ایک راستہ دو منزلیں

انیس باقر  جمعـء 7 نومبر 2014
anisbaqar@hotmail.com

[email protected]

14 اگست 2014ء کو دو قافلے اسلام آباد کے لیے نکلے، دونوں کا پڑاؤ اسلام آباد  ڈی چوک، قریب قریب دونوں ایک دوسرے کی کمک تھے، جب یہ قافلے اسلام آباد پہنچے تو حکومتی یلغار شدید تھی، شیلنگ، گولیاں اور لاٹھی چارج، سیکڑوں زخمی، گرفتار بلا، اور ہلاکتیں بھی ہوئیں، علامہ طاہر القادری کے کارکن زیادہ چارجڈ، منظم اور مضبوط ارادوں کے مالک تھے، انھوں نے رات بھر کی محاذ آرائی کو پسپا کر دیا۔ عمران خان اس دھرنے میں علامہ طاہر القادری کے معترف بھی نظر آئے، گو کہ  علامہ طاہر القادری زیادہ تجربہ کار تھے مگر انھوں نے دھرنے کے اہداف میں دور اندیشی کا ثبوت نہ دیا اور اپنے قافلے کی روانگی کا نام انقلاب مارچ رکھا اور عمران خان نے اس کا نام آزادی مارچ رکھا۔

علامہ طاہر القادری کا ہدف انقلاب یعنی نظام کی مکمل تطہیر تھی۔ جب کہ عمران خان کا بنیادی مسئلہ انتخابات کی دھاندلی تھا اور چند پولنگ اسٹیشنوں کے نتائج کی جانچ پڑتال تھا مگر  حکومت نے ایک نہ مانی اور نہ عدالتوں میں انصاف ملا۔ انصاف کا حصول بھی اس قدر مہنگا ہے کہ جہانگیر ترین کے انتخابی جانچ پڑتال پر کروڑ روپیہ سے زائد خرچ آ گیا، عام آدمی تو انصاف کے تصور سے ہی کانپ جائے گا۔ ظاہر ہے انتخابات عام آدمی کی پہنچ سے دور ہیں۔

لہٰذا علامہ صاحب کا نعرہ درست تھا کہ جس سسٹم سے انتخابات ہوتے ہیں جب تک کہ اسٹیٹس کو (Status quo) ساتھ نہ ہو یعنی انتظامی لوازمات کی تمام کڑیاں جو برس ہا برس سے چل رہے ہیں ساتھ نہ دیں اور جانبداری کا مظاہرہ کریں تو پھر انتخابات  میں مقبولیت کے تمام پیمانوں کے باوجود جیتنے کا امکان نہیں، اسی لیے  علامہ طاہر القادری نے موجودہ انتخابی نظام کو مسترد کر دیا تھا اور پھر یہ ممکن بھی کیسے تھا کہ انقلاب موجودہ سسٹم میں رہ کر لایا جائے گا۔ انقلابی سسٹم میں عوامی ترجیحات اول اور نظم و نسق کا معاملہ دوئم ہوتا ہے کیوں کہ عوام کو مراعات ملتی ہیں، عوام خود پاسداران انقلاب بن جاتے ہیں اور انقلابی ڈھانچہ مضبوط تر ہو جاتا ہے مگر علامہ صاحب کو اس بات کا ادراک نہ تھا۔ وہ سمجھے تھے کہ تین ماہ میں از خود لوگ جوق در جوق راہ انقلاب پر چلنے لگیں گے۔

یقیناً عوام میں شعور تو بڑھا مگر وہ اشتعال جو عوام میں پیدا ہوتا انقلاب کے لیے اس کو علامہ صاحب خود امن و آشتی اور ڈسپلین کی بات کر کے کم کر دیتے تھے۔ گویا وہ خود انتخابی راستے پر عوام کو چلانا چاہتے تھے جب کہ عمران خان اپنے دائرے سے باہر نہ نکلے وہ نظام کو بدلنے کی بات نہیں کرتے۔ وہ اصلاحات کی باتیں کرتے ہیں۔ بلاشبہ  برطانیہ اور امریکا جیسا فلاحی نظام چاہتے ہیں جس کا اظہار وہ ڈی چوک پر اپنی تقریروں میں کرتے رہے۔ جب کہ علامہ صاحب تو انقلابات عالم کا تذکرہ کرتے رہے۔

انقلاب فرانس، چین انقلاب اکتوبر ظاہر ہے ایک جاگیرداری سماج میں وہ انقلاب جو مزدوروں اور ہاریوں کے حقوق کی باتیں کرے کیونکر اور کب تک برداشت کیا جا سکتا ہے ہاں البتہ اگر ہاریوں کو دس بیس ایکڑ زمینیں الاٹ کر دی جائیں اور آبپاشی نظام میں بہتری لائی جائے تو نہ صرف ہاریوں کی زندگی بہتر ہو بلکہ ملکی حالات میں اجناس کی قیمتوں میں کمی ہو۔ دھرنوں کی سیاست سے جو فائدہ ہونا تھا وہ یقیناً ہوا، اربوں کھربوں روپیوں سے وہ پیغام عوام تک اشتہار کی شکل میں نہ جاتے جو تقریر کی شکل میں عوام نے دیکھا، سنا اور اس کی روحانی اور اخلاقی تربیت ہوئی اسی لیے  علامہ طاہر القادری اور عمران خان کے جلسوں میں عوام کا ہجوم دکھائی دیتا رہا جب کہ حکمران اپنی پوزیشن کو کمزور تر کرتے نظر آئے۔

کنٹینر کی سیاست نے دونوں رہنماؤں کو مقبول تر بنا دیا کئی ماہ سے عمران خان کا خطاب، تعلیم، صحت، بجلی اور پٹرول کے موضوع پر جاری تھا بجلی کی اضافی بلنگ جو 70 ارب روپے کے لگ بھگ ہے آج تک وزیر اعظم کی کابینہ اس کا فیصلہ نہ کر سکی کہ اس کو کس طرح حل کیا جائے کیوں کہ یہ معاملہ تو عمران خان نے عوام کی عدالت میں ڈال دیا ہے اور یہ ایک مقبول موضوع گفتگو ہے، مزید عمران خان کا بجلی کے میٹروں کے متعلق ان کا بیان کہ بجلی مہنگی ایک طرف تو دوسری طرف میٹر کا 30 فیصد تیز گھومنا، بجلی کے یہ اضافی بل عام طور پر غریب بستیوں کے ساکنان پر لگائے گئے اور ان کو ذہنی انتشار میں مبتلا کیا جاتا ہے بجلی کے بل کا مسئلہ آج نہیں تو کل حل  ہونا ہے حکومت کی اس فاش غلطی نے بجلی چوری کے رجحان کو اور تقویت دی ہے کیوں کہ ایسی حرکتوں سے کمزور کردار کے لوگوں کو غلط فیصلہ کرنے میں مدد ملتی ہے۔

لہٰذا اگر حکومت نے سنجیدگی سے کام لینے کے بجائے چالاکی سے کام لیا تو حکومت کو مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا کیوں کہ اس وقت حزب مخالف کا قلم دان اسمبلی ہال کے بجائے ڈی چوک کے کنٹینر پر رکھا ہے اور عمران خان کے مطالبات بھی ایسے ناقابل عمل نہیں ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کو کوئی خطرہ ہو کہ یہ تو پورا نظام ہی پلٹا جا رہا ہے اور نہ مغرب کو کسی قسم کا کوئی خطرہ محسوس ہو کہ خارجہ پالیسی میں کوئی بڑا تغیر آنے کو ہے جب کہ  علامہ طاہر القادری نے اپنے آیندہ کے منشور میں معاشی پالیسی واضح کرتے ہوئے یہ کہا کہ وہ اگر ضرورت پڑی تو آئی ایم ایف کے بجائے روس، چین، برازیل کی وضع کردہ (BRICS) برکس سے رجوع کریں گے۔

اس بات سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ خارجہ پالیسی اور داخلہ پالیسی میں تبدیلی کے خواہاں ہیں اور خصوصاً براڈ کاسٹنگ اور ٹیلی کمیونیکیشن پالیسی میں بھی بہتری کے طلب گار ہیں۔ پاکستان میں چائنا، رشیا، جرمنی اور دیگر ممالک کے چینل بند ہونے کی وجہ سے ملک میں ایک مخصوص ذہن پرورش پا رہا ہے جو مغربی دنیا کی نہ صرف معاشی ترقی کا حامی ہے بلکہ مغربی سیاسی افکار کو ہی دنیا کے مسائل کا مداوا سمجھتا ہے۔ ظاہر ہے علامہ صاحب کی یہ سوچ کسی طرح بھی مغرب کے حق میں نہیں جاتی اسی لیے پاکستان میں علامہ صاحب کو عمران خان کے مقابلے میں اہمیت نہ دی گئی،  گو کہ نفس مضمون، فلسفہ و منطق اور شماریات کی رو سے  علامہ طاہر القادری کی تقاریر خاصی وزنی تھیں مگر عمران خان نے اپنے جلسوں کو گلیمر سے مزین کر رکھا تھا ان دھرنوں میں کنسرٹ اور بے تکان تبدیلی کی خوبو تھی جس کو مولانا فضل الرحمن نے ایک غلط رنگ میں پیش کیا۔

فیصل آباد کے جلسے کو  علامہ طاہر القادری نے بھی بہت حد تک رنگین اور انقلابی رکھا گو کہ یہ جلسہ مزدور اور کسان مطالبات کا مظہر تھا مگر عام لوگوں کے مطالبات گھریلو بجٹ تک اس جلسے میں شامل تھا۔ تاہم عمران خان پبلک کی نفسیاتی ترجیحات کو زیادہ سادہ اور بہتر چیزوں کو پیش کرتے رہے وہ چند چیزوں پر اصرار کرتے رہے اور ایک مطالبے کو بار بار دہراتے رہے یہاں تک کہ ان کے سامعین کو وہ مطالبات یاد ہو جائیں مثلاً پٹرولیم مصنوعات کی جانب انھوں نے اپنے جلسوں میں کم از کم دس پندرہ بار قیمتوں کے کم کرنے کا مطالبہ دہرایا کہ سال بھر کے قریب ہو گیا ۔

پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم نہ کی گئیں جب کہ پوری دنیا میں ایسا ہوا اور اب جب کہ اوسطاً 10 فی صد قیمتیں کم ہوئیں تو اس حکومتی عمل کا تمام تر کریڈٹ پی ٹی آئی کو گیا اسی طرح بجلی کے نرخوں پر عمران خان کا بار بار اصرار ہے 70 ارب کی زیادہ بجلی کی مد میں بلوں کا ریکارڈ چل رہا ہے اور جس وقت بھی یہ مسئلہ حل ہو گا اور عوام کو یہ رقم واپس کی جائے گی تو اس کا تمام تر فائدہ عمران خان کو پہنچے گا اور اگر یہ رقم طے نہ ہوئی تو عمران خان کا الزام حکومت وقت پر کامیابی سے لگایا جائے گا گو کہ مرکزی وزیر اطلاعات پرویز رشید صاحب نے یہ کریڈٹ حکومت وقت کو دینا چاہا مگر یہ معاملہ مطالبات سے بروقت میل نہ کھا سکا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پٹرولیم مصنوعات نے قیمتوں کے بڑھنے کے رجحان پر ضرب لگائی ہے اسی طرح اسی طریقے سے نجکاری کے خلاف موضوع کو عمران خان نہایت چابکدستی سے ہینڈل کر رہے ہیں اور ان کا وار بروقت اور بر محل ہوتا ہے ان کا واویلا کہ اسٹیل مل جو کبھی 8 ارب روپیہ سالانہ منافع دیتی تھی اور ہزاروں لوگ برسر روزگار تھے وہ بند ہو چکی ہے

۔ اسی طرح یوٹیلٹی اسٹورز میں کروڑوں روپیہ کا نقصان کیا معنی؟ یقیناً قیمت فروخت قیمت خرید سے زیادہ ہو گی تو پھر یہ کیونکر ایسا ہوا ہے؟ اس بات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ حکومتی اداروں میں میرٹ پر کام نہیں ہو رہے اور عمران خان بروقت کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے جہاں حکومتی کوتاہی نظر آتی ہے اب جب کہ انقلاب بذریعہ بیلٹ پیپر کی تیاری میں طاہر القادری اپنی ٹیم کو تیار کر رہے ہیں۔ لازماً  اس کے کچھ نہ کچھ نتائج تو بر آمد ہوں گے اور آنے والے انتخاب میں اس بات کا عندیہ ملتا ہے کہ عمران خان کی پارٹی والے  علامہ طاہر القادری کی پارٹی سے انتخابی اتحاد ضرور کریں گے۔

کیونکہ اس کے بہتر نتائج برآمد ہوں گے البتہ یہ معرکہ کٹھن ہو گا کیونکہ ہر پارٹی کو اپنی برتری دکھانی ہوتی ہے البتہ پی ٹی آئی زیادہ نشستوں پر انتخاب لڑے گی اب اس کے وقت کا تعین فی الحال ممکن نہیں البتہ عمران خان اس وقت دوڑ میں سب سے آگے ہیں ۔ ان کی منزل قریب تر مگر طاہر القادری کی منزل کٹھن اور فاصلہ طویل تر ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔