبر اور دسمبر میں شدید سردی شروع ہو جاتی ہے‘ جنوری فروری میں درجہ حرارت منفی پچیس‘ تیس تک گر جاتا ہے‘ شہر میں شدید برفباری بھی ہوتی ہے‘ ہوٹل تک پہنچتے پہنچتے چہرہ اور کان یخ ہو چکے تھے‘ ہم دو دن ویلنس میں رہے‘ ویلنس ایک پرسکون یخ شہر ہے‘ لتھونیا یورپی یونین کا حصہ ہے لیکن یہ یورپ کے دوسرے ملکوں کے مقابلے میں سستا اور سست ملک ہے‘ لوگ بہت نرم خو‘ فرینڈلی اور مہمان نواز ہیں‘ فیملی لائف گزارتے ہیں‘ جوائٹ فیملی سسٹم ہے‘ لوگ آج بھی دادا کے بنائے گھروں میں رہتے ہیں‘ بزرگوں کا بے انتہا احترام کیاجاتا ہے‘ نوجوان والد اور والدہ کے سامنے سگریٹ نہیں پیتے‘ شادیاں ہماری طرح دھوم دھام سے کرتے ہیں‘ شام جلد ہو جاتی ہے اور آٹھ بجے کے بعد لوگ گلیوں اور کافی شاپس میں نظر آتے ہیں‘ نو بجے شہر سنسان ہو جاتا ہے‘ ویلنس تاریخی شہر ہے۔

شہر میں چھ چھ سو سال پرانے چرچ ہیں‘ لوگ کیتھولک ہیں‘ شہر میں پولش اور روسی لوگ بھی ہیں لیکن اکثریت لتھونین لوگوں کی ہے‘ لتھونیا میں منگول مسلمان بھی ہیں‘ یہ چھ سات سو سال قبل لتھونیا آئے تھے‘ یہ آج بھی یہاں موجود ہیں‘ ان کے نام اسلامی لیکن کلچر غیر اسلامی ہے‘ یہ اسلام کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے‘ ترکی آج کل ان لوگوںکو اسلامی تعلیمات سے روشناس کرانے کی کوشش کر رہا ہے‘ لتھونیا ہزار سال سے طالع آزماؤں کی گزر گاہ ہے‘ روسی اس کے ذریعے یورپ پر حملہ آور ہوتے رہے جب کہ نپولین بونا پارٹ نے جب 1812ء میں روس پر حملہ کیا تو یہ لتھونیا کے راستے ہی ماسکو پہنچا تھا‘ نپولین کی فوجیں بری طرح برف میں پھنس گئیں‘ یہ وہاں سے بھوک‘ بیماری اور زخم لے کر واپس پلٹیں لیکن دیر ہو چکی تھی‘ نپولین کے ہزاروں فوجی راستے میں مارے گئے۔

لتھونیا میں بونا پارٹ کے 80 ہزار فوجیوں کی اجتماعی قبریں ہیں‘ یہ قبریں بوناپارٹ دور کی نشانی ہیں‘ ویلنس سماجی لحاظ سے بھی جدید شہر ہے‘ 1860ء میں ٹرین سروس شروع ہوئی‘ شہر میں 1886ء میں ٹیلی فون لگے‘ 1899ء میں شہر میں سیوریج سسٹم بچھایا گیا جب کہ 1903ء میں شہر میں پاور پلانٹ لگایا گیا‘ لتھونیا سوویت یونین سے آزادی حاصل کرنے والا پہلا ملک بھی ہے‘ سپریم کونسل نے 1987ء میں آزادی کا اعلان کر دیا‘ روس نے آزادی کی آواز دبانے کی کوشش کی‘ فائرنگ ہوئی‘ 14 لوگ مارے گئے لیکن لوگ ڈٹے رہے‘ لتھونیا کے لوگوں نے آزادی کے لیے دنیا کی سب سے بڑی انسانی زنجیر بھی بنائی۔

لوگ ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر کھڑے ہوگئے یوں پوری سرحد کے ساتھ لوگوں کی زنجیر تھی‘ سوویت یونین میں لینن کا پہلا مجسمہ بھی ویلنس شہر میں مسمار کیا گیا‘ آپ آج بھی فلموں‘ ٹیلی ویژن کے کلپس اور سوویت یونین ٹوٹنے کی اخباری تصویروں میں لینن کا سیاہ رنگ کا مجسمہ دیکھتے ہیں‘ یہ مجسمہ آہستہ آہستہ آگے کی طرف گرتا ہے‘ مجسمہ ویلنس میں گرایا گیا تھا اور اس کے گرنے کی تصویر سوویت یونین کے ٹوٹنے کی علامت بن گئی۔

میں کل شہر کے سنٹرل حصے میں اس مقام پر گیا جہاں کبھی لینن کا مجسمہ ایستادہ ہوتا تھا اور لوگ خوف سے اس کی طرف نظر بھر کر نہیں دیکھتے تھے‘ وہ جگہ قوموں کے عروج و زوال کی عبرت گاہ تھی‘ آپ وہاں کھڑے ہو کر ایک لمحے کے لیے سوچیں تو آپ کو یقین آ جاتا ہے‘ دنیا میں وقت سے بڑا سنگدل کوئی نہیں‘ یہ پل میں افق پر چمکتی قوموں کو خاک کا رزق بنا دیتا ہے اور پھر خاک کے اس رزق پر ہم جیسے لاچار لوگ کھڑے ہو جاتے ہیں۔

میں نے اس جگہ کھڑے ہو کر پاکستان اور لتھونیا دونوں کو سلام پیش کیا کیونکہ یہ دنیا کے دو ایسے ملک ہیں جنہوں نے روس جیسی سپر پاور کو شکست دی‘ پاکستان نے اسی کی دہائی میں سوویت یونین کو افغانستان میں ٹکرا کر اور لتھونیا نے 1990ء میں آزادی کا اعلان کر کے دنیا کو پیغام دیا چیونٹی اگر ہاتھی کو مارنے کا فیصلہ کر لے تو فتح بہر حال چیونٹیوں ہی کو نصیب ہوتی ہے‘ لتھونیا اور پاکستان اس معاملے میں بھائی بھائی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔