ٹرانسپورٹ کا شعبہ

ایم آئی خلیل  ہفتہ 8 نومبر 2014

پاکستان میں اگر شروع سے ٹرانسپورٹ کے شعبے پر بھرپور توجہ دی جاتی اور یہ شعبہ جدید ترین اور انتہائی ترقی یافتہ ہوتا تو آج ہمارا رابطہ وسطی ایشیائی ممالک کے علاوہ ترکی کے راستے دنیا بھر سے جڑا ہوا ہوتا۔ حالانکہ سیکڑوں سال قبل جی ٹی روڈ نے بنگال سے کابل تک کا راستہ اختیار کر رکھا تھا۔

جو بنگلہ دیش کے ساحلی شہر چٹاگانگ سے شروع ہوکر کئی دریا عبور کرکے کلکتہ پہنچتا ہے، جہاں سے اپنا سفر جاری رکھتے ہوئے بہار کی حدود عبور کرکے یوپی سے ہوتے ہوئے پنجاب میں داخل ہوکر دریائے سندھ بھی عبور کرکے پشاور سے ہوتے ہوئے جلال آباد کے راستے کابل تک پہنچتی ہے۔ اور یوں ڈھائی ہزار میل کے سفر کی تکمیل ہوتی تھی۔ جی ٹی روڈ جنرل ٹرنک روڈ جوکہ قیام پاکستان کے بعد پاکستان کے حصے میں آئی اس نے اپنے راستے میں آنے والے قصبوں اور شہروں کی ترقی میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ سڑکیں جو شہروں کو دیہاتوں سے ملاتی ہیں جس کے باعث پھل، سبزیاں، اناج اور دیگر اشیا منڈیوں تک پہنچ پاتی ہیں۔

ملک عزیز میں آج بھی ایسے دیہی علاقے ہیں جہاں اب بھی کچی سڑک ہی جاتی ہے اور ہزاروں من پھل، سبزیاں وغیرہ اپنے ہی کھیتوں میں گل سڑ جاتے ہیں کہ بارش و سیلاب و برسات کے باعث کچے راستوں کے ذریعے اب ترسیل ممکن نہیں۔ برٹش دور میں پاکستان کے علاقوں میں بہت ہی کم سڑکوں کا جال بچھایا گیا تھا اور اس کمی کو بتدریج سڑکوں کی تعمیر کے ذریعے پورا کیا گیا۔ پھر ان سڑکوں کے ذریعے عوام کو سفری سہولیات مہیا کی جانے لگیں، اس کا بیشتر حصہ ناکارہ اور کھٹارا بسوں کے ذریعے مہیا کیا گیا۔ جس کے باعث دو تین گھنٹوں کا سفر کئی پہروں کا احاطہ کرتے ہوئے صبح سے شام میں طے ہوتا تھا۔ اور مسافروں کے لیے انتہائی زحمت کا باعث بھی جب کہ ہر دور میں کرایے کی باتیں آسمان سے ہوتی رہیں۔

ٹرانسپورٹ مافیا کا راج رہا۔ جس کے آگے ہر کوئی بے بس نظر آتا۔ بڑھا کر کرایہ وصول کرنا معمول بن گیا۔ حتیٰ کہ عید، بقر عید یا دیگر چھٹیوں کے دن جب لوگ اپنی چھٹیاں گزارنے اپنے آبائی علاقوں کی جانب روانہ ہوتے تو ان کی سفری تکلیفات کا آغاز کرایہ سنتے ہی ہوجاتا۔ ناجائز منافع خوری کے باعث ٹرانسپورٹرز اپنی بسوں اور ویگنوں کی تعداد بڑھاتے چلے جاتے ہیں جس کے باعث سڑکوں پر ان کی تعداد میں بھی مسلسل اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ لیکن اس کے باوجود پاکستان کے کسی بھی شہر کے کسی بھی اسٹاپ پر چلے جائیں سیکڑوں کی تعداد میں لوگ بسوں، ویگنوں کے انتظار میں کھڑے ہوتے ہیں۔ قطار میں لگ کر بھی لوگ سیٹ حاصل کرنے سے محروم رہتے۔

البتہ دھکم پیل میں طاقتور کی امید بر آتی وہ سیٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتا۔ بس گزرنے کے بعد اسے حسرت و یاس سے دیکھنے والوں کی تعداد پھر سیکڑوں میں ہی رہ جاتی۔ مئی جون کی چلچلاتی دوپہر ہو تو سورج کی تیز شعائیں چین لینے نہیں دیتیں اور اگر ماہ دسمبر و جنوری ہو تو یخ بستہ ہوائیں کھڑا ہونے نہیں دیتیں۔ یا اندھیری رات ہو تو پھر گھنٹوں دوسری بس کے انتظار میں کھڑے رہتے ہیں۔ ملک میں ہزاروں بس اسٹاپ ہیں لیکن کہیں سائے کا انتظام نہیں۔ پانی بے شک ٹھنڈا نہ ہو اس کا بھی بندوبست نہیں۔ سیٹ جیسی بھی کیوں نہ ہو وہ بھی موجود نہیں۔ کسی حکومت یا کسی سیاسی جماعت نے یہ مطالبہ نہیں کیا کہ ان مسافروں کے بھی کچھ حقوق ہیں۔

اگرچہ کراچی کی سڑکوں پر ٹرانسپورٹ کی بھرمار ہے لیکن کسی بھی روٹ میں چلنے والی ویگن کو دیکھیں تو اندر اگر 60-70 افراد موجود ہیں تو چھت کے اوپر بھی 60-70 افراد براجمان ہیں۔ کسی کو کہیں جگہ نہ ملی تو پائیدان پر لٹک گیا یا پھر بس کے پیچھے پیر ٹکا دیا۔ مجبور و بے بس مسافر آخر کسی کو جلدی گھر پہنچنا ہے تو کسی کو ڈیوٹی پر پہنچنا ہے۔ آخر انتظار کتنا کریں کوئی بھی بس ویگن ایسی نہیں گزرتی جس میں تل دھرنے کو بھی جگہ ہو۔ کچھ عرصے سے کم فاصلوں کے سفر کے لیے ’’چنگ چی‘‘ کو لوگ ترجیح دینے لگے تھے۔ جس سے لوگوں کو روزگار میسر آنے لگا تھا۔ بہتر ہے کہ ’’چنگ چی‘‘ کی تمام تر خامیوں کو بتدریج دور کیا جائے، اور عوام کے سفری سہولیات کے لیے اسے معیاری بنایا جائے۔

اگر ٹرانسپورٹ گروپ کی درآمدات کی بات کی جائے ۔ اس گروپ کی مد میں بسیں، کاریں، ویگنیں، ٹرک اور دیگر ایکوپمنٹ وغیرہ کی درآمدات 2013-14 میں 2 کھرب 24 ارب روپے کی تھیں۔ جب کہ گزشتہ تین ماہ یعنی جولائی 2014 تا ستمبر 2014 کے دوران ٹرانسپورٹ گروپ کی درآمدات کا مالیاتی حجم 63 ارب روپے کی تھیں۔ اگرچہ ملک میں بسیں، کاریں وغیرہ تیار ہو رہی ہیں لیکن ان کی تعداد اب بھی بہت کم ہے اور ہم اربوں ڈالر کا زرمبادلہ مہنگی گاڑیاں، بسیں، ویگنیں وغیرہ منگوانے پر صرف کر رہے ہیں۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے بعد اس بات کی توقع تھی کہ شہری علاقے جہاں کرایے 15 تا 20 روپے وصول کیے جا رہے ہیں۔

ان کرایوں میں 3 سے 4 روپے کی کمی کردی جائے گی۔ لیکن کراچی کے ٹرانسپورٹرز نے طویل بحث مباحثے کے بعد محض ایک روپے کی کمی کی ہے۔ پنڈی، اسلام آباد کے ٹرانسپورٹرز نے کرایوں میں 2 روپے کی کمی کی ہے۔ پنجاب میں ایک شہر سے دوسرے شہر جانے والی بسوں نے کرایہ نہ بڑھانے کے لیے مختلف طریقے اختیار کر رکھے ہیں۔ جس کے باعث بس اڈے سے تو مسافروں سے 5 یا 10 روپے کم وصول کیے جاتے ہیں لیکن ایک آدھ میل کے بعد چھوٹے اڈے پر پہنچتے ہیں جہاں مسافر منتظر ہوتے ہیں لہٰذا ان کی مجبوری کا فائدہ اٹھاکر ان سے پورا کرایہ وصول کیا جاتا ہے۔

کرایوں میں نمایاں کمی ممکن ہے اور اس کے باعث تمام اشیا کی قیمتیں بتدریج کمی کی جانب گامزن ہوسکتی ہیں۔ بشرطیکہ پہلے کرایوں میں نمایاں کمی بقدر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے کی جائے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مزید کمی بھی ممکن ہے کیونکہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں مزید کمی واقع ہوئی ہے۔ حکومت اس موقع سے فائدہ اٹھائے اور سب سے پہلے بجلی کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کرے۔ یہاں ایک بار پھر آئی ایم ایف کے دباؤ پر بجلی کی قیمتوں میں مزید 52 پیسے کا اضافہ کیا جا رہا ہے ۔ اکثر یہی ہوتا ہے کہ آئی ایم ایف کے مطالبے پر بجلی کی قیمت بڑھائی جاتی ہے اس کے ساتھ ہی جلد ہی گیس کی قیمت میں بھی اضافہ کیا جاتا ہے۔

جن کو دیکھتے ہی ملکی و غیرملکی سرمایہ کار نئی سرمایہ کاری سے منہ موڑ لیتے ہیں۔ دوسری طرف حکومت نے گندم کے نرخ بھی بڑھا دیے ہیں لیکن یہ دیکھنا بھی ہوگا کہ کہیں آٹے کی قیمت میں 6 یا 7 روپے کا اضافہ نہ کردیا جائے۔ راقم کی تجویز یہ ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مزید کمی کی جائے اور بجلی کی قیمت بھی کم کی جائے۔ اب اس کمی کو مدنظر رکھتے ہوئے ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں کمی لائی جائے اور اسی نسبت سے ہر شے کی قیمت میں کمی لائی جائے لیکن ان کے لیے ضروری ہے کہ پہلے ماہرین متعلقہ شعبے کے افراد اور حکام مل کر اس بات کا تعین کریں کہ کرایوں میں کتنی کمی ہو اور پھر اس کمی کے باعث اشیا کی قیمتوں میں کتنی مزید کمی ہوسکتی ہے، اب اس کمی کو عملی طور پر نافذ کرنے کے لیے وفاقی حکومت اور صوبائی حکومت سب کو مل کر آہنی ہاتھ سے نمٹنا ہوگا۔

کیونکہ عموماً یہی ہوتا ہے کہ حکومت متعلقہ مافیاز سے درخواست ہی کرتی رہتی ہے کہ قیمتیں کم کی جائیں۔ لیکن کوئی ٹس سے مس نہیں ہوتا۔ بلکہ قیمت کم کرنے کے بجائے الٹی گنگا بہنے لگتی ہے اور اشیا کی قیمت موقع ملتے ہی بڑھا دی جاتی ہے۔ عوام کے لیے جہاں مہنگائی ایک عذاب بن چکی ہے۔ عوام کو چھٹکارا دلانا حکومت کا فرض ہے اور یہ ایک اچھا موقع ہے کہ اگر حکومت سختی کے ساتھ معاملات کو نمٹانا چاہے تو ایسا کرنا ممکن ہے۔

جس کے باعث مہنگائی میں کمی واقع ہوسکتی ہے۔ اور یہ حکومت کے لیے بھی ایک بہترین موقع ہوگا۔ اور اس کی شروعات ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں کمی اس شعبے میں اصلاحات اس شعبے میں عوام کو درپیش مسائل کا حل، عوام کو ٹرانسپورٹ کی بہترین سہولیات کی فراہمی، بس اسٹاپ پر سہولیات کے علاوہ کرایوں میں معقول کمی اور پھر اس پر سختی سے عملدرآمد کرانا یہ صوبائی حکومت کی ذمے داری ہے اس سلسلے میں معاونت فراہم کرنا وفاقی حکومت کی ذمے داری ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔