ہائے یہ مہنگی سبزیاں

محمد فیصل شہزاد  جمعرات 6 نومبر 2014

پاکستان میں مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے۔ دس ہزار روپے ماہوار کمانے والا غریب آدمی سارے مہینہ دال بھی نہیں کھا سکتا۔ بقرعید سے چند دن پہلے سبزی لینے گئے تو قیمت سن کر ہوش اڑ گئے۔ پیاز ستر روپے کلو، آلوساٹھ روپے اور جناب ٹماٹر ایک سو تیس روپے کلو تھے۔

اس وقت تو سوچا کہ یہ بقرعید کی وجہ سے مصنوعی قیمتیں بڑھی ہیں، مگر جب بقرعید کے بعد بھی دکان دار کلو کے بجائے پاؤ کے بھاؤ بتاتے رہے تو ہم نے سر پکڑ لیا کہ کیا اب ہم سبزیاں بھی کلو کے بجائے پاؤ میں لیا کریں گے؟

پچھلے سال بھی ٹماٹر اور آلوؤں کی قیمتیں آسمان پر جا پہنچی تھیں، اور ستم یہ ہے کہ جب کسی کو یہ یقین ہو کہ وہ جو سبزیاں خرید رہا ہے، وہ گندے پانی سے کاشت کی گئی ہیں تو پھر یہ قیمت اور بھی زیادہ لگتی ہے۔ جی ہاں! یہ حقیقت ہے کہ کراچی میں فروخت ہونے والی چالیس فیصد سے زیادہ سبزیاں ملیر سے آتی ہیں، جہاں سیوریج کے گندے اور صنعتوں کے آلودہ زہریلے پانی سے سبزیاں کاشت کی جاتی ہیں، جو انتہائی مضر صحت ہے۔

ان سبزیوں کے استعمال سے جسم میں ہارمونز کے توازن میں تبدیلی، اعصابی بیماریاں، گردوں اور جگر کی بیماریاں اور مختلف کینسر کا شدید خطرہ ہوتا ہے۔ کراچی کے رہنے والے اکثر قارئین نے نوٹ کیا ہوگا کہ سبزی صبح لے کر آئیں تو فریج میں رکھنے کے باوجود شام تک ورنہ دوسرے دن تک خراب ہوجاتی ہے، اس پر پھپھوندی لگ جاتی ہے، جب کہ ہمارے والدین بتاتے ہیں کہ پہلے ایسا نہیں تھا۔ اسی طرح سبزی میں وہ پہلے جیسا ذائقہ بھی نہیں رہا … تو اس کی وجہ یہی ہے کہ یہ سبزی گندے ( زہریلے کہنا زیادہ بہتر ہے) پانی سے کاشت کی گئی ہوتی ہے۔

اب ان مضر صحت سبزیوں سے اپنی فیملی کو بچانے کے لیے اور ساتھ ہی مہنگائی کو شکست دینے کے لیے یہ لازم ہو گیا ہے کہ ہم لوگ کچن گارڈننگ کی طرف آجائیں۔ عموماً ہر گھر میں کچھ نہ کچھ جگہ خالی پڑی ہوتی ہے۔ اگر بالکل بھی جگہ نہ ہو، یا دڑبے نما فلیٹ ہو، تب بھی گملے میں سبزیاں اگائی جا سکتی ہیں۔ آخر ہر گھر میں ایک دو گملے چنبیلی، رات کی رانی کے ہوتے ہیں کہ نہیں، صرف اس لیے کہ کچھ خوشبو ہو جائے… بے شک یہ بہت اچھی بات ہے، خوشبو کا پسند کرنا، پھولوں کے جاذب نظر رنگ ہماری جمالیاتی حسیات کو تراوٹ بخشنے کے لیے ہیں، مگر اب پاکستان میں رہنے والوں کو اپنی ترجیحات کا تعین نئے سرے سے کر لینا چاہیے۔ زندہ رہنا سب سے زیادہ ضرور ی ہے۔ اس لیے اب جو بھی زمین ہو یا گملے ہی ہوں، اس میں سے آرائشی پودوں کو بائے بائے کہیے اور ان میں سبزیاں اگائیے۔

ہمیں یقین ہے کہ اکثر قارئین اسے وقت کا ضیاع سمجھ رہے ہوں گے اور دل میں کہہ رہے ہوں گے کہ باتیں تو بہت اچھی ہیں، مگر سبزیاں بھلا گھر میں کہاں اگ سکتی ہیں؟ یقین کیجیے، ایسا بالکل نہیں… ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔

مثال کے طور پر مشرقی پاکستان الگ ہونے سے پہلے عام تاثر یہ تھا کہ کراچی کی مٹی میں پان نہیں اگایا جا سکتا، لیکن مشرقی پاکستان الگ ہونے کے بعد کراچی کے گھروں میں پان کی بیلیں نظر آنی شروع ہو گئیں۔ بالکل اسی طرح جب آپ کے گھر میں آپ کو تازہ سبزیاں بھنڈی، ہری مرچ، پودینہ، ہرا دھنیا، کھیرا، ٹماٹر اور ادرک وغیرہ اگے ملیں گے تو نہ صرف آپ کے بجٹ اور صحت پر اچھے اثرات مرتب ہوں گے بلکہ آپ ایک انوکھی خوشی بھی حاصل کریں گے۔

اب آپ پوچھیں گے کہ اس کے لیے پہلا قدم کیا اٹھانا ہو گا؟ تو اس کے لیے سب سے پہلے تو آپ کو کچھ جگہ چاہیے۔ اس کے بعد آپ کو معیاری بیج حاصل کرنے ہوں گے۔ سبزیوں کے بیج باآسانی بازار سے حاصل کیے جا سکتے ہیں جب کہ اکثر نرسری والے بھی بیج فروخت کرتے ہیں۔ وہاں سے آپ کو ہر سبزی کے معیاری بیج مناسب قیمت میں آسانی سے مل جائیں گے۔ آج کل انٹرنیٹ ہر طرح کی معلومات حاصل کرنے کا بہت اچھا ذریعہ ہے۔

انٹرنیٹ پر کچن گارڈننگ سرچ کیجیے۔ بہترین معلومات بھی ملیں گی اور آپ کو احساس ہو گا کہ اس کام میں آ پ اکیلے نہیں ہیں۔ پوری دنیا میں کچن گارڈننگ نہایت مقبول ہے، اس کے باقاعدہ کورسز کروائے جاتے ہیں، جو انٹرنیٹ پر بھی موجود ہیں۔ کئی اردو ویب سائٹس بھی ایسی ہیں، جو گھریلو باغبانی اور کچن گارڈننگ سکھاتی ہیں۔ آپ انٹرنیٹ پر یورپ اور امریکا کے لوگوں کو دیکھیں گے، جو بے حد امیر ہیں، مگر انھوں نے یہ صحت مند مشغلہ اپنا رکھا ہے۔ وہ تازہ صحت مند آرگینک (کیمیائی ادویات اور مصنوعی کھاد کے بغیر اگائی گئی نباتات) سبزیاں اگاتے ہیں اور اس سے دو مقاصد حاصل کرتے ہیں، ایک صحت مند باکفایت غذا اور دوسرے روح کی سرشاری… آپ بھی یقین کیجیے، جب آپ کی لگائی گئی سبزیوں کے ننھے منے پودے نکلیں گے ، اور پھر جب ان میں سبزیاں لگنا شروع ہوں گی تو آپ اور آپ کے بچوں کو عجیب خوشی کا احساس ہو گا۔

بہرحال انٹرنیٹ سے آپ کو بہت مدد ملے گی۔ معیاری بیجوں کے بعد قدرتی کھاد کی باری آتی ہے۔ یاد رکھیے قدرتی کھاد، کیوں کہ آپ کو آرگینک سبزیاں اگانی ہیں۔ آرگینک کو آسان زبان میں اس طرح سمجھ لیں کہ جس طرح ہمارے آباؤ اجداد سو دو سوسال پہلے سبزیاں اگاتے تھے، اسی طرح سبزیاں اگانی ہیں۔ ہر طرح کے کیمیکلز سے پاک سبزیاں۔ یعنی نہ کھاد کیمیائی ہو، نہ کیڑے مار دوا کے اسپرے ہوں۔ ان جدید طریقوں سے پیداوار تو بہت زیادہ حاصل ہو جاتی ہے مگر یہ بھی صحت کے لیے بالکل اچھی بات نہیں۔

آج پوری دنیا کے ماہرین غذائیت اور سائنس دان کہہ رہے ہیں کہ دوبارہ آرگینک طریقوں کی طرف آنے سے ہی ان نت نئی بیماریوں سے نجات ممکن ہے۔ خیر کھاد والے سے قدرتی کھاد، مٹی اور ریت وغیرہ بھی حاصل کی جا سکتی ہے۔ ورنہ اگر آپ کے پاس وقت ہے تو قدرتی کھاد آپ گھر میں بھی بنا سکتے ہیں، جس کا طریقہ انٹرنیٹ سے بخوبی معلوم ہو جائے گا۔ رہا کیڑوں کا مسئلہ تو ان سے بچنے کے لیے بھی گھریلو ٹوٹکے بالکل مفت ہیں، مثلاً نیم کے پتوں کا پانی چھڑکنے سے کیڑوں کا مسئلہ حل ہو جاتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ جب آدمی ارادہ کر لے تو سب کچھ آسان ہو جاتا ہے۔

تو قارئین تیار ہیں پھر مفت کی بہترین صحت بخش سبزیاں اگا کر مہنگائی کو شکست دینے کے لیے…؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔