احتجاج کس سے؟

شیخ جابر  جمعرات 6 نومبر 2014
shaikhjabir@gmail.com

[email protected]

کرسٹین ہارڈمین جب اپنے دو بچوں کے ساتھ برلن کے ریلوے اسٹیشن پہنچیں تو حیران رہ گئیں، پلیٹ فارم پر تل دھرنے کو جگہ نہ تھی، ہر طرف سر ہی سر نظر آ رہے تھے۔ پہلے تو وہ سمجھ ہی نہ سکیں کہ ماجرا کیا ہے۔ رفتہ رفتہ اسرار کھلا کہ ریل ڈرائیور ہڑتال پر ہیں۔ لہٰذا ریل کے ذریعے فوری طور سفر ممکن نہیں۔ وہ بہت سے مسافر جو کئی کئی ہفتے قبل بکنگ کروا چکے تھے، ان کے آگے کے پلان بھی طے تھے بہت پریشان تھے۔

جرمنی میں ہفتے سے شروع ہونے والی ہڑتال کے باعث ریل سے سفر کرنے والے لاکھوں مسافر شدید متاثر ہورہے تھے۔ جی ڈی ایل ڈرائیوروں کی یونین نے ہڑتال کا آغاز ہفتے کی رات 2 بجے سے کیا۔ اس موسم کے اختتامِ پر ہفتے کا یہ ایک مصروف ترین دن تھا۔ اسکولوں میں موسمِ خزاں کی چھٹیاں ہوئی تھیں۔ ریل کے ذریعے سفر کرنے والے افراد کا رش معمول سے زیادہ تھا اور عین ان لمحات میں ریل کے ڈرائیوروں نے اپنے مطالبات پورے نہ ہونے پر احتجاج کرتے ہو ئے ریلوں کے ٹریک سونے کردیے تھے۔ مال گاڑیوں کے ڈرائیوروں نے اپنی ہڑتال اس سے 11 گھنٹے قبل شروع کی۔ ایک ہی ہفتے میں ہونے والی ریل ڈرائیوروں کی یہ دوسری بڑی ہڑتال ہے۔ اس نے جرمنی کی 16 میں سے نصف سے زائد ریاستوں کو متاثر کیا ہے۔

یونین کے مطالبات میں سے دو بنیادی مطالبات یہ ہیں کہ وہ چاہتے ہیں کہ 20,000 ڈرائیوروں کی تنخواہوں میں 5 فیصد تک اضافہ کیا جائے۔ نیز ان کے کام کے اوقات میں تخفیف کر کے 39 سے 37 گھنٹے فی ہفتہ کر دیے جائیں۔ دیگر اہم مطالبات میں ریل کے گارڈوں اور دیگر عملے کے مشاہیروں میں اضافے کی سفارشات وغیرہ شامل ہیں۔ یہ ہڑتال پیر کے دن تک جاری رہی۔

ریل کے پریشان حال مسافروں نے جب ہوائی سفر کے لیے ہوائی اڈوں کا رخ کیا تو انھیں پتہ چلا کہ پائلٹ بھی ہڑتال پر ہیں۔ اب فرینکفرٹ، برلن اور دیگر ہوائی اڈوں پر وہی مناظر ہیں جو ہفتے کی رات سے ریل اسٹیشنوں پر تھے۔ ہر جانب پریشان حال مسافر ہیں۔ کرسٹین کا کہنا ہے کہ ریل کے ڈرائیوروں اور پائلٹوں نے جرمنی کو یرغمال بنا لیا ہے۔

پیر کے دن جرمن ائیرلائن ’’لفت ہنسا‘‘ نے اپنی 1450 پروازیں منسوخ کیں۔ ان کے 200,000 سے زائد مسافر اپنی منزلوں کا رخ نہ کر سکے۔ لفت ہنسا کے افراد کا کہنا ہے کہ ’’ویرائنگنگ کوک پٹ‘‘ (پائلٹوں کی یونین) جرمنی کو ساکت کر دینا چاہتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ہڑتالیوں کو عددی اعتبار سے دیکھا جائے تو وہ کچھ اتنے ذیادہ بھی نظر نہیں آئیں گے۔

وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق لفت ہنسا کے ملازمین 117,343 کی تعداد میں ہیں۔ ان میں سے پائلٹوں کو شمار کیا جائے تو وہ کمپنی ملازمین کا بمشکل 4 فیصد ہوں گے۔ بعینہ ریل ڈرائیوروں کا حال ہے۔ گوئیرک شافٹ ڈچر لوکو موٹیوفیہرریاجی ڈی ایل کے ڈرائیوروں کی کل تعداد 295,653 ملازمین میں سے ایک فیصد قرار پاتی ہے۔ لفت ہنسا میں تو اختلافات کی نوعیت پینشن کی مراعات سے متعلق ہے۔ لیکن ان ہڑتالوں نے حکومت اور جرمنی کی ڈولتی معیشت کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ جرمنی کی وزارت محنت کا کہنا ہے کہ وہ 3 دسمبر کو اسمبلی میں بل پیش کریں گے کہ آجر اور اجیر کو مزید مفاہمت پر لایا جا سکے۔

یہ صرف ایک ائیرلائن کا تذکرہ ہے اور بھی نہ جانے کتنی پروازیں منسوخ ہوئی ہوں گی۔ یہ حال ہمارے جیسے ملک میں ہو تب بھی کوئی بات ہے۔ جرمنی کے شہری تو اس طرح کی صورت حال کے قطعی عادی نہیں۔ وہاں بعض بچوں اور کچھ بڑوں کو بھی شدید سراسیمہ دیکھا گیا، کچھ تو دھاڑیں مار کر رو رہے تھے۔ ہڑتالیوں کو اس کا نقصان یہ ہوا کہ وہ عوام کی ہمدردی سے محروم ہو گئے۔ لوگوں کو ٹرین ڈرائیوروں سے زیادہ اپنی تکلیف اور پریشانی کی فکر تھی۔ اے آر ڈی کے ایک سروے کے مطابق 41 فیصد افراد کو ریل ڈرائیوروں سے کوئی ہمدردی نہ تھی، جب کہ 54 فیصد پائلٹوں کی ہڑتال کے سبب سے متفق نہ تھے۔

جب جرمنی میں ریل کے ڈرائیور ہڑتال پر گئے تو عین ان ہی لمحات میں مرکزی لندن میں 80,000 سے زائد افراد اجرتوں میں اضافے کے لیے احتجاج کرتے ہوئے شاہراہوں پر نکل آئے۔ احتجاج کرنے والوں میں اساتذہ، نرسیں، سول سرونٹس، اسپتالوں کی صفائی کا عملہ اور دیگر بہت سے شعبہ جات سے تعلق رکھنے والوں نے حصہ لیا۔ اگرچہ بڑی ریلی لندن میں نکالی گئی لیکن ساتھ ہی ساتھ مختلف ملازمین نے تنخواہوں میں اضافے کے لیے ’’گلاسکو‘‘ اور ’’بیل فاسٹ‘‘ وغیرہ میں بھی ریلیاں نکالیں اور احتجاج کیا۔ یہ احتجاج ’’ٹریڈ یونین کانگریس‘‘ کے زیر انتظام تھا۔ ان کا نعرہ ہے ’’انگلستان میں اجرتوں میں اضافہ‘‘۔

ان کا کہنا ہے کہ 2008ء سے اب تک اجرتوں میں 50 پونڈ فی ہفتہ کمی ہوئی ہے، یعنی قریباً 63 یورو یا 80 امریکی ڈالر کے مساوی۔ یہ یقینی طور پر ایک نامناسب صورت حال ہے۔ 49 برس کی ملازمہ کیتھ مارٹن کا کہنا ہے کہ ’’میرے علم کے مطابق یہ بدترین صورت حال ہے، جو بھی پبلک سروس میں ہے اس پر موصل برسائے جارہے ہیں، میری تنخواہ میں 25 فیصد کمی کر دی گئی، لیکن حکومت خود اب بھی بچت پر آمادہ نظر نہیں آتی، وزارتیں ہمیں کہتی ہیں کہ ہم اپنے ’’کفایت شعاری کے منصوبے‘‘ جاری رکھیں گے، وہ حکومتی ملازمین (پبلک سروسز) کی تنخواہوں میں کسی اضافے کے فی الحال متحمل نہیں ہو سکتے۔‘‘

لیکن ٹک (ٹریڈ یونین کانگریس) کے چیف ’’فرانسس اوگراڈی‘‘ کا خیال ہے کہ کارکنان کا صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بورڈ روم کے بڑوں کی بڑی تنخواہوں اور مراعات میں تو تیزی سے اضافہ ہوتا ہے لیکن جب ہماری بات آتی ہے تو معاشی بحالی کا انتظار کرنے کی تلقین کی جاتی ہے۔

امریکا میں بھی بڑے پیمانے پر احتجاج کیے جاتے رہے ہیں۔ وال مارٹ بڑا نام ہے، وہاں کے سیکڑوں ملازمین نے اجرتوں میں اضافے کے لیے گزشتہ ماہ احتجاج کیا۔ وال مارٹ کے 14 ملازمین سمیت 12 دیگر افراد کو پولیس نے حراست میں لے لیا اور ان کے خلاف ’’سوِل نافرمانی‘‘ کا مقدمہ قائم کیا گیا۔ فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ کے ورکرز نے اپنی کم اجرتوں پر احتجاج کیا تو 450 کے قریب افراد کو حراست میں لے لیا گیا۔

خوشحال مغرب کے یہ حالات دیکھتے ہوئے چند سوالات ذہن میں ابھرتے ہیں ۔ ہمارے سیاست دان اور معیشت دان جو مغرب کے پیمانوں جی ڈی پی اور جی این پی وغیرہ میں دیکھنے اور سوچنے کے عادی ہو گئے ہیں، ہمیں بتاتے ہیں کہ صنعت کاری سے، اسٹاک مارکیٹ سے اور بیرونی سرمائے وغیرہ کے نتیجے میں خوشحالی آئے گی۔ اگر یہ سچ ہے تو مغرب کا عام آدمی خوش اور خوشحال کیوں نہیں؟ وہاں سرمائے کی بڑھوتری کے نتیجے میں دولت چند ہاتھوں میں کیوں مرتکز ہوگئی ہے؟

دوسرا سوال یہ ہے کہ دنیا بھر کے احتجاج کرنے والے آخرکس کے خلاف احتجاج کرتے ہیں؟ ریاست کے خلاف یا مارکیٹ کے خلاف؟ ریاستیں تو مارکیٹ کے معاملات سے بے دخل ہوتی جا رہی ہیں، کیونکہ جدید معیشت میں اجرتیں تو مارکیٹ کی اندھی اور ان دیکھی قوتیں طے کرتی ہیں ۔ تو کیا یہ احتجاج مارکیٹ کے خلاف ہے؟ جمہوری تناظر میں دیکھا جائے تو جمہوریت میں عوام خود ہی حکمران بھی ہوتے ہیں تو کیا یہ احتجاج عوام سے ہے؟ آزاد منڈی کی معیشت میں آجر اور اجیر دونوں آزاد ہوتے ہیں ۔ اگر کوئی اجرت سے مطمئن نہیں تو کوئی اور در دیکھے، اجیر کے خلاف صف آرا ہونا کیا درست ہو گا ؟ کیا اسی لیے احتجاج کرنے والے امریکیوں کو امریکی پولیس نے سول نافرمانی کے تحت حراست میں لیا؟

اصل مسائل سے توجہ ہٹا کر دلوں کا غبار نکالنے کے لیے احتجاج ایک اچھا طریقہ تو ہوسکتا ہے لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ احتجاج سے کبھی کہیں کوئی کلیدی تبدیلی واقع نہیں ہوئی

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔