واہگہ… تیری شام غریباں …

شیریں حیدر  اتوار 9 نومبر 2014
 Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

محرم کی پہلی تاریخ تھی، چھٹی کا دن تھا مگر پھر بھی اسکول میں سورج کے نکلتے ہی طلباء و طالبات کا ایک ہجوم تھا، ان کی عمریں نو سال سے پندرہ سال کے درمیان تھیں،ان کے چہرے خوشی سے سرشار تھے، انھیں اس روز صبح سویرے جاگ کر اسکول آنا بھی گراں نہ گزرا تھا، یقیناً رات بھر انھیں خوشی سے نیند بھی نہ آئی ہو گی اور سویرے بھی انھوں نے اپنے والدین کو جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر جگایا ہو گا کہ انھیں اسکول پہنچنے میں دیر نہ ہو جائے۔ اسکول کا ٹرپ جا رہا تھا اور یہ موقع ان بچوں کے لیے عید کا سا ہوتا ہے، ان مخصوص دنوں کی یاد ہمیشہ ان کے ذہنوںمیں رہے گی، جب ان کے اور اساتذہ کے مابین روایتی تعلق بدل جاتا ہے،اور وہ سب مل کر سفر سے لطف اندوز ہوتے ہیں ، اپنے ہم جماعتوں کے ساتھ معمول سے ہٹ کر کیے گئے یہ تفریحی اور معلوماتی سفر انھیں کبھی بھولنے والے نہیں ہوتے۔

وقت مقررہ سے پہلے بچے تو پہنچ گئے تھے مگر پھر بھی سات کوچوں کے اس قافلے کی روانگی میں مقررہ وقت سے کچھ تاخیر ہو گئی، محرم کے چاند کی تاریخ پر شک تھا اس لیے یہ ٹرپ اس دن کو رکھ لیا گیا تھا مگر چاند نظر آ جانے کے باوجود اسے منسوخ یا ملتوی نہیں کیا جا سکتا تھا کیونکہ بہت سے انتظامات کیے جا چکے تھے۔ ممکنہ تاخیر سے بچنے کے لیے، راستے میں کہیں نہ رکتا ہوا یہ قافلہ اپنے وقت مقررہ پر اسلام آباد سے لاہور پہنچا اور حسب پروگرام دوپہر کاکھانا کھا کر، ساڑھے تین بجے اپنی منزل مقصود پر پہنچ گیا، واہگہ بارڈر… (وہ جگہ جہاں عموما ان بچوں کے والدین انھیں لے جانے کا سوچتے بھی نہ ہوں گے کہ انھیں اس جگہ سے اتنا لگاؤ محسوس نہ ہوتا ہو گا جتنا بیرونی ممالک کی سیر و تفریح میں ہوتا ہے )جہاں انھیں چار بجے تک اپنی نشستوں پر براجمان ہونا تھا کہ عین ساڑھے چار بجے تقریب کے آغاز کا وقت تھا ، اس سے ایک پل پہلے نہ ایک پل بعد میں۔

یہ تقریب تھی واہگہ بارڈر پر ہونے والی پرچم اتارنے کی تقریب، جو ہر روز باقاعدگی سے وہاں منعقد ہوتی ہے، ہر روز ہزاروں لوگ اس پرجوش اور ولولہ انگیز تقریب کو دیکھنے کے لیے جمع ہوتے ہیں، اس میں اسکولوں اور دیگر تعلیمی اداروں کے گروپ ہوتے ہیں، سول اور دفاعی اداروں سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی اور کئی لوگ جو دوسرے شہروں اور بیرون ملک سے اس بات کا یقین کرنے آتے ہیں کہ ’’جنھیں لہور نہیں دیکھیا اوہ جمیا نئیں‘‘ اور لاہور دیکھنا اب اس تقریب کو دیکھے بغیر نا مکمل سمجھا جاتا ہے۔

تقریب کے آغاز سے بھی قبل، ہمارے طالب علموں نے اپنے اپنے پرچم سنبھال لیے جو کہ وہ اپنے ساتھ اسلام آباد سے لائے تھے، جس اسٹینڈ پر لگ بھگ ڈیڑھ سو لوگوں پر مشتمل اس گروہ کو جگہ ملی وہ اسٹینڈ سبز ہلالی پرچموں سے سج گیا۔ ان بچوں اور ان کے اساتذہ میں جوش اور ولولہ دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا، ڈھول پر تھاپ پڑی… فضا گونج اٹھی، چند سجیلے نوجوانوں کا گروہ میدان میں اترا… زمین ان کے قدموں کی دھمک سے لرز اٹھی، ان کے بانکے وجود ، غرور سے اٹھے ہوئے سر… وطن کی محبت سے سرشار تھے… ان کی چال میں اکڑ تھی، جذبہ تھا، ان کے انداز میںدشمن کے لیے غضب تھا، وہ اتراتے ہوئے پورے پنڈال میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک گئے، ہر طرف سے نعرے گونجنے لگے، ’’ اللہ اکبر !!!‘‘ پورا پنڈال تکبیر کے نعروں سے جیسے دبدبے میں آ گیا، ’’ پاکستان … زندہ باد!!!!‘‘ دشمن پر ہیبت طاری کرنے والے فلک شگاف نعرے کی آواز ابھری…’’ جیوے جیوے پاکستان!!!! ‘‘ ڈھول کی تھاپ کے ساتھ سب ہم آواز ہو کر کہنے لگے۔

نصف گھنٹے کی اس تقریب کے اختتام پر سب لوگ اٹھے اور روانہ ہوئے، ہمارے بچوں کا یہ گروپ بھی اٹھا اور اپنی بسوں کی طرف روانہ ہوا ۔ بچوں کے ننھے اذہان پر یہ تقریب نقش ہو کر رہ گئی تھی، واپسی کے سفر میں تمام وقت ان کا موضوع یہی تھا، کتنے بچے تھے جو کہہ رہے تھے کہ وہ بڑے ہو کر وطن کے محافظ بنیں گے اور کتنے تھے جو کہہ رہے تھے کہ اس تقریب میں شرکت سے قبل انھیں اندازہ ہی نہ تھا کہ مل کر وطن کی محبت کا نعرہ لگانے میں کتنی طاقت ہے، کوئی کہہ رہا تھا کہ میرا تو سارا خون ابلنے لگا جب میں نے سب کے ساتھ مل کر پاکستان زندہ باد اور جیوے جیوے پاکستان کہا تھا، کسی کو وطن کے ان محافظوں کے بوٹوں کی دھمک اور تقریب میں ان کے انداز نے اپنے ہی ملک کی فوج کی ہیبت میں مبتلا کر دیا تھا، غرض وہ دن اور اس کے بعد اسکول کی فیس بک کا صفحہ ان بچوں کے اسی تقریب کے حوالے سے تاثرات سے بھرا نظر آتا تھا۔

ایک ہفتہ… پورا ایک ہفتہ گزرا، وہی تقریب تھی، وہی سارا منظر دہرایا گیا ہو گا ، اسی طرح لوگ اس تقریب کے بعد مادر وطن کی محبت کے جذبے میں سرشار ہو کر اس پنڈال سے باہر نکلے ہوں گے… اور!!!

محرم کی چھٹیاں گزار کر… بوجھل دل کے ساتھ ، گیارھویں محرم کو اسکول پہنچے تو بچوں کے دل ملول اور ان کے چہرے بجھے بجھے نظر آئے، سب کی اداسی کا باعث ایک ہی تھا، محرم کی آٹھویں تاریخ کو، واہگہ بارڈر پر رونما ہونے والا خود کش دھماکا، جس نے ان تمام بچوں کے دلوںمیں ان خوش گوار یادوں کو دکھ اور کرب میں بدل دیا تھا، انھیں پل پل یاد آرہا تھا کہ جب وہ ٹیلی وژن پر دھماکے کے بعد تمام تر مناظر کو اپنی اس نظر سے دیکھ رہے تھے۔

جس میں جوش، جذبے، ہمت اور ولولے کی داستان رقم تھی، وہ داستان جو ابھی اچھی یاد تھی اور اب وہ بدل کر ماضی ہو گئی تھی… جانے ایک ہفتہ قبل ان میں سے کتنے جوان ہوں گے جو اس تقریب کے اہم کردار رہے ہوں گے،انھوں نے انھیں اپنی نظروں سے دیکھا ہو گا اور وہ اب نہ رہے ہوں گے… کئیوں کے منہ سے بار بار نکل رہا تھا، وہ سب ہم بھی تو ہو سکتے تھے…

ہاں ! وہ سب ہم بھی ہو سکتے تھے، آپ بھی ہو سکتے تھے، آپ کے کوئی پیارے بھی ہو سکتے تھے، آپ کے کوئی جاننے والے بھی ہوسکتے تھے!!! ہاں مگر وہ سب جو اس بے رحمانہ حملے کا شکار ہوئے، وہ سب ہمارے ہی تو تھے، میرے اور آپ کے۔ ہمارے ہم وطن اور ہم مذہب… وہ جو ہماری طرح ہی اس پر وقار تقریب کو دیکھنے گئے اور تاریک راہوں میں مارے گئے، خاندان کے خاندان، گروہ کے گروہ۔ ایک غیر ملکی طالب علم کی والدہ نے مجھ سے پوچھا، ’’ آپ کے ملک میں کوئی جگہ محفوظ ہے، جہاں ہم سوچیں کہ ہم جائیں تو دھماکا نہیں ہو گا، جہاں قتل نہیں ہو سکتا، جہاں کوئی آپ کو اغوا ء نہ کر سکتا ہو، جہاں گولیاں نہ چلنے کی ضمانت ہو!!! ہم تو اپنے ملکوں میں عبادت گاہوں کو محفوظ سمجھتے ہیں، آپ کے ملک میں وہ بھی نہیں ‘‘ آپ میں سے کسی کے پاس اس کے سوال کا جواب ہے تو دے!!!

محرم کا شمار تو حرمت والے مہینوں میں ہوتا ہے… مگر حرمت تواسی روز ختم کر دی گئی تھی جب نواسہء رسول کو مع اپنے خاندان کے ایک ایک بوند پانی کے لیے بھی ترسا ترسا کر شہید کر دیا گیا تھا، اب کون حرمت کی پاسداری کرتا ہے،اب تو ہمارے ملک میں ہر طرف کربلا ہے، ہر شام کسی نہ کسی جگہ شام غریباں ہوتی ہے، ہر روز انسانی جان کو بے مول کر دیا جاتا ہے، ہمیں تو خود علم نہیں کہ کون کہاں محفوظ ہے، ہم تو گھر سے نکلتے ہیں تو علم نہیں ہوتا کہ لوٹ کر گھر آئیں گے بھی یا نہیں، ناگہانی اور حادثاتی اموات کا تناسب جو اب ہے، پہلے کبھی نہ تھا۔ دیار غیر سے پیغامات آتے ہیں کہ ہم اس ملک میں رہتے کس طرح ہیں۔

جسے دنیا کے خطرناک ترین ملک میں سے ایک قرار دیا گیا ہے… کیا جواب دیں؟؟ کہ ہم ایک بہادر قوم ہیں، موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جیتے ہیں یا کہیں، کہ ہم ایک غافل قوم ہیں جنھیں معلوم ہی نہیں کہ کس کی خاطر جان دے رہے ہیں اور کبوتر کی طرح آنکھیں بند کیے اپنے حصے کی گولی کا انتظار کر رہے ہیں۔ ہمیں اس گولی سے فرق پڑتا ہے جو یا تو ہمارے وجود سے پار ہو گی یا جس کا شکار ہمارا کوئی واقعی اپنا ہو گا، ورنہ باقی جانے والوں کو اپنا کہنا آسان اور ایک کتابی سی بات ہے، ہم کچھ بھی نہیں بدلتے، نہ اپنی سوچ، نہ معمول، نہ کام کار کے اوقات، ساری دنیا کا نظام اسی طرح چلتا رہتا ہے، جس گھر کا چراغ بجھتا ہے اندھیرا اسی گھر میں ہوتا ہے، جس کے مقدر کا ستارا آسمان پر ٹوٹتا ہے اس کے لیے دنیا اور اس کا سارا نظام بدل جاتا ہے۔کون کہتا ہے کہ اب بھی مسلمان ایک جسم کی طرح ہیں، جس کے ایک حصے پر چوٹ لگے تو سارا جسم تکلیف محسوس کرتا ہے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔