دور جدید کے ’’معلق باغات ‘‘

محمد اختر  اتوار 30 ستمبر 2012
فوٹو : فائل

فوٹو : فائل

مختلف خصوصیات کے ساتھ ساتھ اختراع بھی ایک ایسی خصوصیت یا صفت ہے جو انسان کو دیگر مخلوقات سے ممتاز کرتی ہے۔

اختراع کاتعلق ندرت خیال کے ساتھ ہے۔ انسان یکسانیت سے اُکتا جاتا ہے، اس لیے ماحول میں نت نئی تبدیلیاں لانے کی کوشش کرتا رہتا ہے ۔قدیم زمانے کے انسان بھی اختراع کا شوق رکھتے تھے جس کی ایک صورت اہرام مصر اور امریکی براعظم کے کھنڈرات (مایا اور ایزٹیک تہذیب)کی شکل میں آج بھی ہمارے سامنے ہے حتیٰ کہ قبل از تاریخ زمانے کے غاروں میں رہنے والے انسان بھی غاروں کی دیواروں پر تصاویر اور پتھروں سے مختلف شکلیں تراش کر اپنی اختراعی صلاحیتوں کا اظہار کرتے تھے۔

نینوا کے ’’معلق باغات‘‘ کے بارے میں تو ہم سب جانتے ہیں کہ یہ دنیا کے عجائبات میں شمار ہوتے ہیں۔ یہ بھی اختراع ہی کی ایک شکل تھے ۔لیکن قارئین ، آج ہم آپ کو نینوا کے قدیم معلق باغات کے بارے میں نہیں بلکہ دور جدید کے ’’معلق باغات‘‘ کے بارے میں بتائیں گے جن کا رواج اب امریکہ ،کینیڈا اور یورپ کے بعد باقی دنیا میں بھی چل نکلا ہے۔

معلق باغات کو green wallیعنی ’’دیوار سبز‘‘بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ کسی دیوار یا لکڑی کے متوازی کھڑے تختے میں اگائے جاتے ہیں۔یہ دیوار الگ سے بھی کھڑی کی جاسکتی ہے اور یہ کسی عمارت کا حصہ بھی ہوسکتی ہے۔اس دیوار کو جزوی یا کلی طور پر مصنوعی طریقے سے پودوں ، پھولوں اور جھاڑیوں سے ڈھانپ دیا جاتا ہے اور دیکھنے والے کو محسوس ہوتا ہے کہ پودے اور جھاڑیاں کسی دیوار پر لگی ہوئی ہیں۔اس قسم کے معلق باغات کا تصور ان باغات سے حاصل کیا گیا جو کہ 600 قبل مسیح میں نینوا میں اگائے گئے تھے اور جن کو آج عجائبات میں شمار کیا جاتا ہے۔

دور جدید میں معلق باغات کے تصور کو زندہ کرنے کا اعزاز ایک امریکی باشندے سٹینلے ہارٹ وائٹ کو دیا جاتا ہے جس نے 1931ء میں یونیورسٹی آف الی نوئس میں اس قسم کے معلق باغ کو اگانے کا مظاہرہ کیا تھا چنانچہ دور جدید کے اولین معلق باغ کا اولین پیٹنٹ بھی سٹینلے وائٹ کے پاس ہی ہے۔ وائٹ نے یہ ڈیزائن گنجان آباد علاقوں میں پودے لگانے کے لیے جگہ نہ ہونے کے مسئلے کے پیش نظر تخلیق کیا تھا۔

دور جدید میں معلق باغات کا رجحان اب ایک فیشن بن چکا ہے۔فائیو سٹار ہوٹلوں اور دیگر عوامی مقامات پر دلکشی اور جاذبیت میں اضافے کے لیے معلق باغات اگانے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔مختلف ملکوں میں ان کو مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے جیسے زندہ دیوار living wall، بائیو وال biowallاور عمودی باغ vertical garden وغیرہ۔بڑے سائز کے گھروں اور بنگلوں میں بھی بہت سے شوقین لوگ اس قسم کی دیواریں بنانے کاانتظام کرتے ہیں جو عمودی طورپر سبزے سے ڈھکی ہوتی ہیں۔ان سے نہ صرف آنکھوں کو تراوت ملتی ہے بلکہ گھر میں ٹھنڈک کا احساس بھی پیدا ہوتا ہے۔

معلق باغات کی اقسام 
معلق باغات یا گرین وال کی عام طورپر دو اقسام ہیں۔
اول گرین وال یا دیوار سبز
دوئم لیونگ وال یا زندہ دیوار

دیوار سبز عام طورپر اس طرح بنائی جاتی ہے کہ اوپر کی جانب بڑھنے والے پودے اور بیلیں اس کو مکمل طورپر ڈھانپ لیتی ہیں۔یہ پودے یا تو براہ راست دیوار کے اوپر فکس کیے گئے سٹرکچرز میں لگائے جاتے ہیں یا ان کو خصوصی طورپر ڈیزائن کردہ سٹرکچر کے ذریعے سپورٹ کیا جاتا ہے۔ان پودوں کی جڑیں تو زمین میں ہوتی ہیں لیکن ان کی افزائش عمودی طور پر دیوار کے ساتھ ساتھ رکھی جاتی ہے۔ دوسری قسم یعنی لیونگ وال یا زندہ دیوار ہے جو کے دیوار کے ساتھ سٹین لیس سٹیل کے گملوں ، جیو ٹیکسٹائلز ، نظام آبپاشی ، افزائشی نظام اور سبزے پر مشتمل ہوتی ہے۔

معلق باغات یا سبزدیواروں کا اہتمام عام طور پر شہری ماحول میں کیا جاتا ہے جہاں پودوں اور سبزے کی موجودگی سے عمارتوں اور ماحول کے مجموعی درجہ حرارت میں کمی آتی ہے۔ شہروں میں عمارتوں اور گھروں میں گرمی بڑھنے کی بنیادی وجہ انسولیشن کے علاوہ سڑکوں اور عمارتوں میں دھوپ کی شعائوں کے جذب ہونے اور عمارتوں کے میٹیریل میں گرمی جمع ہونے اور پھر یہ گرمی شام کے وقت خارج ہونے کی وجہ سے ہوتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ شہری بالخصوص صنعتی ماحول کے تکلیف دہ درجہ حرارت کو کم کرنے کے لیے انڈور یا آئوٹ ڈور سبزہ اور پودے بہت مفید ثابت ہوتے ہیں۔
’’زندہ دیوار ’’ کا ایک اور فائدہ اس کے ذریعے پانی کو دوبارہ قابل استعمال بنانا بھی ہے۔پودے معمولی مقدار میں آلودہ پانی جیسے کہ گدلا پانی، کو صاف کرتے ہیں کیونکہ وہ اس میں موجودہ حل شدہ غذائی اجزاء کو اپنے اندر جذب کرلیتے ہیں۔ان میںموجود بیکٹیریا معدنی اجزاء کو پودوں کے لیے قابل استعمال بناتے ہیں۔

زندہ دیواروں کا طریقہ شہروں کے لیے خاص طورپر کامیاب ثابت ہوا ہے کیونکہ شہروں میں روایتی طریقے سے سبزہ اگانے کی جگہ بہت کم ہوتی ہے ۔ اس کے علاوہ بارانی علاقوں میں بھی یہ زندہ دیواریں یا معلق باغ موزوں ہوسکتے ہیں کیونکہ افقی باغات کے مقابلے میں عمودی باغات میں پانی بخارات بن کر اڑنے کا امکان کم ہوجاتا ہے۔اس طرح یہ باغات شہری زراعت کے طور پر بھی کام آ سکتے ہیں یا ان کو خوبصورتی اور آرٹ کے طورپر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یہ باغات آج کل عمارتوں کے اندر بھی لگائے جارہے ہیں تاکہ عمارتوں میں رہنے والوں یا آنے جانے والوں کو اس منفی احساس سے بچایا جائے جسے sick building syndrome کہا جاتا ہے جس میں بہت سے افراد کا عمارتوں کے اندر دم گھٹنے لگتا ہے۔

اور اب سبزیوں کے معلق باغ بھی۔۔۔۔
جی ہاں ، پھولوں ، جھاڑیوں اور بیلوں پر مشتمل معلق باغات کے بعد ایسے عمودی باغ بھی بنائے جارہے ہیں جن میں سبزیاں اگائی جاتی ہیں اور ان کو سبزیوں کے معلق باغات کہا جاتا ہے۔یہ طریقہ بھی روایتی معلق باغات جیسا ہے لیکن یہ اس وقت اور بھی خوبصورت اور تخلیقی لگتا ہے جب آپ کو دیوار یا تختے کے ساتھ ساتھ اوپر کی طرف اگتی ہوئی رنگ برنگ سبزیاں دکھائی دیتی ہیں۔

سبزیوں کے عمودی باغ میں سبزیوں کے پودوں کو اس طرح سیٹ کیا جاتا ہے کہ وہ اوپر کی جانب بڑھتے ہیں جس کے لیے فریم اور کراس شیلفوں کے ساتھ ایک ڈھانچہ بنایا جاتا ہے اور یوں ایک چھوٹی سی جگہ میں سبزیاں اگانے کے لیے جگہ بن جاتی ہے۔

اگر آپ کے پاس باغ یاباغیچہ لگانے کے لیے تھوڑی جگہ ہے تو اس کو اس صورت میں اور بھی بہتر طریقے سے استعمال کیاجاسکتا ہے اگر پودے کو افقی انداز میں پھیلنے کے بجائے عمودی انداز میں بڑھنے کے لیے تیار کیا جائے۔روایتی معلق باغوں کی طرح سبزیوں کے معلق باغات کے لیے بھی یہی اصول ہے اور شہروں میں اس قسم کے باغ لگانا اور بھی مفید ہے کیونکہ وہاں پر جگہ کی کمی ہوتی ہے۔

گرین وال یا معلق باغ لگانے کے ماہرین کا کہنا ہے کہ سبزیوں کا عام گھریلو معلق باغ لگانے کے لیے کنٹینروں ، شیلفوں اور ٹوکریوں کو استعمال کیا جاسکتا ہے جن کو بالکونی یا چوبارے کی دیواروں کے ساتھ منسلک کرکے کم جگہ میں معلق باغ بنانے کاشوق پورا کیا جاسکتا ہے ۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سبزیوں کے معلق باغ میں کون سی سبزیاں اگائی جائیں ، اس کے لیے ماہرین کاکہناہے کہ اس باغ میں ایسی سبزیاں لگائی جاسکتی ہیں جو بیلوں اور پتلی ٹہنیوں پر اگتی ہیںاور ظاہر ہے کہ جڑوں کی صورت میں لگنے والی سبزیاں معلق باغ میں نہیں اگائی جاسکتیں۔ان سبزیوں میں چند کھیرا ، ٹماٹر ، کریلے، مٹر ، لوبیا ، چھوٹا کدو اور دیگر سبزیاں شامل ہیں۔

کم جگہ میں معلق باغ کی صورت میں لگانے کے لیے یہ سبزیاں بہت موزوں ہیں۔ اس قسم کا سبزیوں کا معلق باغ لگانے کا طریقہ یہ ہے کہ اوپر بیان کردہ مختلف چیزوں میں بیج بوئیں اوراس کے بعد دیوار کے ساتھ ساتھ سہارے (سپورٹیں) لگا دیں۔ پودے کچھ بڑے ہونے کے بعد ان سہاروں کے ساتھ خود ہی اوپر کی طرف نکلتے جائیں گے۔یہ سہارے پودوں کو بوتے ہوئے ہی لگادیں کیونکہ بعد میں لگانے کی صورت میں پودوں کا نقصان ہوگا۔اس طرح جو سبزیاں معلق باغ میں لگانے کے لیے موزوں نہیں ان میں مرچیں، کاہو، مولی ، پیاز ، آلو، شکرقندی وغیرہ شامل ہیں۔

سبزیوں کا معلق باغ لگانے کے لیے کس قسم کی جگہ ہونی چاہیے یا کون سی جگہ اس کے لیے موزوں ہوتی ہے ، اس کا جواب یہ ہے کہ ایسی جگہ جہاں سبزیوں کے پودوں کو کم ازکم ایک دن میں چھ گھنٹے دھوپ مل سکے۔اس کے علاوہ ایسی جگہ ہونی چاہیے جہاں آپ پودوں کو آسانی کے ساتھ پانی دے سکیں۔معلق باغ کو ایسے درختوں اور جھاڑیوں سے دور رکھیں جو ان کی دھوپ کو روکنے کا سبب ہوں یا ان کے حصے کا پانی لیتے ہوں۔

ممکن ہو تو باغ کی سمت جنوب کی جانب رکھیں۔اگر آپ کے پاس ایسی جگہ ہے جہاں دھوپ نہیں پڑتی تو اس کے لیے سبز پتے دار سبزیاں جیسے کاہو اور پالک اگائیں کیونکہ یہ بغیر دھوپ کے بھی نشوونما پالیتی ہیں۔معلق باغ میں سب سے پہلے اپنی پسندیدہ سبزی اگائیں تاکہ آپ کو اس کی نگہداشت میں لطف محسوس ہو۔ چھوٹے پیمانے پر اس کا آغاز کریں۔ اگلے سال اور اس سے بھی اگلے سال آپ کا معلق باغ مزید نئی اقسام کی سبزیاں اگانے کے قابل ہوجائے گا۔اس قسم کا سبزیوں کا معلق باغ لگانا ایک دلچسپ سرگرمی ہے جس میں آپ کو اور بعد میں آپ کی پوری فیملی کو بھی مزا آنے لگے گا۔

دنیا کا سب سے بڑا معلق باغ
دنیا کا سب سے بڑا معلق باغ اگانے کا ایوارڈ ایک اطالوی باشندے کو دیا گیا ہے ۔ یہ باغ میلان میں ایک شاپنگ سنٹر کے باہر دیوار پر اگایا گیا ہے اور اس کا رقبہ 1,263 مربع میٹر ہے اوراس میں کوئی چوالیس ہزار پودے لگائے گئے ہیں۔اس باغ کو 2010ء میں لگایا گیا تھا تاہم اسے گذشتہ ہفتے دنیا کے سب سے بڑے معلق باغ کے طور پر تسلیم کیاگیا۔اس باغ کو اگانے والے شخص کا نام فرانسسکو بولانی ہے اور وہ پیشے کے اعتبار سے ایک آرکیٹیکٹ ہے جس نے اپنی تخلیقی ٹیم کے ساتھ مل کر اس منصوبے پر کام کیا۔

بولانی نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ انہیں اس دیوار پر پودے اگانے میں ایک سال کا عرصہ لگا جبکہ اس کی دیوار تیار کرنے میں صرف نوے دن لگے تھے۔اس نے کہا کہ یہ ایک قسم کی سبزے سے لدی عظیم الشان دیوار ہے۔سب سے بڑا معلق باغ اگانے کا پچھلا ریکارڈ میڈرڈ شہر کے ایک شخص کے پاس تھا جو کہ لگ بھگ ساڑھے آٹھ سو مربع میٹر پر محیط تھا۔

جس شاپنگ سنٹر کے باہر یہ باغ بنایا گیا، اس کے ڈائریکٹر سائمن رائو نے بتایا کہ یہ ایک پائیدار آرکیٹیکچر ہے جو کہ ماحول کو محفوظ رکھتے ہوئے خوبصورتی اور توانائی کو ہم آہنگ کرسکتا ہے۔
اس معلق باغ کے ذریعے روزانو میں واقع شاپنگ سنٹر کے درجہ حرارت کو ریگولیٹ کرنے میں مدد ملتی ہے جبکہ یہ براہ راست دھوپ کی شدت کو کم کرتے ہوئے توانائی کے خرچ کو بھی کم کرتا ہے۔یہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کو بھی جذب کرتا ہے اور شور کی شدت کو بھی گھٹاتا ہے۔اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق کہا جاتا ہے کہ جدید دور میں معلق باغات اگانے کا تصور پہلی بار ایک فرانسیسی ماہر تعمیرات لی کوربوژیر نے پیش کیا اور ماہرین تعمیرات کے حلقے میں اس کے تصور کو بہت سراہا گیا۔

اٹلی میں دنیا کا سب سے بڑا معلق باغ اگانے والے بولانی کا کہنا ہے کہ اس نے جس قسم کا باغ بنایا ہے اس کو اگانا اور بعدازاں اس کی نگہداشت کرنا زیادہ آسان ہے کیونکہ یہ باغ چھوٹے چھوٹے دھاتی گملوں کے ذریعے بنایا گیا ہے تاہم اس طرح سے معلق باغ اگانے کا طریقہ روایتی طریقے سے مہنگا ہے۔بولانی نے جو معلق باغ اگایا ہے ، اس پر تیرہ لاکھ امریکی ڈالر لاگت آئی ہے۔

پاکستان کے ’’معلق باغ‘‘ یا ’’معلق جھاڑیاں‘‘
چھوٹے پیمانے پر پاکستان میں بھی ’’معلق باغات‘‘ اگانے کی جانب رجحان بڑھ رہا ہے تاہم یہ کام ابھی ’’منی ایچر‘‘ مرحلے میں ہے اور اگر ان کو معلق باغ کے بجائے معلق جھاڑیاں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ اس قسم کے منی ایچر معلق باغات کو بنانے کا طریقہ ہے کہ لکڑی کے ایک بہت بڑے تختے کو متوازی کھڑا کردیا جاتا ہے۔

اس تختے میں بڑے بڑے سوراخ ہوتے ہیں۔ تختے کو متوازی طریقے سے کھڑا کرنے کے بعد اس کے پیچھے مختلف اقسام کی جھاڑی نما بیلیں لگائی جاتی ہیں۔یہ بیلیں جب بڑھ جاتی ہیں تو ان کی شاخوں کو تختے کے سوراخوں سے دوسری جانب کو نکال دیا جاتا ہے یا یہ خود راستہ بناکر دوسری طرف نکل جاتی ہیں۔مختلف رنگ اور نسل کی جھاڑیوں کو تختے کے پیچھے اس طرح اگایا جاتا ہے کہ جب یہ سوراخوں سے دوسری طرف کو نکلتی ہیں تو ان سے نہ صرف ایک قسم کی معلق جھاڑیوں کی ایک صورت بن جاتی ہے بلکہ ایک دیدہ زیب ڈیزائن بھی وجود میں آجاتا ہے۔

اس طرح کے معلق باغات پاکستان میں مختلف پوش علاقوں اور بڑے بڑے فائیو سٹار ہوٹلوں میں اگانے کا ٹرینڈ چل رہا ہے۔لاہور میں اس قسم کا ایک منی ایچر’’ معلق باغ‘‘ جیل روڈ پر اس مقام پر دیکھا جاسکتا ہے جہاں سے شاہراہ مین بلیوارڈ کی جانب مڑتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔