پاکستان کا بھارت کو جرأت مندانہ انکار

 جمعـء 7 نومبر 2014
کشمیری ’’بھارتی علیحدگی پسند‘‘ نہیں بلکہ یہ ایک مقبوضہ علاقے کے عوام ہیں جو اپنے حق خود ارادیت کے لیے جدوجہد کررہے ہیں۔  فوٹو: فائل

کشمیری ’’بھارتی علیحدگی پسند‘‘ نہیں بلکہ یہ ایک مقبوضہ علاقے کے عوام ہیں جو اپنے حق خود ارادیت کے لیے جدوجہد کررہے ہیں۔ فوٹو: فائل

جنت نظیر وادی کشمیر پر بھارت کا غاصبانہ قبضہ تقریباً سات دہائیوں سے جاری ہے اور وہ اس وادی کے  مسلمانوں کو ان کا حق خود ارادیت دینے سے انکاری ہے جو کہ اقوام متحدہ نے باقاعدہ ایک قرارداد کے صورت میں تسلیم کر رکھا ہے۔

پاکستان کشمیر پر بات کرتا ہے تو بھارت بہانے بازیوں سے بات کرنے سے انکار کر دیتا ہے، پاکستان عالمی برادری سے کچھ کہے تو اعتراض ہوتا ہے کہ شملہ سمجھوتے کے تحت یہ مسئلہ باہمی طور پر طے ہو گا کسی تیسرے فریق کو شامل نہ کیا جائے ۔ اب بھارت پاکستان سے بات چیت کے لیے مختلف شرائط عاید کرنے کی بات کر رہا ہے لیکن پاکستان نے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ بھارت کی جانب سے امن بات چیت کی بحالی کے لیے کسی بھی قسم کی شرط کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔

دفتر خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم نے جمعرات کے دن اپنی ہفتہ وار بریفنگ میں کہا کہ پاک بھارت ڈائیلاگ کسی ایک ملک کا دوسرے پر احسان نہیں بلکہ یہ اس خطے میں قیام امن کے لیے ضروری ہے لیکن بھارت کے ساتھ جامع مذاکراتی عمل کے دوبارہ آغاز کے لیے کوئی شرط قبول نہیں کی جائے گی۔ ترجمان دفتر خارجہ کی سب باتیں بجا ہیں مگر ہمارا واسطہ چونکہ بدفطرت دشمن سے ہے اس لیے اسے امن و آشتی کی یہ باتیں پسند نہیں آئیں گی۔

کشمیریوں کو بھارت کی طرف سے علیحدگی پسند کہنے کے جواب میں ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ کشمیری ’’بھارتی علیحدگی پسند‘‘ نہیں بلکہ یہ ایک مقبوضہ علاقے کے عوام ہیں جو اپنے حق خود ارادیت کے لیے جدوجہد کررہے ہیں۔ انھوں نے امریکی محکمہ دفاع کی رپورٹ میں پاکستانی اداروں کے نان اسٹیٹ ایکٹرز کے ساتھ مبینہ رابطوں کو بے بنیاد اور ناقابل قبول قرار دیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔