پاکستانی اور امریکی حکمرانوں کے شب و روز

نصرت جاوید  ہفتہ 8 نومبر 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

امریکی کانگریس اور سینیٹ میں اوباما کی جماعت کی جانب سے کھڑے امیدواروں کی بدترین شکست نے اس ملک کے کالم نگاروں کی اکثریت کو اس سوال کا جواب ڈھونڈنے میں مصروف کر دیا ہے کہ اپنی آئینی مدت کے بقیہ دو سالوں میں صدر اوباما اپنے رویے اور پالیسیوں میں کوئی بنیادی تبدیلی لائیں گے یا وائٹ ہاؤس میں باقی رہ گئے اپنے دو سالوں کو بھی تنہائی، بے زاری اور شکست خوردگی کے جذبات کے ساتھ گزار دیں گے۔

ہمارے ہاں قومی انتخابات ہوئے ابھی دو سال بھی نہیں گزرے مگر 2014ء کے موسم بہار کے آغاز کے ساتھ میڈیا کے ذریعے یہ تاثر بہت تیزی سے پھیلنا شروع ہو گیا کہ نواز حکومت کا ’’مزا‘‘ نہیں آ رہا۔ اس میں وہ گرم جوشی اور توانائی ہرگز نظر نہیں آ رہی جو اس کے گزشتہ دو ادوار کے ا بتدائی مہینوں میں کم از کم معاشی محاذ پر بہت نمایاں نظر آیا کرتی تھی۔ ہمارے ملک میں موبائل فون اور انٹرنیٹ وغیرہ کے بھرپور استعمال کا آغاز ان ہی ادوار میں ہوا۔

لاہور- اسلام آباد موٹروے پراجیکٹ جیسے میگا منصوبے متعارف کروائے گئے اور وزیر ا عظم نواز شریف نے کئی ایسے جارحانہ اقدامات لیے جنہوں نے کم از کم یہ تاثر اجاگر کیا کہ مسلم لیگ نواز پاکستان میں صنعت کاری کو فروغ دینا چاہتی ہے اور اس حوالے سے ان تمام رکاوٹوں کو تیزی کے ساتھ ختم کرنا چاہ رہی ہے جو دُنیا کے ہر ملک میں روایتی بیوروکریسی کاروباری حضرات کی انفرادی پہل کاری کو کند کرنے کے لیے استعمال کرتی ہے۔

قومی معیشت کی بحالی اور اسے متحرک اور جاندار بنانے کے لیے نظرآنے والی سرگرمی کی عدم موجودگی میں تاثر بلکہ یہ ابھرا کہ اپنے گزشتہ ادوار کی طرح نواز شریف اس بار بھی اپنے عہدے کے لیے مکمل اختیارات حاصل کرنے کی لگن میں ریاست کے دائمی اداروں سے ’’خوامخواہ کے جھگڑے‘‘ مول لے رہے ہیں۔ نواز حکومت ماضی میں دو مرتبہ اپنی مدت پوری نہ کر پائی تو اصل وجہ اس کی اسی نوعیت کے جھگڑے تھے۔

طاہر القادری اور عمران خان نے شیخ رشید جیسے تجربہ کار بقراطوں کی رہ نمائی میں لہذا فوراََ یہ طے کر لیا کہ نواز حکومت کا جانا ٹھہر گیا ہے اور 14 اگست کو اسلام آباد پہنچ کر ایمپائر کی اُنگلی کھڑی ہونے کا انتظار کرنا شروع ہو گئے۔ غلطی ان دونوں سے مگر یہ ہو گئی کہ وہ ہرگز سمجھ نہ پائے کہ تاریخ اپنے آپ کو شاید دہرایا تو ضرور کرتی ہے۔ مگر ماضی کی نمایاں مثالوں کو فوٹو کاپی کی صورت ایک بار پھر ہمارے سامنے نہیں لایا کرتی۔ وقت کے ساتھ ساتھ اقتدار واختیارات کے حوالے سے برپا کش مشکوں کی حرکیات مسلسل بدلتی رہتی ہیں۔

ثبات، جیسا کہ شاعر مشرق فرما چکے ہیں، صرف تغیر کو ہے زمانے میں۔ آزادی اور انقلاب مارچ والے جس انداز میں ’’گو نواز گو‘‘ دیکھنے کے منتظر تھے وہ 2014ء کے ٹھوس عالمی اور مقامی تناظر میں ممکن ہی نہیں تھا۔ ان دونوں کو البتہ بہت بڑی کامیابی یہ ضرور نصیب ہوئی کہ ہمارے ملک میں منتخب حکومت ہی نہیں بلکہ پورے جمہوری نظام کی بنیادی کمزوریاں خلق خدا کے سامنے لے آئے۔ ان کی بدولت پیدا ہوئی بے ثباتی کی فضاء نے ہمارے معاشرے کے متحرک عناصر کو تقریباََ مفلوج بنا کر رکھ دیا۔ قادری صاحب اپنے انقلابی خیمے لپیٹ کر کینیڈا تشریف لے گئے تو کچھ امید بنی کہ شاید نواز حکومت اب کچھ جان پکڑے گی۔

اس کے سرکردہ لوگ سر جھکا کر بیٹھیں گے اور گھنٹوں تک پھیلے مباحثوں کے بعد کوئی نیا بیانیہ تراش کر اپنے بارے میں متحرک اور جاندار ہونے کا تصور پیش کریں گے۔ میرے وہ صحافی دوست جو حکومت کے راز ہائے درونِ خانہ کی خبر رکھتے ہیں اکثر اپنی تحریروں میں یہ عندیہ دیتے رہتے ہیں کہ نہ جانے کب اور کہاں ہوئی طویل سوچ بچار کے بعد اب نواز حکومت نے کوئی نئی Play Book تیار کر لی ہے۔ میرے اس کالم کے لکھنے تلک مگر برسرِ زمین کوئی نئی بات ہوتی نظر نہ آئی۔

پرویز رشید کو ان دنوں بھی عمران خان کے بارے میں روزانہ کوئی نہ کوئی طنزیہ بات کہنا ہوتی ہے۔ ایک طلال چوہدری صاحب بھی ہیں جو ہر روز ٹی وی اسکرینوں پر مخالفین سے نبردآزما رہتے ہیں۔ چوہدری نثار علی خان کو ایک زمانے میں طولانی پریس کانفرنسیں کرنے کا بہت شوق ہوا کرتا تھا۔ ان دنوں وہ کبھی کبھار کوئی مختصر سا بیان جاری کر دیتے ہیں۔ سرتاج عزیز صاحب کو صحافیوں سے گفتگو کی عادت نہیں۔ خارجہ امور کے بارے میں نواز حکومت کی ترجیحات اور پالیسیوں کے بارے میں ہم بالکل بے خبر ہیں۔

آصف زرداری جن دنوں ایوانِ صدر میں براجمان تھے تو شہباز شریف ’’علی بابا‘‘ کو زچ کرنے میں ہمہ وقت مصروف دکھائی دیتے تھے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے بعد وہ بھی بجھے بجھے سے نظر آ رہے ہیں۔ باخبر ذرایع سے مجھ تک یہ بات پہنچی ہے کہ شہباز صاحب گزشتہ چند ہفتوں سے پاکستانی سیاست پر نظر رکھنے والے چند دانشور نوعیت کے معززین سے اکیلے میں ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ اپنی روایاتی بے چینی اور جلد بازی کے ساتھ بہت خلوص سے سمجھنا یہ چاہ رہے ہیں کہ معاملات کیسے اور کہاں بگڑے اور ان کو پٹڑی پر دوبارہ ڈال کر کیسے تیز رفتاری کے ساتھ رواں کر دیا جائے۔ انھیں معاملات کی بہتری کے لیے جو نسخے تجویز ہوئے ان کی سن گن مجھ تک بھی پہنچی۔ مگر برسرزمین ہوتا کچھ بھی نظر نہیں آرہا۔

اب تو مجھے یقین سا ہو چلا ہے کہ نواز شریف ہوں یا شہباز صاحب، چوہدری نثار علی خان ہوں یا پرویز رشید یہ تمام حضرات 1990ء کی دہائی میں اپنی توانائیوں کے بھرپور استعمال کے بعد کچھ تھک سے گئے ہیں۔ طویل جلاوطنی کے ایام میں نواز شریف صاحب نے جلد سو جانے کی عادت اپنا لی تھی۔ باوثوق ذرایع سے خبر ملی ہے کہ وہ تیسری مرتبہ وزیر اعظم بن جانے کے بعد بھی اس عادت کو اپنائے ہوئے ہیں۔

رات کا کھاناتناول کرنے کے بعد تھوڑا وقت فیملی کے ساتھ گزارنے کے بعد وہ اپنے بیڈروم میں جا کر بتیاں گل کر لیتے ہیں۔ ہمارے ٹی وی اسکرینوں پر شام سات بجے سے رات بارہ بجے تک جو شوروغوغا برپا رہتا ہے موصوف اسے دیکھنے سے اجتناب فرماتے ہیں۔ ان کا اسٹاف ٹاک شوز میں ہوئی گفتگو کی کوئی بے جان سی رپورٹ تیار کر کے انھیں بھیج دیتا ہے۔ ہاں چند اینکر حضرات یا ٹاک شوز ہیں جن کی Repeat Telecast یا ریکارڈنگ وہ خود کبھی کبھار دیکھ لیتے ہیں۔

صدر اوباما کے ذاتی معاملات پر گہری نظر رکھنے والے امریکی صحافی ان کے بارے میں ویسی ہی باتیں رپورٹ کر رہے ہیں جو میں وزیر اعظم صاحب کے معمولات کے بارے میں باخبر لوگوں سے سنتا رہتا ہوں۔ میری دانست میں صدر اوباما ان معمولات کو وائٹ ہاؤس میں آخری دو سال رہ جانے کی وجہ سے شاید افورڈ کر سکتے ہیں۔ نواز شریف صاحب کے لیے ایسا رویہ صرف ان کے ذاتی اقتدار کے لیے ہی نہیں بلکہ ہمارے ابھی تک کمزور جمہوری نظام کی ساکھ اور استحکام کے لیے بہت خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ ہمیں کوئی تازہ بیانیہ دکھا کر اسے بیچنے سے پہلے وزیر اعظم کو اپنے روزمرہّ معمولات میں جارحانہ تبدیلیاں لانا ہوں گی۔ ورنہ اداسی ہی اداسی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔