حکمرانوں کی بے حسی دور کرنے کا طریقہ

نصرت جاوید  جمعـء 7 نومبر 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

امریکا میں ہمارے حوالے سے جن اداروں کو قومی اسمبلی اور سینیٹ کہا جا سکتا ہے ان دونوں کے انتخابات میں اوباما کی ڈیموکریٹ پارٹی کو بہت بڑی شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس شکست کے باوجود اوباما کی خارجہ پالیسی کو خاص مزاحمت نہیں ملے گی۔

تاہم اندرونی طور پر اسے کافی ہزیمتوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اوباما کا سب سے پسندیدہ صحت عامہ سے متعلق ایک جامع پروگرام ہے۔ یہ غریب عوام کی اکثریت کا خیال رکھتا نظر آتا ہے۔ مگر ریپبلکن پارٹی کے امیدواروں کو دوا ساز کمپنیوں اور بڑے اسپتالوں کے مافیا نے باہم مل کر بھاری رقوم فراہم کیں جنہوں نے ان کی جیت کو یقینی بنا دیا۔ امریکا کے سپریم کورٹ میں آیندہ دو سالوں میں کافی ججوں کی نامزدگیاں بھی ہونا ہیں۔ اوباما کے مخالفین اس کے پسندیدہ ججوں کے وہاں پہنچ جانے کے امکانات کو شدت کے ساتھ ختم کرنا چاہیں گے۔

امریکا کے حالیہ انتخابات کو میں نے البتہ ایک قطعی مختلف انداز میں دیکھ کر سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ مجھے اچانک یہ احساس ہوا ہے کہ ایک منتخب صدر کی آئینی مدت کے عین درمیان ہونے والے ایسے انتخابات جمہوری نظام کے استحکام کا بہت بڑا سبب ہیں۔ اوباما نے تبدیلی کے نعرے کے ساتھ نچلے اور متوسط طبقے کے نوجوانوں کو سوشل میڈیا کے بھرپور استعمال کے ذریعے متحرک کرنے کے بعد اپنے ملک کا پہلا سیاہ فام صدر بن کر تاریخ ضرور بنائی۔ مگر اقتدار میں آنے کے بعد وہ اپنے معاشرے میں خاص طور پر معاشی حوالوں سے کوئی معرکتہ لٓارا کارنامے نہ دکھا سکا۔

عراق اور افغانستان کی جنگوں سے اس نے امریکا کو الگ ضرور کیا اور یوکرین جیسے واقعات کے باوجود اپنے ملک کو جنگجویانہ کش مکشوں سے دور بھی رکھا۔ اپنی صلح جُو پالیسی کو لیکن وہ جاندار طریقے سے اپنے عوام کے سامنے پوری طرح بیچ نہ پایا۔ گزشتہ کئی ماہ سے امریکی میڈیا میں اس کے پُرجوش حامی بھی اب یہ کہنا شروع ہو گئے ہیں کہ اوباما ’’تھک‘‘ چکا ہے۔ وہ شاید اپنے دور صدارت سے ’’بور‘‘ ہو چکا ہے اور لوگوں سے الگ تھلگ ہوا بس اپنی بقیہ آئینی مدت پوری کرنے کے بعد گھر جانا چاہ رہا ہے۔ ایک زمانے میں اسے بہت جارح اور مخلص Communicator مانا جاتا تھا۔ ان دنوں مگر وہ ذہنی طور پر ’’گواچا‘‘ ہوا دِکھتا ہے اور لوگوں کے اندر اپنی ذات کے بارے میں پھیلتی مایوسی کے بارے میں قطعی لاتعلق بھی۔

ہمارے ہاں جب حکمران ایسے لمحات میں پہنچ جائیں تو لوگ سڑکوں پر آ جاتے ہیں۔ 2007ء کے بعد عدلیہ کی بحالی کے نام پر چلائی گئی تحریک کے دوران مشرف کے خلاف یہی کچھ ہوا تھا۔ امریکی نظام کی بقا مگر اس حقیقت میں مضمر ہے کہ وہاں کانگریس اور سینیٹ وغیرہ کے انتخابات کسی صدر کی آئینی مدت کے عین وسط میں ہوا کرتے ہیں۔ یہ انتخابات عوام کو اس بات کا بھرپور موقعہ فراہم کرتے ہیں کہ وہ موجودہ صدر کے خلاف اپنے دلوں میں پلتے ہوئے غصے کا اظہار اس کی جماعت کے امیدواروں کے خلاف ووٹ کے ذریعے کر دیں۔یہ پورا انتخابی عمل ایک حوالے سے بلکہ بھرپور Cathartic عمل بن جاتا ہے۔

پاکستان میں نواز حکومت سے مایوسی کا عمل اس سال کے مارچ اپریل سے شروع ہو گیا تھا۔ عمران خان اور طاہر القادری نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے 14 اگست سے اسلام آباد میں آزادی اور انقلاب کی خاطر دھرنے رچا دیے۔ کئی ہفتے گزر جانے کے بعد جب انقلاب نہ آیا تو طاہر القادری مایوس ہو کر کینیڈا واپس روانہ ہو گئے۔ وہ اپنی تحریک جاری رکھنے کے عزم پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ شاید چند دنوں کے بعد لوٹ کر جلسے جلوس شروع بھی کر دیں مگر مولوی مدن والی بات پیدا نہ ہو پائے گی۔

عمران خان ابھی تک اپنے کنٹینر پر براجمان ہیں اور 30 نومبر کو اسلام آباد میں ایک اور بہت بڑا ہجوم اکٹھا کر کے ’’گو نواز گو‘‘ کو یقینی بنانے پر بضد بھی۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ شاید 30 نومبر بھی عمران خان کو ان کی منزل تک نہ لے جا سکے۔ مگر اس دن تک اس حکومت کے بارے میں بے ثباتی کی کیفیت تو برقرار ہے گی اور بے ثباتی کی اس کیفیت کا نواز شریف کے حامی نہ ادراک کرنے کو تیار ہیں اور نہ ہی اس کے تدارک کی واضح حکمت عملی کے ساتھ کوششیں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔

بلدیاتی انتخابات کا انعقاد اس تناظر میں اسی طرح کی ایک Cathartic Exercise ہو سکتی ہے جس کا ادراک مجھے حالیہ امریکی انتخابات کے مشاہدے کی بدولت حاصل ہوا۔ جماعتی بنیادوں پر ہوئے یہ بلدیاتی انتخابات عوام کو بھرپور مواقع فراہم کر سکتے ہیں کہ اگر وہ نواز حکومت سے واقعی تنگ آچکے ہیں تو اپنے غصے اور مایوسی کا اظہار ان انتخابات میں جاندار حصہ لیتے ہوئے کریں۔ ایسے انتخابی عمل کے ذریعے ہمارا جمہوری نظام آئے روز بے ثباتی کی کیفیات پیدا کرنے کے بجائے اسے توانا اور جاندار بنا سکتا ہے۔

یہ توانائی اس وقت شدید تر نظر آ سکتی ہے جب منتخب بلدیاتی ادارے متعلقہ صوبائی حکومتوں سے اپنے لیے زیادہ سے زیادہ اختیارات حاصل کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہو جائیں اور لوگوں کو بتدریج محسوس ہونا شروع ہو کہ صرف اپنے ووٹ کی طاقت کے ذریعے وہ مقامی سطح کے ہزار ہا مسائل کو اپنے نمایندوں کے ذریعے حل کروا سکتے ہیں۔ پانچ سال میں ایک بار عوام کو ووٹ کا حق دے کر اقتدار میں پہنچے ہوئے سیاستدان لوگوں کی روزمرہّ شکایات سے تقریباََ لاتعلق ہو جاتے ہیں۔ ان کی بے حسی دور کرنے کا طریقہ صرف اور صرف مختلف سطحوں پر انتخابات کا بار بار انعقاد ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔