طویلے کی بلا، بندر کے سر

رئیس فاطمہ  اتوار 9 نومبر 2014
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

جب بھی بدقسمتی اور حکومتی لاپرواہی سے دہشت گردی کے حملوں میں بے شمار لوگ اجل کی وادی میں پھینک دیے جاتے ہیں اور ایسی ہولناک وارداتوں کے چند منٹ بعد ہی، جب پہلے سے تیار شدہ بیانات ٹیلی ویژن پہ پٹیوں کی صورت میں چلنے شروع ہو جاتے ہیں، جن میں تباہ کن حملوں میں ہمیشہ کسی ’’بیرونی ہاتھ‘‘ کے ملوث ہونے کی کہانی ضرور ہوتی ہے۔ یہ ایک انتہائی آسان اور بھونڈا طریقہ ہے، اپنی نااہلی چھپانے کا۔ گزشتہ حکومت کے دور میں بھی ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔

یہ ’’بیرونی ہاتھ‘‘ ہمیشہ وزیر داخلہ، وزیر دفاع، وزیر اعلیٰ اور پولیس کے اعلیٰ افسران ہی کو اپنی موجودگی اور مہارت کی اطلاع دیتا ہے۔ جب کہ گزشتہ کئی سال کے درمیان ہونے والی دہشت گردی کی ان وارداتوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو ہمیشہ ایک بات مشترکہ نظر آئے گی کہ باوجود خفیہ اداروں کی انٹیلی جنس رپورٹ کے، سیکیورٹی لیپس کی وجہ سے حملہ آور طمطراق سے آئے اور اپنا ہدف حاصل کر کے بحفاظت واپس چلے گئے۔

اب حکومت اور اس کے ’’برگزیدہ‘‘ وزیر اور قصیدہ خواں قلم کار، تجزیہ نگار، اینکرز پورے جوش و خروش  مصروف ہو گئے۔  سب سے پہلا جملہ ’’اس میں بیرونی ہاتھ کارفرما ہے‘‘ یا ’’یہ حملہ خودکش تھا اور خودکش حملے کو روکنا ممکن نہیں‘‘ کیوں ممکن نہیں؟ کیا خودکش حملہ آور کوئی خلائی مخلوق ہے جو آناً فاناً آسمان سے آتی ہے اور اپنا ہدف حاصل کر کے اڑن طشتری میں بیٹھ کے واپس چلی جاتی ہے؟ جواب دیجیے اس سوال کا۔ لیکن وہ کیونکر جواب دیں گے؟ یہ زہریلے سانپ  ہمارے ہی کچھ لوگوں کی چھتر چھایہ میں رہتے ہیں۔

اصل میں بیرونی ہاتھ کے ملوث ہونے کا اشارہ ہمیشہ کسی کے کہنے پہ کیا جاتا ہے۔ پہلے اسے ’’خفیہ ہاتھ‘‘ کہا جاتا تھا۔ اب جو آئے ہیں وہ خود خفیہ ہاتھوں کے نرغے میں ہیں۔ حکومت اور اس کی اس نااہل اور ناکارہ ٹیم کو جس کے سربراہوں کا تقرر ذاتی پسند ناپسند کی بنیاد پر کیا گیا ہے وہ ایک بات اچھی طرح سمجھ گئے ہیں کہ ’’لگے رہو منا بھائی‘‘ اسی لیے تمام وزرا اور  افسران چند رٹے رٹائے جملے میڈیا کے آگے بول کے بری الذمہ ہو جاتے ہیں اور وہ بیانات وہی ہوتے ہیں جن کی طرف میں نے اشارہ کیا ہے۔ ایسے موقعوں پر جب یہ تمام ’’ملازم‘‘ اپنی نااہلی، اداروں کی غیر ذمے داری اور کرپشن کو چھپانے کے لیے ایک خیالی ’’خودکش بمبار‘‘ کا پیکر بھی تراش لیتے ہیں۔

اس کا خاکہ بھی جاری کر دیتے ہیں، ساتھ ہی اپنی وفاداری بادشاہ مملکت سے ثابت کرنے کے لیے اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ ثقہ اور سنجیدہ لوگوں کو ان کے بیانات سے گھن آنے لگتی ہے۔ جب جب خواہ وہ مہران بیس کا حملہ ہو، مون مارکیٹ لاہور کا دھماکا ہو، کراچی ایئرپورٹ پہ حملہ ہو یا واہگہ بارڈر پہ ہونے والا اندوہناک واقعہ۔ سب میں ایک قدر مشترک تو یہ ہے کہ انٹیلی جنس نے پہلے سے اطلاع دے دی تھی، لیکن متعلقہ اداروں کے سربراہان نے اسے سنجیدگی سے نہیں لیا۔ دوسری یہ کہ حملہ آور باآسانی آئے، ٹارگٹ حاصل کیا اور پیچھے چھوڑ گئے پرانے بیانات کی تکرار کہ حملہ خودکش تھا اور بیرونی ہاتھ کے ملوث ہونے کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ایسے موقع پر ایک کہاوت یاد آتی ہے کہ طویلے کی بلا بندر کے سر۔

سابقہ اور موجودہ نام حکمرانوںکے گٹھ جوڑ نے ملک کو غربت، افلاس، بھوک، مہنگائی اور بے روزگاری کے اندھے کنوئیں میں پھینک کر اوپر سے قصیدہ خوانوں کو اوپر بٹھاکر سچ کا گلا گھونٹنے اور ’’طویلے کی بلا بندر کے سر‘‘ کا جو کاروبار شروع کر رکھا ہے وہ بالکل ویسا ہی ہے جیساکہ ایک حکایت میں بیان کیا گیا قصہ کہ ایک بہو کو اپنی بوڑھی ساس سے خدا واسطے کا بیر تھا۔ وہ مسلسل میاں کے کان اس کی بے قصور ماں کے خلاف بھرتی رہتی تھی۔ کبھی ہنڈیا میں خود نمک زیادہ ڈال دیتی اور الزام ساس کو دیتی، سالن جلا دیتی اور قصور وار ساس ٹھہرائی جاتی، بچہ جھولے سے گر جاتا تو چیختی چلاتی کہ ساس نے گرایا ہو گا۔

بیٹا بھی ماں کو ہی قصور وار سمجھنے لگا۔ جب کہ پڑوسی ساری حقیقت جانتے تھے۔ مگر ان کے اپنے اپنے مفادات تھے کہ بیٹا ایک بڑا پولیس آفیسر تھا۔ لہٰذا بات یہاں تک جا پہنچی کے محلے میں کوئی واردات ہوتی تو اہل محلہ اسے بھی بہو کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اس کی ساس کے کھاتے میں ڈال دیتے جب کہ اندر سے سب جانتے تھے کہ اصل قصوروار کون ہے؟ اسی طرح ہر دہشت گردی کے واقعے کو ’’بیرونی ہاتھ‘‘ کی سازش قرار دینے کی احمقانہ بات اب ختم ہو جانی چاہیے۔ اپنی نااہلی خود حکومت کو قبول کر لینی چاہیے۔   پیشگی دی گئی اطلاعات کے پیش نظر سیکیورٹی کی ذمے داریاں بطریق احسن پوری کی جاتیں تو واہگہ بارڈر والا واقعہ کبھی پیش نہ آتا۔

کیا حملہ آور چھلاوہ تھا جو چار چار چوکیوں سے باآسانی گزر گیا؟ یا گزارا گیا؟ پورے تزک و احتشام اور منصوبے کے ساتھ؟ جن کے پاس بیرونی ہاتھ کے ملوث ہونے کے ثبوت ہیں تو انھیں برملا اس کا نام لینا چاہیے۔ اب لوگوں میں اتنا شعور بیدار ہو چکا ہے کہ وہ ان احمقانہ باتوں کو درخوراعتنا نہیں گردانتے کہ جو بھی غلطی ہوئی وہ بے چاری ساس سے ہوئی، بہو بیٹا بے قصور۔ کسی پر بھی بغیر حتمی ثبوت کے الزام لگانا بہت بڑا گناہ ہے۔ جو یہ بیانات دے کر اپنی ’’حب الوطنی‘‘ پکی کر رہے ہیں انھیں تمام تر ثبوت ٹیلی ویژن پر قوم کے سامنے پیش کرنے چاہئیں۔ طویلے کی بلا کو بندر کے سر باندھنے کا زمانہ گزر چکا۔

متعدد بار جب بھی لاہور جانا ہوا، تو واہگہ بارڈر بھی گئے ۔ تین بار میں وہ پریڈ دیکھنے گئی اور ہر بار انتہائی باریک بینی سے مرد و خواتین کو سیکیورٹی کے مراحل سے گزرنا پڑا۔ ہینڈ بیگ وغیرہ کی تلاشی بھی لی جاتی تھی اور میں نے چشم تماشا سے یہ حقیقت دیکھی کہ عام دنوں میں بھی کوئی فرد کسی اہل کار کی آنکھوں میں دھول جھونک کر اسٹیڈیم کے اندر نہیں جا سکتا تھا۔

پھر یہ کیا تماشا تھا کہ کئی کئی حفاظتی چوکیوں کی موجودگی میں یہ واردات ہوئی؟ بہت سے سوالات لوگوں کے ذہنوں میں اٹھ رہے ہیں، لیکن  حکومت کے حامیصحافی اور تجزیہ نگار  بھی ان سوالوں کے جوابات سے نظریں چرا رہے ہیں کہ کہیں مہران بیس کراچی اور کراچی ایئرپورٹ کی طرح اندر سے تو کوئی مدد فراہم نہیں کی گئی تھی۔ کراچی کے علاوہ دیگر شہروں مثلاً راولپنڈی، لاہور اور پشاور میں انتہائی اہم اور حساس اداروں پہ ہونے والے حملوں میں بھی اس بات کے امکانات موجود تھے کہ دشمن ہمارے اندر ہی ہے لیکن بوجوہ اس دشمن کا نام لینے کی حکومت میں بھی ہمت نہیں کہ انھیں صرف اپنی اور اپنے اہل خاندان کی زندگی پیاری ہے۔

اسی لیے وہ بھی سر میں سر ملا کر کہہ رہے ہیں کہ ’’بیرونی ہاتھ ملوث ہے‘‘ جب کہ اصل دشمن ہمارے اندر ہی ہے، لیکن نام کون لے؟ جب کہ حلوے مانڈے کا کام بیرونی ہاتھ کے نام لینے سے پورا ہو رہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔